پاکستان کا بکاؤ میڈیا

نصرت جاوید  بدھ 21 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جب سے انٹرنیٹ پرفیس بک اور ٹویٹر والے کارخانے ایجاد ہوئے ہیں ہمارے اسلام سے محبت اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کے غم میں مبتلا رہنے والے نوجوانوں کا کام بہت آسان ہوگیا ہے ۔

دُنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم ہوجائے تو وہ پاکستانی صحافیوں اور خاص طور پر ٹی وی اسکرینوں پرنظر آنے والے اینکروں کو اصلی یا فرضی ناموں سے پیغامات بھیجنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جن کی اکثریت یہ سوال کرتی ہے کہ پاکستان کا ’’بکائو میڈیا‘‘ اس واقعے کے بارے میں خاموش کیوں ہے ۔غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے بارے میں بھی یہی رویہ اپنایا جا رہا ہے ۔

غزہ میں جاری موجودہ ظلم پرکوئی بات کرنے سے پہلے میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی میڈیا اتناطاقتور نہیں ہے جتنا ہم فرض کیے بیٹھے ہیں ۔چینلوں کے ’’مجاہد‘‘ اینکروں کی اکثریت طاقتورقوتوں کے ساتھ مل کر کمزوروں کو ’’ایک دھکا اور دو‘‘ کے عمل میں مصروف رہا کرتی ہے ۔’’جعلی ڈگریوں‘‘ کے ذریعے منتخب ایوانوں میں پہنچ جانے والے ’’چور اور لُٹیرے‘‘ ہمارے میڈیا کا بنیادی ہدف ہیں اور میرے جیسے بے باک اینکروں نے انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ بالآخر ایسے حالات پیدا کر ہیں جہاں عوام کی اکثریت جمہوری نظام سے متنفرہوکر ملکی معاملات سے لاتعلق ہوگئی ہے ۔

اپنے حالات پر اب بھی جلنے کڑھنے والے پھر کسی ’’مردِ مجاہد‘‘ کا بے چینی سے انتظار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب صرف وردی میں ملبوس مجاہدوں کا انتظارنہیں کیا جارہا ۔بہت ساری اُمیدیں’’آزاد عدلیہ کی بالادستی ‘‘ کے تصور سے بھی وابستہ کر لی گئی ہیں یا پھر توقعات ہیں تو ’’تبدیلی کے نشان‘‘ سے۔

فلسطین کی داستانِ الم آج سے نہیں 1948سے شروع ہوتی ہے اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے قیام کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بیدخلی کی ٹھوس سیاسی اور سفارتی مزاحمت کسی عرب ملک نے نہیں ، پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت نے فراہم کی جسے اپنے قیام کے روز سے ہی اپنے طورپر ہزاروں دیگر بحرانوں نے گھیرلیا تھا۔

فلسطین کے مسئلہ کو حل کرنے کا سب سے پہلا عرب دعوے دار مصر کا انقلابی رہ نما جمال ناصر بنا جو عرب قومیت کے نام پر پوری مسلم دُنیا کا ٹھیکے دار بننے کے خبط میں بھی مبتلا تھا۔پاکستان کو اسی جمال ناصر نے پوری عرب دُنیا میں ایک ’’بے ضمیر امریکی غلام‘‘ کے طور پر مشہور کیا ۔یہ بات یاد رکھے بغیر کہ ترکی اور ایران جیسے ’’مستحکم اسلامی ممالک ‘‘تو اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیے بیٹھے تھے بلکہ اس کے ساتھ گہرے سفارتی تجارتی اور دفاعی رشتے بھی قائم کیے ہوئے تھے ۔

یاسر عرفات کسی زمانے میں اسی مصر کی فوج میں ایک میجر ہوا کرتے تھے ۔انھیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ جمال ناصر فلسطینیوں کے دُکھوں کو محض اپنی ذات کو ہیرو بنانے کے چکر میں استعمال کر رہا ہے ۔بڑی خاموشی سے انھوں نے مصر چھوڑا اور کویت میں رہ کر برسوں کی جدوجہد کے بعد ایسے فلسطینی اپنے اردگرد جمع کرلیے جو اپنے وطن کو ایک بھرپور تحریک کے ذریعے آزاد کروانا چاہتے تھے ۔یاسر عرفات نے فلسطین کی آزادی کے لیے جو تنظیم بنائی اس میں فلسطینی عیسائیوں کی بڑی اکثریت بھی بہت متحرک تھی ۔

عیسائیوں کی یہ شرکت یاسر عرفات اور ان کی تنظیم کی طرف سے دُنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے کافی تھی کہ وہ ’’صرف یہودیوں ‘‘کے لیے بنائی گئی ایک نسل پرست ریاست اسرائیل کی جگہ ایک جدید اور جمہوری فلسطین قائم کرنا چاہتے ہیں ۔جمال ناصر نے PLOکو’’عرب انقلاب‘‘ پر اپنی شخصی اجارہ داری کے لیے خطرے کے طور پر لیا اور 1967میں اسرائیل سے اپنے تئیں جنگ لڑ کر بدترین شکست کھائی۔ناصر کی شکست نے یاسر عرفات کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اُردن پہنچ کر اپنے وطن کی آزادی کے لیے اور آگے بڑھیں ۔

یہ بات مگر اُردن کے شاہ حسین کو پسند نہ آئی اور اس نے ہمارے ہی ایک عظیم مجاہد ضیاء الحق کے ذریعے فلسطینیوں کو اُردن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ فلسطینی جان بچا کر اُردن سے لبنان پہنچے تو شام کے صدر اسد نے انھیں اپنا طفیلی بنانا چاہا۔یاسر عرفات قابو میں نہ آئے تو شام نے لبنان میں عیسائیوں کی پشت پناہی شروع کردی۔شام کے پروردہ عیسائیوں نے یاسرعرفات کو لبنان اور ان کے ملک میں ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ بنالینے کا ذمے دار ٹھہرایا اور پھر عیسائی PLOتنازعے کے ایک بڑے نازک موڑ پر اسرائیلی فوجوں نے بیروت میں گھس کر فلسطینی کیمپوں میں وحشیانہ قتل عام کے ذریعے یاسر عرفات اور ان کی تنظیم کو اسرائیلی سرحدوں سے بہت دور تیونس میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔

عرب حکمرانوں کی طرف سے یاسر عرفات اور ان کی تنظیم کو کمزور اور بے اثر کرنے کے اس پورے عمل کے ساتھ ہی ساتھ اسرائیل نے بھی بڑی مکاری سے ان لوگوں کی سرپرستی کی جو فلسطین کو ’’صرف مسلمانوں ‘‘کا مسئلہ بنانے کے خواہاں تھے ۔بعدازاں پٹرول کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستوں نے انھی عناصر کی پشت پناہی شروع کردی۔حماس بنیادی طور پر ایسے ہی لوگوں کی صفوں میں سے اُٹھی ہے ۔وہ اسرائیل سے زیادہ PLOکی دشمن ہے اور ایک ’’راسخ العقیدہ‘‘ اور صرف مسلمانوں کا فلسطین قائم کرنا چاہتی ہے ۔

اس کی صفوں میں موجود انتہاء پسندوں کے بہت سارے اقدامات اسرائیلی انتہاء پسندوں کے بڑے کام آتے ہیں ۔آج کل بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔نظر بظاہر غزہ پٹی سے اسرائیلی ’’شہریوں‘‘ پر راکٹ فائر کیے جاتے ہیں ۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اسرائیل ان راکٹوں کو فضاء میں ہی ناکارہ بنا دیتا ہے ۔مگر راکٹوں کا محض فائر کیے جانا اسے ’’اپنے بے گناہ شہریوں کے تحفظ‘‘ کا بہانہ ضرور دے دیتا ہے۔

’’حماس‘‘ کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید ’’عرب بہار‘‘ کے بعد مصر ان کی مدد کرے گا جہاں ان کی ’’مادرتنظیم‘‘ اخوان المسلمون کی صفوں سے نکلا محمد مرسی ایک آزادانہ تنظیم کے بعد بھاری اکثریت سے صدر بنا ہے ۔مرسی کا مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اپنے ملک میں ’’النور ‘‘تنظیم بہت مقبول ہو رہی ہے ۔اس تنظیم کا مصر کے میڈیا پر بڑا کنٹرول ہے اور وہ دن رات واویلا مچا رہی ہے کہ مرسی کے انتخاب کے باوجود مصر میں اسلام پوری طرح لاگو نہیں ہوا۔

مرسی اور النور کی کشمکش نے مصری معیشت کو جامد کر رکھا ہے ۔امریکا سے 4ارب ڈالر کا بھاری قرضہ لے کر مرسی اسے کسی طرح چالو کرنے کی فکر میں مبتلا ہے ۔وہ غزہ کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہ کر پائے گا ۔ مصر کے بعد ترکی میں بھی آج کل ایک ’’اسلامی جمہوری حکومت‘‘ ہے جو غزہ کے مسلمانوں کی مدد کرسکتی ہے ۔مگر اسے غزہ سے زیادہ شام کے مسلمانوں کو بشارالاسد کی حکومت سے ’’آزاد‘‘کروانا ہے ۔اُردن ویسے ہی فارغ ہے ۔

ایسے میں غزہ سے راکٹوں کو اسرائیل بھیجنا آ بیل مجھے مار والی حرکت تھی۔نیتن یاہو جسے جنوری میں انتخاب کا سامنا کرنا ہے اس بے وقوفی کو وحشیانہ طور پر اپنے حق میں استعمال کررہا ہے اور سارے مسلم ممالک سوائے نوحہ خوانی کے اور کچھ نہیں کر پا رہے ۔علم کو مسلمانوں کی گم شدہ میراث کہا جاتا ہے ۔میرا دُکھ تو یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت علم سے محبت کے بجائے غلط زبان میں لکھے جارحانہ لفظوں کے ذریعے دُنیا بھر کے مسلمانوں کا تحفظ کرنا چاہ رہی ہے ۔کوئی یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہو رہا کہ لڑائی بڑی تیاری کے بعد ٹھوس حکمت عملی کے ذریعے ہی جیتی جاسکتی ہے ۔بڑھکیں لگانا اورپھر رونا دھونا کسی کام نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔