بجٹ ، سیاست اور میثاقِ معیشت

زاہدہ حنا  منگل 7 جون 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہرسال کی طرح موجودہ سال کا بجٹ بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے جو کچھ ہونے والا ہے وہ بھی ہم جانتے ہیں۔ حکومت یہ کہے گی کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر بجٹ بنانا ممکن نہیں تھا، ہماری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اتنا بہتر بجٹ نہیںبناسکتا تھا۔ وہ جماعتیں اور دانشور جو حکومت کو پسند نہیں کرتے، وہ اس بجٹ کو مستردکردیں گے۔

حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں کہیں گی کہ اس  میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے، غریب کے ہاتھ سے نوالہ چھین لیا گیا ہے اور معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ دانشور حضرات دور کی کوڑی لائیں گے اور کہیں گے کہ یہ ایک روایتی بجٹ ہے، سب اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے، سیاستدانوں میں اتنی اہلیت اورصلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ جرأت مندانہ اقدامات کرسکیں۔ انقلابی سیاست کرنے والے اس بجٹ کو سرمایہ داروںاور جاگیرداروں کا بجٹ قرار دے کر مسترد کردیں گے۔

ان کا موقف ہوگا کہ ساری رعایت اور چھوٹ سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور زمینداروں کو دی گئی ہے، عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے انقلابی اقدامات اٹھانا حکومت کے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ خود ان بالادست طبقات کی نمایندگی کرتی ہے۔ چند ہفتوں تک پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خوب رونق رہے گی، ٹی وی چینلوں پر زور دار مباحثے ہوں گے، لوگوں کے مخالفانہ تبصرے دکھائے جائیں گے۔ پھر وہ وقت آئے گا جب پارلیمنٹ معمولی قطع برید کے ساتھ سال 2016-2017ء کے بجٹ کو منظور کرے گی۔ رفتہ رفتہ ہر طرف خاموشی چھا جائے گی۔ لوگ کسی نئی بریکنگ نیوز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔

گزشتہ دو برسوں کی طرح اس سال بھی میں نے پارلیمنٹ کی پریس گیلری سے بجٹ کا پیش کیا جانا دیکھا ، لہٰذا اس پر کچھ تبصرہ کرنا میرا بھی ’فرض‘ بنتا ہے۔ ہمارا عام قاری بجٹ میں پیش کردہ معاشی اورمالیاتی اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتا، لہٰذا بجٹ اور اس پر ہونے والی  بحث نہ اس کی سمجھ میں آتی ہے اور نہ اسے اس سے کوئی خاص دل چسپی ہوتی ہے۔ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی سے سمجھ لیتا ہے کہ حالات مجموعی طور پر بہتری کی طرف جا رہے ہیں یا ان میں ابتری پیدا ہورہی ہے۔ مثلاً مہنگائی میں اضافے کی رفتار تیز ہے یا کم۔ مہنگائی اگر تیز رفتاری سے نہیں بڑھے گی تو وہ زیادہ شکایت نہیں کرے گا۔ بجٹ کی اصطلاح میں یہ بات یوں کہی جاتی ہے کہ افراطِ زر میں کمی ہونے سے مہنگائی میں کمی ہوتی ہے۔

افراطِ زر کی سطح جو کسی زمانے میں 12 فیصد ہوا کرتی تھی وہ اب کم ہو کر3 فیصد پرآگئی ہے جس سے مہنگائی ختم تو نہیں ہوئی ہے البتہ اس کا طوفان ضرور رک گیا ہے۔ عام آدمی معیشت کے اچھے یا خراب ہونے کا اندازہ اس بات سے لگاتا ہے کہ اس کو روزگار میسر ہے یا نہیں۔ سرمایہ کاری ہوگی تو صنعتیں لگیں گی اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ یہ بھی خبر ہے کہ پاکستان میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ چند سال پہلے سرمایہ کار بینکوں سے قرض نہیں لیا کرتے تھے۔ 2013 میں نجی شعبہ نے منفی 19 ارب کا قرض لیا تھا، یہ صورتحال بدلی ہے اور سرمایہ کاروں نے بینکوں سے 312 ارب روپے قرض لے کر کاروبار میں لگائے ہیں۔

ماضی قریب میں صورتحال یہ تھی کہ بیرونی سرمایہ کار تو کجا ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ باہر لے جارہے تھے۔ اب ماحول بدلا ہے ، سی پیک کے ذریعے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہونے والی ہے جن میں سے 30 ارب ڈالر کے منصوبوں کی منظوری دی جاچکی ہے، ان معاشی سرگرمیوں سے روزگار کے مواقعے پیدا ہوئے ہیں اور بے روزگاری کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔

عام پاکستانی اس تبدیلی کو محسوس کررہا ہے۔ پاکستان کا غریب ترین طبقہ غربت کی انتہائی نچلی سطح پر زندگی گزارتا ہے۔ اس طبقے کی مالی امداد کے لیے جو پروگرام شروع کیا گیا ہے اس سے کم از کم 53 لاکھ خاندان براہ راست مستفید ہورہے ہیں۔ انھیں بدترین غربت سے نکالنے کے لیے روزگار فراہم کرنا ناگزیر ہے، تاہم، جب تک ایسا نہیں ہوتا انھیں بے یارو مددگار بھی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا عام شہری امن وامان کی بہتر صورتحال چاہتا ہے تاکہ اس کا روزگار اور کاروبار چلتا رہے۔ اس حوالے سے بھی نمایاں بہتری آئی ہے ۔

گزشتہ سال عید کے موقعے پر صرف کراچی میں 70 ارب کا کاروبار ہوا تھا جس کا بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو ہوا تھا۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ موجودہ سال عید کے موقعے پر کاروبار کا نیا ریکارڈ قائم ہوگا۔ عوام کا معاملہ صاف اور سیدھا ہے۔ انھیں اپنی زندگی میں آسانیاں محسوس ہوں گی تو وہ بجٹ اور حکومت کی کارکردگی کو پسند کریں گے ورنہ اسے مسترد کرکے اگلے انتخابات میں حساب چکا دیں گے ۔

عوام کے بعد آئیے کاروباری طبقے کی طرف۔ اس طبقے سے لوگوں کو جائز اور ناجائز بہت سی شکایتیں ہیں۔ قانون کی حکمرانی نہ ہوتو کرپشن کے ذریعے منافع بڑھانے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ ٹیکس نہ دینے کی عادت اس کی سامنے کی مثال ہے۔ اس میں عام دکاندار سے بڑے بڑے سرمایہ دار سب شامل ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیں تین سال پہلے صرف 8 لاکھ افراد ٹیکس جمع کراتے تھے، کئی سال کی جدوجہد کے بعد یہ تعداد اب 10 لاکھ ہوسکی ہے، اچھی خبر یہ ہے کہ ٹیکس محصولات کی مد میں تین برسوں کے دوران 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

محصولات 19 کھرب سے بڑھ کر 30 کھرب تک ہونے کی توقع ہے۔ کاروباری طبقے کو اس بجٹ میں غیر معمولی چھوٹ اور رعایت دی گئی ہے۔ برآمدات سے متعلق تمام بڑی صنعتوں کے سیلز ٹیکس کو کم کیا گیا ہے اور مشینری کے 2500 آئٹمز پر کسٹم ڈیوٹی 5 سے کم کرکے 3فیصد کردی گئی ہے۔ دکانداروں کو بھی ٹرن اوور پر فکسڈ ٹیکس کی غیر معمولی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا گیا ہے۔ گزشتہ بجٹ میں زرعی شعبے پر کم توجہ دینے کے منفی نتائج نکلے اور زرعی معیشت کی شرح نمو مثبت کے بجائے منفی رہی ۔ اب کاشتکاروں کو زبردست سہولتیں دی گئی ہیں جس کے بہتر نتائج نکلنے چاہئیں ۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ اپنی کارکردگی پر یقیناً خوش ہوسکتی ہے۔ اس کو وراثت میں ایک ایسی معیشت ملی تھی جسے دہشت گردی نے بالکل تباہ کردیا تھا۔ ان 3برسوں میں موجودہ حکومت نے ملک کو خطرناک معاشی بحران میں جانے اور دیوالیہ ہونے سے یقیناً بچا لیا ہے۔ صرف تین سال پہلے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوکر 7، ارب ڈالر تک رہ گئے تھے جس میں سے صرف 3ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس تھے۔ کہا جارہا تھا کہ پاکستان 2014ء میں عالمی سطح پر دیوالیہ ہوجائے گا ۔

اب یہ ذخائر تاریخ کی سب سے اونچی سطح یعنی 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ دنیا کے تمام اہم ترین مالیاتی اور ریٹنگ اداروں نے پاکستان کی معیشت کو منفی کے درجے سے نکال کر مستحکم قرار دے دیا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں غیر معمولی سرمایہ کاری ہورہی ہے، انڈیکس بڑھ کر 37 ہزار پوائنٹس کو بھی عبورکر گیا ہے۔ اس طرح حصص میں، 7.5 کھرب روپے کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔ موجودہ حکومت کی تعریف ہونی چاہیے کہ اس نے مالیاتی خسارے کو کم کرکے 4.3 فیصد کردیا ہے جو 2013 میں 8 فیصد تھا۔ غیر پیداواری اخراجات میں کمی، محصولات کی مد میں اضافہ اور بہتر مالیاتی گورننس سے یہ غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

ایک اہم بات حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو یاد رکھنی چاہیے۔ سالانہ بجٹ حکومت کا میزانیہ ہوتا ہے جس میں حکومت اپنی آمدنی اور اخراجات کے تخمینے پیش کرتی ہے۔ معیشت ایک الگ چیز ہے۔ معیشت ترقی کرے تو حکومتیں اچھا بجٹ پیش کرسکیں گی۔ معیشت بحران میں ہوگی تو کوئی بھی حکومت عوامی اور فلاحی بجٹ پیش نہیں کرسکے گی۔

سیاسی جماعتوں ، دانش وروں، ذرایع ابلاغ اور کاروباری طبقات کو سیاسی، نظریاتی ، طبقاتی اور ادارہ جاتی مفادات سے بالا تر ہوکر معیشت کی بحالی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ معیشت بچے گی تو سب حتیٰ کہ ریاست بھی بچے گی۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت کی طویل عدم موجودگی کے باعث نسلی، لسانی، مذہبی اور مسلکی تضادات شدت اختیار کرچکے ہوں، وہاں معاشی بحران کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ سابق سوویت یونین کو دیکھ لیں۔ معاشی بحران نے ایک عظیم طاقت کو کس طرح پارہ پارہ کردیا تھا۔

بجٹ پر دل کھول کر تنقید کیجیے لیکن کیا اچھا ہو کہ سب مل کر ایک میثاق معیشت پر اتفاق کرلیں تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے اور آپ کی سیاست بھی رواں دواں رہے۔ ہوسکتا ہے کہ کل آپ بجٹ بنا رہے ہوں، اس وقت اگرآپ کو ایک بہتر معیشت ورثے میں ملے تو یہ عوام، ملک اور آپ…… سب ہی کے لیے بہتر ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔