بجٹ کے ہندسے اور ناانصافی کا سر چشمہ

جاوید قاضی  پير 6 جون 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اگر کسی کو ہندسوں میں اس ملک خداداد کے کاروبار میں ناانصافی کا پیمانہ تولنا ہو تو ہمارا بجٹ اس کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ملک کی آدھی آبادی زراعت سے براہ راست تعلق رکھتی ہے۔ شرح نمو چار اعشاریہ سات فیصد ہوئی بھی اگر اس رواں مالی سال میں جوکہ آٹھ سالوں کے بعد مارا ہوا ایک معرکہ ہے تو اس مجموعی ملکی پیداوار میں یہ زراعت کا شعبہ پچیس فیصد حصہ دیتا ہے، تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب یہ ملک میں بہت اچھی طرح شرح نمو بڑے سالوں کے بعد دکھانے کے اگر لائق بھی ہوا تو بے چاری زراعت منفی رہی۔

یوں کہیے کہ ان اچھے زمانوں میں دہقاں و زراعتی مزدور و ان کے اہل و عیال شریک نہ رہے۔ ویسے بھی میاں نواز شریف کی حکومت جب بھی آئی صنعتی شعبے وغیرہ پر ان کی عنایات رہیں مگر زراعت پر نہ رہیں۔ ایک زمانہ تھا ہم نے دنیا سے گندم مہنگے داموں لی مگر اپنے دہقانوں سے نہ لی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ زرداری صاحب کے زمانوں میں دیہی پاکستان یا یوں کہیے کہ زراعت کے شعبے سے جو لوگ منسلک تھے وہ بہتر ہوئے۔ گندم کی قیمت کیا بڑھی پاکستان گندم میں بمپر کراپ دیتا رہا کہ گندم درآمد کرنا پڑی۔ لگ بھگ 28 فیصد کپاس پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال کم ہوئی اور اگر یہ نہ ہوتی تو شرح نمو 5.1 ہوتی۔ زراعت 1971 میں ہماری مجموعی پیداوار کے 40 فیصد کے برابر تھی۔

زراعت کا حصہ اب مجموعی پیداوار میں کم تو ہوا مگر اس سے منسلک دہقاں و زراعتی مزدور کم نہ ہوئے۔ یہ ماڈل یا حقیقت میری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ دنیا میں جب بھی اس شعبے کا مجموعی پیداوار میں حصہ کم ہوا تو اس سے منسلک ورک فورس بھی کم ہوا۔

یہ حقیقت ہمیں ایک بھیانک شکل دکھاتی ہوئی نظر آرہی ہے اس ملک میں ایک طرف غریب و امیر میں فرق بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری طرف دیہی و شہری فرق بھی اسی بھیانک انداز میں ۔ جس طرح یہ شکل ہندوستان میں ہے یعنی ان کی شرح نمو گزشتہ بیس سالوں میں سات اعشاریہ کے ساتھ ہر سال اوسطاً بڑھتی رہی،  نہ بدلی اگر حالت زار تو وہ دیہی ہندوستان تھا۔ یہ ماجرا کچھ فرق کے ساتھ چائنا کا بھی ہے، اس نے اس کے لیے انقلابی قدم اٹھا لیے ہیں۔ جو ہمارے پاس چائنا سے راہداری کا پراجیکٹ ہے وہ چائنا اس لیے لا رہا ہے تاکہ وہ اپنے مغربی حصے جو پاکستان و سینٹرل ایشیا کو لگتے ہیں جہاں بہت غربت ہے جہاں مذہبی انتہا پرستی اس غربت کی وجہ سے بڑھ رہی ہے اس کو روکا جاسکے ۔ چائنا کتنا بھی آمریت والا ملک کیوں نہ ہو وہ ہندوستان پاکستان کے مقابلے میں معاشی انصاف قدرے بہتر انداز میں دینے کا قائل ہے۔

پنجاب کا ساؤتھ غربت میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ سندھ کے دیہات بھی اور بلوچستان تو پورا۔ یہ یہی حال خیبر پختونخوا کا بھی ہے۔  پھر یہ کون سا پاکستان ہے؟ سوائے بلوچستان کے باقی جگہوں پر جو بالائی حصے ہیں وہاں مدرسوں کے انبار لگ گئے ہیں۔ اب یہی ذریعہ معاش رہا ہے ان غریبوں کے لیے یا تو پیش امام بنیں گے یا پھر جہاد کی طرف راغب ہوں گے ،  کلاشنکوف اٹھائیں گے اور ایسے بھی ہیں جو خودکش بھی بنیں گے۔

میاں صاحب کے پاس صرف موٹروے والا پاکستان ہے اور وہ سینٹرل پنجاب سے اوپر اٹھ نہ سکے جہاں پر شرح نمو سات فیصد ہوگی، مگر ایک ایسا پاکستان بھی ہے جو آپ سے اچھی حکمرانی کی التجا کرتا ہے کہ اسکولوں کے لیے پیسے مختص ہوں وہ ان پر خرچ ہوں اور غریب کے بچے ان مدرسوں میں نہیں بلکہ سیکولر تعلیم لینے کے لیے اسکولوں میں جا سکیں سائنس پڑھیں ، شعور حاصل کریں،اور وہ سیکولر ہنر سیکھیں کہ جس سے وہ اپنی فیملی بنا کر ان کو معیار زندگی دے سکیں۔ ان میں رواداری پیدا ہو، انسان دوست بنیں، ایک ایسا پاکستان بھی ہے جو اس حکومت سے اسپتال مانگتا ہے، صاف پانی مانگتا ہے۔

اس شرح نمو کا کیا کون اچار ڈالے گا جب غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ کل ملک کی آبادی کا سات فیصد ہوں ۔اور اوپر بیان کیے ہوئے دیہی پاکستان میں 80 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والوں پر مشتمل ہے۔

جس ملک کا کل ٹیکس 85 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس ہو جس کا ہدف غریبوں پر ٹیکس لگانا اور امیروں کو چھوٹ دینا ہو۔ جہاں جاگیردار ٹیکس نہ دیتے ہوں، جہاں سرمایہ کاری سٹے کا بازار ہو، کالا دھن چھپانے کا مرکز ہو، جہاں کا وزیر اعظم و پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ اپنے گوشوارے صحیح طرح داخل نہ کرتے ہوں۔ جتنی ہمارے ملک میں درج شدہ یا ڈاکیومینٹڈ معیشت ہے اتنی ہی اس ملک کی غیر درج شدہ یا نان ڈاکیومینٹڈ معیشت ہے۔ پراپرٹی کو ایسے آگ لگ جائے کہ غریب سات پشتوں تک گھر نہ بنا سکیں اور نہ غریبوں کے لیے سرکار رہائشی اسکیمیں دے سکے، جس ملک میں ٹیکس مجموعی پیداوار کے دس اعشاریہ پانچ فیصد کے برابر ہو کہ بجٹ کا 85 فیصد، قرضوں کی ادائیگی، دفاع وغیر ترقیاتی اخراجات پر جاتا ہو، وہاں غربت کے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد جو 60 فیصد ہے وہ 70 فیصد ہوگی اور یہ خود ایک خانہ جنگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

ہم ناانصافیوں کا مجموعہ ہیں ۔ ہم یہ مانیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ سندھ کی آبادی 30 فیصد ہوگئی ہے پنجاب کی آبادی اب 52فیصد نہیں رہی مگر ہم NFC ایوارڈ اس ترتیب سے نہیں دیتے، ہم اس وجہ سے مردم شماری بھی نہیں کرا سکتے جوکہ ہم پر آئینی اعتبار سے ہر دس سال کے بعد لازم ہے۔ اب تو بیس سال بیتنے کو ہیں کہ مردم شماری نہیں ہو رہی۔ سندھ کل ملکی آمدنی میں 70 فیصد دیتا ہے اور اس کے عوض این ایف سی میں اس کا حصہ 24 فیصد بنتا ہے۔ جب کہ اس کو 30 فیصد کے حساب سے ملنا چاہیے۔ مجموعی آمدنی کا یا ٹیکسز جو وفاق لیتا ہے این ایف سی جو چاروں صوبوں کو جاتا ہے 58 فیصد بنتا ہے۔ سندھ یہ کہہ سکتا ہے کہ وفاق کو کم از کم سندھ اپنی کوکھ سے پالتا ہے اور وہ وفاق اس کے مفادات کا کم تحفظ کرتا ہے۔

ہر طرف سے ناانصافیوں کا مجمع اور غلبہ ہے جو اس بجٹ کے ہندسوں میں آپ کو ملے گا اگر آپ غور سے دیکھیں۔ بجٹ تو آگیا مگر بجٹ کی بنیادیں وہی رہیں۔ این ایف سی کی بنیادیں اسی پرانے فرسودہ مردم شماری پر رہیں جو اب تاریخ ہوا، پاکستان کی آبادی اس کے بعد لگ بھگ دوگنی ہونے کو ہے۔ مگر سب ویسے ہی چل رہا ہے۔اور ادھر سندھ میں جو بھی این ایف سی ملتا ہے وہ نچلی سطح تک  اچھی حکمرانی کی شکل میں نہیں جاتا بلکہ کالے دھن میں جاتا ہے۔ پراپرٹی کے کاروبار میں جاتا ہے۔ لانچوں کے ذریعے دبئی کو جاتا ہے۔ اور پھر بھی گوشوارے بتاتے ہیں کہ سب وزرائے اعلیٰ میں غریب وزیر اعلیٰ سائیں قائم علی شاہ تھے۔ناطقہ سر بہ گریباںکہ اسے کیا کہیے۔

ہمارے اسحٰق ڈار، خورشید شاہ صاحب کو پہلے بولنے کا حق اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ہمارے نبیؐ کے شجرے سے ہیں۔ یہ رتبہ تو خود ہمارے پیارے نبیؐ نے اپنی اولاد کو نہ دیا۔

ہمارے اسحاق ڈار بجٹ تقریر میں محمد علی جناح کو حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کر کے مخاطب ہوتے ہیں ۔بندہ پرورو!  محمد علی جناح کے افکار سے یہ ملک بہت دور نکل چکا۔ براہ مہربانی جناح کو تو آزاد کیجیے، یہ وہ پاکستان ہے ہی نہیں جو اس کے بانیوں نے بنایا تھا یا جو خواب دیکھا تھا۔

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے

اک کھیت نہیں اک باغ نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔