سچ کا سورج

ظہیر اختر بیدری  پير 6 جون 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کرۂ ارض کے انسانوں کے مستقبل کی صورت گری کرنے میں فلسفہ اور منطق اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، ان فکری ہمالیاؤں پر کھڑے ہوکر انسان ماضی اور حال کا نظارہ بھی کرتا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ فکری محاذ کے ان شہ سواروں کے خیالات و نظریات، فلسفے اور منطق عموماً عوام کی نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں، کیونکہ ان کی راہ میں بااختیار بونے دیوار بنے کھڑے رہتے ہیں۔سائنس کے حوالے سے کرۂ ارض کی عمر 4 ارب سال بتائی جاتی ہے، اس ناقابل یقین طویل عرصے میں دنیا میں کتنی تہذیبیں پروان چڑھیں اور مٹ گئیں، اس کا اندازہ مشکل ہے، البتہ ہڑپہ، موئن جو دڑو، ایلورا، اجنتا جیسے آثار قدیمہ کو دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں بھی بوجوہ انسانی تہذیب زیر زمین جاتی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہو تو کرۂ ارض ابھی سو ارب سال تک زندہ رہے گا۔ سورج جو ہمارے نظام شمسی کا جنریٹر ہے، 3 ارب سال بعد اپنی توانائی کھو دے گا، یوں کرۂ ارض سمیت ہمارے نظام شمسی کا انت ہوجائے گا، جسے آپ قیامت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی مختصر سی زندگی کو خوشی اور مسرت کا گہوارہ کس طرح بنایا جائے؟ کرۂ ارض پر بسنے والے 7 ارب کے لگ بھگ انسانوں میں سے 80 فیصد انسانوں کی زندگی جہنم بنی ہوئی ہے اور اس المیے کی ذمے داری عیار انسان نما حیوانوں پر آتی ہے جو زندگی کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اپنی اس کوتاہ بینی کی وجہ سے دنیا کے 80 فیصد انسانوں کی پرمسرت زندگی پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انسانوں کی معاشی بدحالی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ مختلف حوالوں سے انسانوں کی تقسیم ہے۔

اس تقسیم میں سب سے بڑی حساس اور خطرناک تقسیم مذہبی تقسیم ہے۔ آدم کی یہ اولاد اس حوالے سے اس قدر حساس ہے کہ وہ کوئی ایسا سچ سننے کے لیے تیار نہیں جو ان کے عقائد و نظریات کی نفی کرتا ہو۔ لیکن سچ کو تسلیم نہ کرنے سے سچ ختم نہیں ہوجاتا، سچ ہمیشہ سورج کی طرح روشن رہتا ہے، یہ کمزور آنکھوں کا قصور ہے کہ وہ سورج کو دیکھنے کی اہل نہیں ہوتیں۔ میں نے اپنے کالموں میں بار بار اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ ’’عقائد و نظریات کا تعلق ہر دور کے علم اور معلومات کے مطابق ہوتا ہے‘‘ اگر انسان اس حقیقت کو سمجھ لے تو وہ زندگی کے حوالے سے بہت سارے المیوں سے بچ سکتا ہے۔ بلاشبہ کرۂ ارض کے 7 ارب انسانوں کی زندگی کو جہنم بنانے میں ان کی تقسیم کا بہت بڑا دخل ہے۔ لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ کرۂ ارض کے شاطرین نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اس تقسیم کو گہرا کر دیا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ جدید علوم سے انسان کی لاعلمی ہے۔

بیسویں اور اکیسویں صدی کی فکری ترقی نے زندگی کے ہر شعبے کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ لیکن تمام تر ترقی کے باجود بنی نوانسان عقائد کے حوالے ہی سے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور یہ دشمنی ان 80 فیصد انسانوں میں شدید تر ہے جو دو وقت کی روٹی کے محور پر ساری زندگی گردش کرتے رہتے ہیں۔

ان معصوم بے وقوفوں کو کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ ’’تم سب آدم کی اولاد ہو‘‘ اور مذاہب دشمنی نہیں سکھاتے۔ انسان اس حقیقت کو سمجھ لے تو نفرتوں، عداوتوں سے انسان کا رشتہ ٹوٹ سکتا ہے اور دنیا امن و آشتی کی طرف پیش قدمی کرسکتی ہے، لیکن جو طبقات امن و آشتی اور انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں وہ انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے راستے میں دیوار بنے کھڑے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفرتوں، عداوتوں اور بیگانگیوں کی دھند چھٹ رہی ہے۔ بھارت جیسے ہماری طرح پسماندہ ملک میں رنگ، نسل، ذات پات ، زبان کی تنگ نظریاں وقت کے دھارے میں ڈوبتی جا رہی ہیں اور انسان انسانیت کی طرف پیش رفت کر رہا ہے۔

پاکستان کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ملک ابھی تک قبائلی دلدل سے باہر نہیں نکل سکا۔ اس قبائلی فکر نے انسان کو اس قدر اندھا بنادیا ہے کہ وہ اپنے جسم پر بارودی جیکٹ باندھ کر نہ صرف اپنے جسم کو لوتھڑوں میں بدل رہا ہے بلکہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ لوگوں کے جسم کو بھی ریزہ ریزہ کر رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے بھی اس حیوانیت کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ عسکری بنالیا ہے۔

9/11 سے پہلے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی جس جگہ کھڑی ہوئی تھی مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد اب 9/11 کی دہشت گردی پوری دنیا تک پھیل گئی ہے ۔ حیرت ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے اہل فکر، اہل علم، اہل دانش، عقل سے عاری حکمرانوں کو یہ سمجھانے میں تساہل برت رہے ہیں کہ نظریاتی جنگیں نہ ہتھیاروں سے لڑی جاسکتی ہیں نہ ہتھیاروں سے جیتی جاسکتی ہیں۔ اس جنگ کو نظریاتی ہتھیاروں سے ہی جیتا جاسکتا ہے، جو کھربوں کا سرمایہ ہتھیاروں کی جنگ پر پھونکا گیا اس کا نصف بھی علم کے پھیلاؤ پر خرچ کیا جاتا تو دہشت گردی اس قدر نہ پھیلتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔