جنتی قبریں ( دوسرا حصہ)

ندیم جاوید عثمانی  جمعرات 9 جون 2016
بہت سے افراد کو بعض اوقات زندگی بھر کی عبادت اور ریاضت وہ کچھ عطا نہیں کرتی جو ایک سچی توبہ کے طفیل ان کو مل جاتا ہے۔ لہذا اپنی جنتی قبر اس قبرستان میں نہیں اپنی اُسی سچی توبہ کے اندر ڈھونڈو۔

بہت سے افراد کو بعض اوقات زندگی بھر کی عبادت اور ریاضت وہ کچھ عطا نہیں کرتی جو ایک سچی توبہ کے طفیل ان کو مل جاتا ہے۔ لہذا اپنی جنتی قبر اس قبرستان میں نہیں اپنی اُسی سچی توبہ کے اندر ڈھونڈو۔

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہاں یہ جو تم اتنی قبریں دیکھ رہے ہو بتا سکتے ہو یہ سب قبریں کس نے کھودی ہیں؟ بوڑھے کے سوال پر منظور بولا کوئی قبر بھلا ایک گورکن کے علاوہ کون کھود سکتا ہے؟ بوڑھے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، نہیں اسی سوچ کو ہماری کم عقلی یا کم علمی کہا جاسکتا ہے۔ ہر قبر گورکن نہیں کھودتا بلکہ کچھ لوگوں کی قبریں اُن کے اعمال بھی کھود دیتے ہیں۔

خیر چھوڑو، تم کو ایک قصہ سناتا ہوں ایک دن جس وقت ایک بادشاہ کے محل پر ملک الموت نے دستک دی اُسی وقت اجل نے ایک فقیر کا در بھی کھٹکھٹایا، اور یوں دونوں کی زندگیوں کا قصہ تمام ہوا۔ جب اُن دونوں کی اپنی اپنی قبر میں واپس آنکھیں کھلیں تو بتاؤ کس کا مرتبہ کیا تھا؟ سعید نے جواب دیتے ہوئے کہا، ظاہر سی بات ہے کہ بادشاہ کی قبر سے بادشاہ اُٹھا ہوگا اور فقیر کی قبر سے فقیر۔ یہ سن کر بوڑھے کے ہونٹوں پر ایک بار پھر مسکراہٹ کھلنے لگی اور وہ بولا، نہیں قبر میں آنکھ کھلنے کی صورت میں بادشاہ فقیر تھا اور فقیر بادشاہ کے رتبے پر، درحقیقت دنیاوی مرتبے اور آخرت میں ملنے والے مقام کے درمیان بس یہی ایک فرق ہے جو یہاں ہے ضروری نہیں کہ وہاں بھی ہو، اور جو وہاں ہوگا ضروری نہیں کہ یہاں بھی رہا ہو۔

جنتی قبریں (پہلا حصہ)

منظور اور سعید کی آنکھوں کی چمک بڑھتی جارہی تھی جو اس بات کی نشانی تھی کہ بوڑھے کی یہ باتیں سن کر اُن کے ذہنوں میں دنیا اور آخرت سے متعلق پڑی گرہوں کو ڈھیلا کرنا شروع کرچکی ہیں۔ بس اب ان گرہوں کا کھلنا باقی تھا اسی خیال سے بوڑھے نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا، تم دونوں نے یہ تو سن ہی رکھا ہوگا کہ سکندر کے ساتھ کیا ہوا۔ سعید فوراً بولا ہاں میں نے ایک قوالی میں سنا تھا جس میں اس واقعہ کا ذکر تھا کہ جب سکندر دنیا سے گیا تو اُس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ یہ سن کر سعید کی بات کاٹتے ہوئے منظور الجھے ہوئے لہجے میں گویا ہوا، یہی فکر تو اب عمر کے اس حصے میں ہمیں ڈرا رہی ہے کہ ہم بھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانا چاہتے مگر بس یہی سمجھ نہیں آرہا اپنے ہاتھوں میں ایسا کیا لے جائیں کہ ہماری بخشش ہوجائے۔

بوڑھے نے ان کی اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے جواب دیا کہ کون کہتا ہے سکندر جب دنیا سے گیا تو اُس کے دونوں ہاتھ خالی تھے؟ انسان کو خالی ہاتھ دنیا میں بھیجنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ جب اُس کی واپسی ہو تو یہ دونوں ہاتھ خالی نہ ہوں یعنی وہ اعمال کی دولت سے بھرے ہوئے ہوں۔ عرش پر رکھی گئی جنت اور دوزخ  کے ملنے کا فیصلہ بھی انہی اعمالوں کی بدولت ہی ہوگا۔ یعنی ہر انسان اپنی حقیقی جنت اور جہنم اس جہاں سے کما کر جاتا ہے۔ جب تک انسانی دل دنیاوی خواہشات سے بھرا ہوا ہے وہ آخرت کے لئے زاد راہ جمع کر ہی نہیں سکتا، ایک موت کے سامنے تمام کی تمام خواہشات دھری رہ جاتی ہیں۔

اُن دونوں کو خاموش دیکھ کر بوڑھے کو اندازہ ہوگیا کہ برسوں سے گناہوں کی بھٹی میں پکتے ہوئے اس لوہے پر آخری ضرب لگانے کا وقت آگیا ہے۔ تمہیں پتہ ہے جلتے ہوئے چراغ کی روشنی میں سب سے اہم کردار کس شے کا ہوتا ہے؟ اور بوڑھے کو وہی جواب ملا جس کی وہ ان دونوں سے توقع کررہا تھا، ’’تیل کا‘، بوڑھے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، نہیں کسی بھی جلتے ہوئے چراغ میں حقیقی کردار تو ماچس کی اُس تیلی کا تھا جسے چراغ جلانے کے بعد حقیر سمجھتے ہوئے ایک کونے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات حقیر سمجھی جانے والی چیزیں ہی درحقیقت آپ کی روشنی کی ضامن ہوتی ہیں لہذا کسی نیکی کو چھوٹا مت سمجھنا۔

دریا اپنے بہتے ہوئے پانی پر غرور کرنے لگے اور خود میں گرنے والی چھوٹی چھوٹی بوندوں کوحقیر جان کر اپنے دامن میں جگہ نہ دے تو وقت گواہ ہے ایسے دریا بڑی جلد خشک ہوجاتے ہیں۔ یا اس کو یوں کہہ لو کہ ایک عالیشان عمارت کی خوبصورتی دراصل اُس کی بلندی کی مرہون منت نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی اُن ہزاروں اینٹوں کے باعث ہوتی ہے جو بنیاد سے اُٹھا کر اُسے اوپر تک لے گئیں۔ اُن دونوں کی حالت بتا رہی تھی کہ اب ایک دستک کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔

ان دونوں کے چہروں پر ایک مایوسی چھائی ہوئی محسوس ہورہی تھی اور یہی مایوسی سعید کے لہجے میں اُتر آئی جب وہ بوڑھے سے کہنے لگا، بابا ہمارے گناہ اتنے زیادہ ہیں کہ ہماری بخشش کی تو شاید ہی کوئی راہ نکلے۔ بوڑھے نے تعجب سے پوچھتے ہوئے کہا، یہ تم سے کس نے کہا؟ ہمارا پروردگار اتنا غفور و رحیم ہے کہ جب بھٹکے ہوئے لوگوں کے لئے تمام راہیں بند ہوچکی ہوتی ہیں تب بھی وہ ایک راہ کھلی رکھتا ہے اور یہی راہ کسی بھی انسان کو وہیں واپس لے آتی ہے جہاں سے وہ چلا تھا۔ یعنی ہر گناہ اور بُرے عمل سے پاک، منظور نے بے قراری سے پوچھا، وہ کونسی راہ ہے ہمیں بتائیں۔

بوڑھے نے زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ’توبہ‘ کی۔ ہمارے گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں سچی توبہ کی ایک ہلکی سی ضرب بھی اُن کی بخشش کا باعث بن سکتی ہے۔ بہت سے افراد کو بعض اوقات زندگی بھر کی عبادت اور ریاضت وہ کچھ عطا نہیں کرتی جو ایک سچی توبہ کے طفیل ان کو مل جاتا ہے۔ لہذا اپنی جنتی قبر اس قبرستان میں نہیں اپنی اُسی سچی توبہ کے اندر ڈھونڈو۔

اور جو تم یہ کہتے ہو کہ اپنی عمروں کے باعث کسی عبادت اور نیک عمل کمانے کے لائق نہیں رہے ہو تو یاد رکھو، نیک اعمال کمانا عمر سے وابستہ نہ کبھی رہا ہے نہ رہے گا۔ آخری سانس تک تمہارے پاس وقت ہی وقت ہے اور مہلت ہی مہلت، بعض اوقات ہم اپنے نفس کی کمزوری کو ابلیس ملعون سے منسوب کردیتے ہیں کہ وہ ہماری توبہ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ بندہ ہمیشہ شیطان کے شر سے بچنے کو پناہ مانگے، کبھی کبھی انسان کو اپنے آپ کے شر پناہ مانگنی چاہئیے۔

منظور اور سعید کے چہروں پر اُبھرنے والی چمک بوڑھے پر یہ بات عیاں کرچکی تھی کہ ان دونوں کو وہ راہ سمجھ آچکی ہے جو اس نے بتائی ہے۔ باہر پھیلتے ملگجے سے اندھیرے کو دیکھ کر منظور نے بوڑھے سے پوچھا، بابا دن کی تو خیر ہے رات کو تمہیں اس قبرستان میں اتنی قبروں اور مردوں کے درمیان رہتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بالکل ڈر لگتا تھا لیکن اُس وقت تک جب میں بھی تمہاری طرح انہیں مردہ سمجھتا تھا۔

بوڑھے کی بات پر منظور نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اچھا بابا اب اجازت دیں بس جانے سے پہلے ایک سوال کا جواب دے دیجئیے۔ آپ کو دنیا اور محفلوں سے دور اس قبرستان میں قبروں کے درمیان بیٹھ کر معرفت کی اتنی باتوں کا علم کیسے ہوا؟

بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔ کچھ عرصے پہلے تک میری غفلت کا بھی یہی عالم تھا کوئی سمجھانے اور سکھانے والا نہیں تھا، لہذا آج تم دونوں کو بھی وہ راز بتا دیتا ہوں جس کو سمجھنے کے بعد یہاں تک پہنچا۔ جب بولتے ہوئے زندہ لوگوں کی محفلیں تمہیں کچھ عطا کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہوں تو کچھ وقت اس خاموش قبرستان میں بھی آکر گذار لیا کرو۔ بعض چیزیں جو زندہ لوگ نہیں سکھا پاتے اُسے اپنی اپنی قبروں میں پڑے ہوئے یہ سوئے ہوئے لگ سکھا دیتے ہیں۔ قبروں کی اس خاموشی کو سنو، یقین کرو کہ جتنا یہ بول رہی ہوتی ہے اتنا کوئی شے نہیں بول سکتی، یہاں تک کہ زندہ لوگ بھی نہیں اور جس دن تم نے اس خاموشی کو سمجھ لیا تو پھر تمہیں بھی نہ کسی مردے سے ڈر لگے گا نہ مرنے سے!

اب بوڑھے کی نظریں قبرستان سے باہر جاتے ہوئے منظور اور سعید کے قدموں پر تھیں اور ان کی چال کے انداز سے بوڑھے کو یقین ہو چلا تھا کہ یہ قدم اب نہیں بھٹک سکتے۔ اُس نے ایک نظر آسمان پر بڑھتے ہوئے اندھیرے پر ڈالی اور اس کے قدم مزار سے قبروں کی درمیان بڑھنے لگے، کیونکہ ان خاموش قبروں سے اُسے ابھی مزید سیکھنا تھا تاکہ کل پھر اپنی بخشش کے لئے بھٹکتے ہوئے کسی شخص کو جنتی قبر کے حصول کی راہ دکھا سکے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔