رمضان ’’کمائی‘‘ کا مہینہ

عابد محمود عزام  منگل 7 جون 2016

مسلمان سیکھنا چاہیں تو غیر مسلم اقوام سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اگر نہ سیکھنا چاہیں تو اسلام کی روشن روایات سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ عیسائی مذہب میں کرسمس کا دن مسلمانوں کی عید کی طرح اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دن ہر سال 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن عیسائی برادری پوری دنیا میں اسی طرح خوش و خرم دکھائی دیتی ہے، جس طرح مسلمان عید کے دن خوش ہوتے ہیں۔

یہ لوگ اپنے اس مذہبی دن کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔ احترام کی وجہ سے عیسائی مذہب کے پیروکار ممالک امریکا و یورپ میں کرسمس سے دو ہفتے پہلے بچت سیل لگ جاتی ہے اور شہریوں کی مذہبی خوشیوں کے راستے میں آنے والی ہر معاشی دیوار توڑ دی جاتی ہے۔ ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی 50 فیصد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہوتا ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقات کو بھی ان تہواروں کی خوشیوں میں شریک کیا جانا چاہیے۔

ان دنوں میں بڑے بڑے اسٹورعوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاں نرخوں پر دستیاب کر دی جاتی ہے۔ غریب عوام اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا سال کے مقابلے میں زیادہ خریداری کرتے ہیں۔ بازاروں میں منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خورونوش مارکیٹوں سے غائب نہیں کی جاتیں، بلکہ نایاب اشیا بھی دکانوں پر مناسب نرخوں میں دستیاب کر دی جاتی ہیں۔ یوں امیر اور غریب اپنا یہ مذہبی تہوار بہت خوشی خوشی منا لیتے ہیں۔

ہندومت اور بدھ مت والے ملکوں میں بھی اسی قسم کی مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔ دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم کر دیے جاتے ہیں۔ یہودی ملک اسرائیل میں بھی تہواروں پر عوام کو سستے داموں اشیا فراہم کر کے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔ مذہب سے ماورا کیمونسٹ ملکوں میں بھی عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیے حکومتی چھتری مہیا کر دی جاتی ہے۔

یہ غیرمسلم ممالک کی مثالیں ہیں، جہاں اپنے مذہبی تہواروں کا بھرپور احترام کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو بھی ان کے کسی مذہبی تہوار پر بھرپور سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں نے ایک ویڈیوکلپ دیکھی۔ تین منٹ کا یہ ویڈیوکلپ ایک پاکستانی نے لندن سے پندرہ شعبان کو وٹس اپ پر اپ لوڈ کیا تھا۔ ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ لندن کی سڑکوں پر استقبال رمضان کے لیے بڑے بڑے پینا فلیکس آویزاں ہیں۔

اس کے بعد ویڈیو میں لندن کے ایک بڑے سپر اسٹورکا منظر دکھایا گیا ہے، جہاں جگہ جگہ مختلف کمپنیوں کی جانب سے رمضان المبارک کی آمد پر استقبالیہ بورڈز لگائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ سپراسٹور کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے استعمال کی اشیا کے لیے مختص کیا گیا ہے، جہاں رمضان المبارک کی آمد سے پندرہ دن پہلے ہی ہر چیز کی قیمت میں تیس سے پچاس فیصد تک کمی کر دی گئی، ویڈیو میں اصل اور کم کی گئی قیمت دیکھی جا سکتی ہے۔ آخر میں ویڈیو بنانے والا پاکستانی کہتا ہے کہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ غیر مسلم اقوام ہماری روایات کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہم لوگ خود اپنی روایات کا احترام نہیں کرتے۔

اب ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہم ترین تحفہ ہے۔ یہ ماہ مسلمانوں کے لیے بے شمار رحمتیں لے کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ بابرکت میں مسلمانوں کو خوب برکات سمیٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسلام حکم دیتا ہے کہ اس ماہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

ایک دوسرے کے لیے سہولیات پیدا کرنی چاہیے۔ ضرورت مندوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیے، لیکن ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم لوگ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہر قانون کو پس پشت ڈالتے ہوئے تجارت کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ جاتا ہے۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ خدا خوفی ترک کر کے سفاکیت کی زندہ مثال بن جاتے ہیں۔ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اشیائے خورونوش اسٹور ہونے لگتی ہیں۔ حکومت منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔

ان پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ ذخیرہ اندوز رمضان سے قبل ہی اپنے گوداموں کو بھر لیتے ہیں۔ مارکیٹ میں اشیا کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ رمضان آتے ہی یہ من چاہے ریٹوں پر سامان بیچنے لگتے ہیں۔ یوں ملک بھر میں سحر اور افطار کے لیے درکار اشیا کئی گنا مہنگی ہو جاتی ہیں۔ غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ ان کے روحانی انہماک کو چور چور کر دیا جاتا ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار اپنے سامنے پڑی خوراک کی گرانی پر کڑھتے ہیں۔ یوں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک نیکیوں کی کمائی کا نہیں، بلکہ دولت کی کمائی کا مہینہ ہے۔ تاجروں کی اکثریت گیارہ مہینے ماہِ رمضان کی آمد کی منتظر اور اس مہینے کے ’’فیوض وبرکات‘‘ سمیٹنے کے لیے بے چین دکھائی دیتی ہے۔

ہر سال کی طرح اس برس بھی رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہوش ربا گرانی نے عوام کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بلند پروازی دکھانا شروع ہو گئیں۔ ضروریاتِ زندگی غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گئی ہیں۔ ہر قسم کی ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دی گئی ہیں۔ ان حالات میں حکومت کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔ ہمارے لیڈروں کو پْرتکلف کھانوں، پروٹوکول، غیرملکی دوروں سے فرصت ہی نہیں ملتی اور یوں ناجائزمنافع خوراورذخیرہ اندوز موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی جیبوں پر دل کھول کر ڈاکا ڈالتے ہیں۔

حکومت نہ تو ذخیرہ اندوزوں اور ناجائزمنافع خوروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی عوام کے لیے اتنی سہولیات مہیا کرتی ہے کہ شہری کم از کم اس ماہ بابرکت کو آسانی سے گزار سکیں۔ وفاقی حکومت بڑے فخر سے عوام کے لیے پونے دو ارب روپے رمضان پیکیج کی سبسڈی کا اعلان کر کے سمجھتی ہے کہ کافی رعایت دے دی ہے۔

حالانکہ اٹھارہ بیس کروڑ عوام کے لیے صرف پونے دو ارب روپے کی سبسڈی دینا ایک مذاق سے کم نہیں۔ رمضان المبارک میں دوسروں کے لیے سہولیات فراہم کرنا حکومت سے لے کر ایک دکاندار تک ہر فرد کی ذمے داری ہے، لیکن یہاں ہر فرد کسی اور ہی دھن میں مگن ہے۔ ان حالات میں جب میں غیرمسلم اور مسلمان ملکوں کا تقابل کرتا ہوں تو شرمندگی کے احساس کے ساتھ میرے سامنے مسلمان قوم کی پستی اور غیرمسلم اقوام کی ترقی کا راز بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ آج مسلمان خود اپنے اصولوں کو چھوڑ کرذلیل و رسوا ہیں، جب کہ غیرمسلموں نے اسلام کے روشن قوانین پر عمل کیا تو وہ آج ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔