قومی بجٹ کی حشر سامانیاں

مقتدا منصور  بدھ 8 جون 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ جمعہ (3جون) کو سال 2016-17کے لیے وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں43کھرب95 ارب کا قومی بجٹ پیش کیا۔ یہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا نگہبان بجٹ ہے جس میں حسب معمول محنت کشوں اور معاشرے کے زد پذیر طبقات کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں جس قسم کی طرز حکمرانی ہے، اس میں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔

اس لیے قومی بجٹ کا جائزہ لیتے وقت اس میں مختص کردہ مختلف رقوم کو عوامی مفادات کی عینک سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ویسے بھی حکمرانوں کی نااہلی اورکوتاہ بینی کے سبب ملکی معیشت جس طرح عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھی ہوئی ہے، اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل فی الحال نظر نہیں آرہی۔

حالیہ بجٹ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس میں ملک کے معاشی نظام کو چلانے کے لیے حسب سابق اندرونی اور بیرونی قرضوں اور بالواسطہ (Indirect) ٹیکسوں پر انحصار کیا گیا ہے۔ عوام کی مشکلات حل کرنے اور انھیں حالیہ معاشی پریشانیوں سے بچانے کے لیے کوئی مثبت اور ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنرز کی پنشن میں10فیصد اضافہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔اسی طرح کم سے کم اجرت ایک ہزار اضافہ کے بعد14ہزار کردی گئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کتنے نجی شعبے کم سے کم اجرت کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔

بیشتر صنعتی یونٹوں میں آج بھی مالکوں کی مرضی سے اجرت کا تعین کیا جاتا ہے، جو حکومت کی متعین کردہ اجرت سے بہت کم ہوتی ہے۔ حد یہ ہے کہ زیادہ تر نجی تعلیمی اداروں میں بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ کو غیر ہنر مند مزدوروں (Unskilled labour)کے لیے متعین اجرت سے بھی کم ماہانہ اجرت دی جاتی ہے ۔لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

پاکستان کی زرعی معیشت کا انحصا زیادہ ترCash Cropsپر ہے جن میں کپاس اور اجناس وغیرہ شامل ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں اس سال حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 28فیصد کمی ہوئی ہے۔ چاول،گندم اور دیگر اجناس کی پیدوار میں بھی مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ روزمرہ کی سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار بھی تسلسل کے ساتھ کم ہو رہی ہے اور انھیں باہر سے منگوانا پڑ رہا ہے، خاص طور پر آلو، پیاز اور لہسن وغیرہ۔ مگر حکومتی ایوانوں میں موجود جاگیرداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر زرعی اصلاحات سے مسلسل گریز کیا جارہا ہے۔

وہ کاشتکاروں کو اکثر و بیشتر مختلف نوعیت کے لالی پاپ دے کر بہلانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس مرتبہ بھی سستی کھاد اور بجلی کے نرخوں میں معمولی کمی کے سوا کوئی خاص ریلیف اس سیکٹر کو نہیں دی گئی۔  اب جہاں تک صنعتی سیکٹر کا تعلق ہے، تو اس کے مسائل حل کرنے کی جانب بھی کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ اس کا اصل سبب بجلی کا جاری شارٹ فال ہے، جو کسی طریقہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے وقت سے اب تک بجلی کے کئی منصوبوں کا افتتاح کیا، لیکن سوائے چند کوئی بھی شروع نہیں ہوسکا۔ جو شروع ہوئے، وہ کسی نہ کسی سبب تاخیر کا شکار ہیں۔ بجلی کے علاوہ قدرتی گیس کی قلت بھی صنعتی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے جس کی وجہ سے صنعتی شعبہ روبہ زوال ہے۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت بری طرح متاثر ہورہی ہے جس کے اثرات برآمدات پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ درآمدات اور برآمدات میں توازن تو دور کی بات، درآمدات کے حجم میں برآمدات کے مقابلے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو معیشت کے استحکام کو درپیش تمام خطرات سے بڑا خطرہ ہے۔

ایک اور خرابی بسیار یہ ہے کہ حکومت کو1.8ارب روپے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی قسط اور ان کے سود کی ادائیگی کی مد میں دینا ہیں۔ یہ رقم وفاقی اور صوبائی ترقیاتی فنڈزسے زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ حکومت GDP میں جس4.7فیصد شرح نمو کی بات کرتی ہے، وہ صنعتی یا زرعی شعبہ کے بجائے خدمات (Services) کے شعبے کی وجہ سے ہے۔

البتہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دیاجانا چاہیے کہ اس نے سال گزشتہ کے مالی خسارے کو بڑھنے نہیں دیا۔اس کے علاوہ 3,104ملین روپے کا ٹیکس ہدف بھی پورا کرلیا چونکہ اعمال حکومت خود مراعات یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے اور دوسرے ان کے اطراف جمع رہنماؤں کا تعلق بھی مراعات یافتہ طبقے سے ہے، اس لیے حکومت ٹیکس کے نیٹ کو بڑھانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی پوری توانائیاں بالواسطہ(Indirect) ٹیکسوں میں اضافے پر مرکوز رکھتی ہے جس کا بوجھ مہنگائی کی صورت میں عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوا ہے۔ بجٹ کے اعلان کے چوتھے روز رمضان شروع ہوگئے، لیکن مہنگائی کا جن ایک ہفتہ قبل ہی بوتل سے باہر آگیا۔ نتیجتاً خورونوش کی عام اشیا کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں۔

اب دوسری طرف آئیے۔ ایک اصطلاح No-filer کی استعمال کی جارہی ہے۔ یہ ایک انتہائی مبہم اور غیر واضح اصطلاح ہے۔ اول، Non-filer دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی سالانہ آمدنی ٹیکس کی حدود میں نہیں آتی، اس لیے وہ ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کراتے۔ دوسرے وہ جوانکم ٹیکس کی حدود میں تو آتے ہیں، مگر انھوں نے اپنی آمدنی کو دستاویز نہیںکیا۔ حکومتی اقدامات سے موخرالذکر طبقے سے زیادہ اول الذکر طبقہ متاثر ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ زمین کی خرید و فروخت پر رجسٹری فیس میں اضافے کے منفی اثرات بھی کم آمدنی والے طبقے پر پڑ رہے ہیں۔

کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد جو پائی پائی جمع کرکے اگر رہائش کے لیے قطعہ اراضی خریدنا چاہیں، تو انھیں withholdingٹیکس کی مد میں زیادہ رقم ادا کرنا پڑتی ہے، جب کہ زمین کی قیمت بھی ان کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔ آج سے کوئی20برس قبل ایک کلرک جو مڈل کلاس کے سب سے نچلے درجہ پر ہوتا ہے، اپنی ریٹائرمنٹ پر ملنے والے فنڈز سے کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں پانچ مرلے(یا120گز)کا پلاٹ خرید کر اس پر سادہ سا مکان تعمیر کرلیا کرتا تھا۔ شوکت عزیز کے دور سے حکومتوں کے غیر ذمے دارانہ اقدامات کے باعث آج ایک کلرک ریٹائرمنٹ کے بعد اتنی زمین خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا کہ ایک باتھ روم تیار ہوسکے۔

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ آیا حالیہ بجٹ آئین کے مطابق ہے یا نہیں؟ دراصل بجٹ کی تیاری کے وقت دیگر مالیاتی امور کے ساتھ دو آئینی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔اول، ملک کی مجموعی آبادی، جو مردم شماری کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔

دوئم،آئین کی شق160(1)کی رو سے نیشنل فنانس کمیشن (NFC)ایوارڈ میں طے کردہ شرائط۔ پاکستان میں آخری بار مردم شماری 1998میں ہوئی جو آئین کے مطابق 2008 میں متوقع تھی، مگر مختلف اسباب کے باعث نہ ہو سکی۔ البتہ اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مساعی سے دسمبر2009میں ساتواں NFC ایوارڈ بالاتفاق منظورہوگیا۔ اس ایوارڈ کی مدت دسمبر 2014 کو ختم ہوگئی۔یوں آٹھواں NFCایورڈ 2015سے Due چلا آرہا ہے چونکہ نہ تو مردم شماری ہوسکی ہے اور نہ ہی NFC ایوارڈ طے پا سکا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ بجٹ غیرآئینی اور غیر قانونی ہے جس پر ماہرین معاشیات کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بلند آہنگ دعوے اپنی جگہ، حکومت نے بجٹ میں عوام کو درپیش مسائل پر غور اور انھیں حل کرنے پر قطعی کوئی توجہ نہیں دی ہے۔یہی سبب ہے کہ حکومت کے غلط مالیاتی فیصلوں کے نتیجے میں غربت اور امارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔امیر ، امیر تر ہو رہا ہے، جب کہ غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ جب کہ متوسط طبقے کا حجم ہر آنے والے دن کم ہورہا ہے۔ آج کی دنیا کسی ملک میں سرمایہ کاری کرتے وقت جن عوامل کو اولیت دیتی ہے، ان میں امن و امان کی تسلی بخش صورتحال، حقیقت پسندانہ مالیاتی(Fiscal)قوانین( جن میں ٹیکس کا نظام بھی شامل ہے)، صنعتی انفرا اسٹرکچر (بجلی،گیس، پانی اور سڑکیں وغیرہ) کے علاوہ مڈل کلاس کا حجم اور اس ملک میں ہنر مند افرادی قوت کی تعداد شامل ہیں۔

پاکستان میں کوئی بھی عامل عالمی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان پر توجہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ پھر ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے دولتمند افراد اپنی دولت اور کاروبار بیرون ملک منتقل کررہے ہیں۔ جب دنیا بھر کے سرمایہ کار یہ دیکھتے ہیں کہ جس ملک کی حکومت انھیں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہی ہے، خود اس کے اپنے سرمایہ کار اور حکمرانوں کے خاندان بیرون ملک سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں، تو وہ کس بنیاد پر اس ملک کا رخ کریں۔

اس کے علاوہ ہمارے سفارت خانے بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے میں ناکام ہیں۔ دورکیوں جائیں پڑوس کے ملک افغانستان کو ہی لیجیے۔ بھارت وہاں سڑکیں اور ڈیم تعمیر کررہاہے۔ابھی چند روز قبل ہی بھارتی وزیر اعظم نے ایک بڑے ڈیم کا افتتاح کیا  جب کہ ہم وہاں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے کے چکر میں کبھی اسامہ بن لادن، کبھی ملاعمر اور کبھی ملااختر منصور کی سرپرستی میں وقت ضایع کررہے ہیں۔ ہماری صرف ایک ہی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح طالبان کو کابل میں تخت نشین کرا دیں۔ خواہ بعد میں اس کے کچھ ہی نتائج کیوں نہ نکلیں۔ ایسی صورتحال میں عالمی برادری سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی توقع سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ طے ہے کہ جب تک ہماری حکمران اشرافیہ تہذیبی اور فکری نرگسیت کے سحر سے باہر نہیں نکلے گی، تبدیل ہوتی دنیا کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے ریاستی منصوبہ سازوں سے التماس ہے کہ اس ملک کو جناح کا پاکستان ہی رہنے دیں، شدت پسندوں کی آماج گاہ نہ بنائیں۔ اسی طرح بجٹ کو مخصوص اشرافیہ کے مفادات کا نگہبان بنانے کے بجائے عوام دوست بنانے پر توجہ دیں  جس قدر ممکن ہو غیر پیداواری اخراجات میں کمی اور شاہ خرچیوں کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی مالیاتی غلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنے وسائل پر اکتفا کریں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ  مالیاتی غلامی سیاسی وسماجی غلامی کا راستہ کھولتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔