جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (2)

اوریا مقبول جان  پير 6 جون 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بیسویں صدی سیکولر اور جمہوری ریاستوں کی صدی ہے۔ ایک صدی جب کاروبار ریاست سے مذہب کو دیس نکالا دیا جا چکا تھا۔ اس کے آغاز یعنی 1901ء میں دنیا کے نقشے پر یا تو سیکولر جمہوری ریاستیں تھیں یا پھر ان کی کالونیاں یعنی زیر تسلط علاقے، فرانس، برطانیہ اور ہالینڈ یہ تھیں تین جمہوری سیکولر ریاستیں اور ان کے ظالم پنجوں کے نیچے پوری دنیا کے مختلف علاقے بدترین غلامی، شدید استحصال اور بے پناہ غربت و افلاس کا شکار تھے۔ پوری دنیا ان تینوں سیکولر جمہوری ریاستوں کی عملداری تھی اور ان کے ظالمانہ نظام کو ایک اور سیکولر جمہوری ریاست امریکا کی طاقت، اور ہیبت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ دنیا میں مذہب کے نام پر کوئی ریاست وجود نہیں رکھتی تھی۔

کاروبار سلطنت سے مذہب کو دیس نکالا مل چکا تھا۔ لیکن کیا یہ انسانی تاریخ کا چیختا ہوا سچ نہیں ہے کہ یہ صدی انسانی تاریخ کی سب سے خوفناک اور خونی صدی تھی۔ انسانوں نے کبھی اس سے پہلے اتنے انسان قتل نہیں کیے جتنے اس صدی میں ہوئے۔ جرائم کی تفصیل اس قدر طویل ہے کہ اس کے بیان کو ایک عمر چاہیے۔ سب سے پہلے اس صدی کے سیکولر جمہوری حکمرانوں کی براہ راست لڑی جانے والی جنگوں کاتذکر ہ کر لیتے ہیں۔ جنگ عظیم اول میں اتحادی افواج میں تمام منتخب جمہوری حکومتیں شامل تھیں۔ فرانس میں ریمنڈ یونیکاری صدر تھا، برطانیہ میں پہلے ایچ ایچ الیسکوتھ اور پھر ڈیوڈ لائڈ جارج وزیراعظم تھے۔ امریکا میں وڈرو ولسن صدر تھا، جاپان میں اوکوما شنگنوبو وزیراعظم اور جرمنی میں تھیوبالڈ ہالویگ چانسلر تھا۔ ان سب جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں نے پوری دنیا پر ایک ہولناک جنگ مسلط کی جو نہ کسی مذہب کی بالا دستی کے لیے تھی اور نہ کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے ۔ بس جنگ تھی، ایسی ریاستوں کی خوفناک جنگ جنھوں نے کچھ عرصہ قبل ہی مذہب کو ریاست سے  نکالا تھا۔

اس جنگ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چار کروڑ جیتے جاگتے انسان مارے گئے۔ بیس لاکھ افراد بیماریوں کی وجہ سے مر گئے۔ اور ساٹھ لاکھ لوگ ابھی تک لاپتہ شمار کیے جاتے ہیں۔ اس جنگ کے دوران 1918ء میں موت کے سائے کی طرح ایک بیماری پھیلی جسے ا نفلوئزا کہا گیا اور اسے اسپین کا انفلوئزا بولا جاتا رہا۔ ان سیکولر جمہوری ریاستوں اور حکومتوں کا جنگی جنون اس قدر خوفناک تھا کہ انھوں نے لوگوں کا مورال بلند رکھنے کے لیے اس کی اموات کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ اس طرح کی وبا کے دوران انسانوں کی آمدورفت پر پابندی لگا دی جاتی ہے تا کہ مزید نہ پھیلے لیکن جنگ تو جنگ ہوتی ہے۔ سپاہیوں نے مستقل ادھر سے ادھر ہونا تھا۔ یہ وائرس یورپ کی افواج میں آسٹریا میں پھیلا اور پھر یہ فوجیوں کے درمیان گھومتا ہوا دنیا بھر میں پھیل گیا۔

انسانیت کے ان عظیم سیکولر جمہوری رہنماؤں کو انسانیت کا خیال تک نہ آیا کہ جنگ روک کر لوگوں کو سرحدوں میں قید کر کے علاج کیا جا ئے اور بیماری یا وبا کو روکا جائے۔ انھیں تو فتح کا جنون تھا اور جنگ کا ہوکا۔ آج بھی فورٹ رلی ’’Riley‘‘ میں ان فوجیوں کی تصویریں مل جائیں گی جو اس بیماری سے اسپتال میں قطار در قطار بستر پر پڑے ہیں۔ جنھیں تھوڑی بہت دوا دے کر پھر جنگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 1918ء کے اس انفلوائزا سے تقریباً دس کروڑ لوگ ہلاک ہوئے یعنی دنیا کی پانچ فیصد آبادی صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ لیکن ان لوگوں نے نہ جنگ روکی اور نہ ہی لوگوں تک دوا پہنچائی کہ سب کچھ تو اسلحے پر خرچ ہو رہا تھا۔16 کروڑ اموات کا یہ تحفہ اس صدی کے آغاز میں ان جمہوری طور پر منتخب اور سیکولر حکومتوں نے انسانیت کو دیا۔

اس جنگ میں کسی کو شکست ہوئی تو کوئی فاتح، شکست خوردہ جرمنی سے ایک عظیم جمہوری رہنما نے جنم لیا جو اس بلا کا مقرر تھا کہ لوگ دیوانہ وار اسے سننے کے لیے جاتے۔ اس نے جرمن قوم کو زندہ کرنے کا نعرہ بلند کیا، یہ مقبول رہنما ہٹلر تھا جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر جرمنی کا چانسلر بنا۔ دوسری جانب اس کے مقابلے پر بھی انتہائی مقبول سیاسی رہنما اور جمہوریت کی آبرو چرچل تھا جو برطانیہ کے عوام کے دلوں میں دھڑکن کی طرح بستا تھا۔ امریکا میں بھی ایک مقبول صدر اور منتخب حکمران روز ویلٹ موجود تھا اور فرانس کا ہر دلعزیز جمہوری لیڈر ڈیگال برسراقتدار تھا۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنھیں سیکولر جمہوری ریاستوں کی آبرو کہا جاتا ہے۔

ان سب  لوگوں نے اس دنیا میں جس قدر قتل و غارت کا بازار گرم کیا، جو حیوانیت اور درندگی دوسری جنگ عظیم میں اٹھائی گئی اس کی مثال اگر کسی قہر اور آفت سے دی جائے تو وہ بھی شرمندہ ہو جائیں۔ اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 8 کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے جن میں پانچ کروڑ پچاس لاکھ عام شہری تھے۔ ان اموات کی تفصیل پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ جمہوری سیکولر حکمران کیسے بستیوں کی بستیاں اجاڑتے تھے، کسی خاص نسل ، زبان یا مذہب کے افراد کو قتل کرتے تھے، لوگوں تک خوارک کی ترسیل روکتے تھے۔

اسی جنگ کے دوران بنگال میں قحط پھیل گیا۔ فصلیں تباہ ہو چکی تھیں، لوگ خوراک کو ترستے تھے۔ برطانیہ کی جمہوری سیکولر ریاست ہندوستان پر حکمران تھی۔ 1943ء میں اس قحط کے دوران خوراک کی ترسیل روک دی گئی کہ حکومتوں کو جنگ سے فرصت نہ تھی۔ چالیس لاکھ لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے جن میں نوے فیصد سے زیادہ مسلمان تھے۔ یہ صرف اس صدی کی دو جنگوں کا تحفہ ہے جو انسانیت کو ان حکومتوں نے د یا۔ وہ ریاستیں جو اس بنیاد پر قائم کی گئی تھیں کہ ریاست سے مذہب کو علیحدہ کر دو کہ یہ خونریزی کا باعث بنتا ہے۔ مجھے اسلام کے علاوہ کسی مذہب کی وکالت نہیں کرنا۔ اس لیے کہ یہ دستور بنا لیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں چرچ کے گناہوں، زیادتیوں اور مظالم کا ملبہ مذہب کے نام پر اسلام کو ریاست سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صرف ان دو جنگوں میں جتنے افراد قتل کیے گئے، جتنے شہر ویران ہوئے اور جو ظلم و دہشت کا بازار گرم کیا گیا۔

اگر میرے دوست اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں فتوحات سے لے کر خانہ جنگیوں تک اور مسلکی قتل و غارت تک سب ملا کر ان دونوں جنگوں میں اموات کا دس فیصد بھی نہیں نکال سکیں گے۔ بلکہ ان دونوں جنگوں کی کل اموات کو پوری تاریخ انسانیت کی جنگوں کے مقابلے میں رکھا جائے تو یہ اموات زیادہ نکلیں گی۔ کسی چنگیز خان، ہلاکو، سکندر یا فرعون و نمردو ، سینرر  و اشوک کے نصیب میں بھی اتنے قتل و غارت کے غلغلے نہیں ہیں جتنے ان جمہوری طور پر منتخب اور عوام کے دلوں میں بسنے والے سیکولر رہنماؤں کے نصیب میں تھے۔ یہ تو صرف دو جنگوں کا ذکر ہے جو ذرا بڑے پیمانے پر لڑی گئیں۔ ان کے بعد یہ لوگ کہاں چین سے بیٹھ گئے۔

ایک طرف جمہوری حکمران تھے تو اسی صدی میں دوسری طرف اللہ کے وجود سے منکر اور غریب کی بادشاہت کا نعرہ لگانے والے کمیونسٹ بھی دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے قریب 1917ء میں انھوں نے روس سے مذہب کو دیس نکالا دے دیا اور سوویت یونین وجود میں آ گیا۔ لیکن اسی انقلاب کے دوران ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں ازبکستان، تاجکستان، کرغسیتان، قازقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کو بدترین قتل و غارت سے 1934ء تک سوویت یونین کا حصہ بنایا گیا۔ یوکرین پر جب قبضہ کیا گیا تو سرخ فوج نے شہر سے پچاس ہزار نوجوانوں کو باہر نکالا اور قطار میں کھڑے کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ پولینڈ، چیکو سلواکیہ، یوگوسلاویہ ان سب پر حملہ کیا گیا۔ لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا تا کہ ایک مذہب سے دور ریاست قائم ہو جو کمیونسٹ نظام زندگی کو نافذ کرے۔ دوسری جانب جنگ عظیم اول کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ امریکی ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدور اور کانگریس کے ممبران جمہوری طور پر فیصلے کرتے رہے کہ ہم نے ویتنام میں فوج بھیجنا ہے، فلپائن پر حملہ کرنا ہے، چلی، نکارا گوار، ہنڈراس، برازیل اور لاطینی امریکا کے دیگر ممالک میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کیا گیا۔

قتل و غارت کے ساٹھ سال، انسانی تاریخ کا بدنما اور مکروہ دور جب جمہوری اور کمیونسٹ ریاستیں انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی تھیں اور دونوں کے کاروبار ریاست سے مذہب کو بے د خل کیا جا چکا تھا۔ 1954ء سے 1975ء تک چلنے والی ویتنام جنگ میں پندرہ لاکھ انسان موت کی آغوش میں چلے گئے۔ یہ صرف ایک ملک کی اموات کا شمار ہے۔ جنوبی امریکا، افریقہ، مشرق بعید، مشرق وسطیٰ کی اموات کا حساب لگائیں تو یہ سب ا یک جنگ عظیم کے برابر بن جاتی ہیں۔ یہ ہے سب اس صدی میں ہوا جسے انسانی ترقی، مذہب سے  ریاست کی آزادی، جمہوریت کا بحیثیت نظام مسلط ہونا ، ٹیکنالوجی اور عالمی انسانی حقوق کی بالادستی کی صدی کہا جاتا ہے۔

اس صدی کے ظلم کا ملبہ کندھوں پر اٹھائے ہم ایک اور خونی صدی یعنی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں جو گیارہ ستمبر کے واقعے سے اپنے خونی سفر کا آغاز کر چکی ہے۔ یہ ریاست کی مذہب سے آزادی کی مختصر سی کتھا اور جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کا کردار۔ اس کے باوجود بھی کس قدر ڈھٹائی سے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ انسان کی ترقی ایک سیکولر جمہوری نظام حکومت میں مضمر ہے۔ انسانی جان کی بے وقعتی ، بے حرمتی اور بے قیمتی کا اس سے برا تصور نہیں ہے اور کروڑوں لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اس تصور حکومت کی وکالت کس قدر حوصلے اور ڈھٹائی کی بات ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔