لیڈروں کے فیڈر اور فیڈروں کے لیڈر

سعد اللہ جان برق  بدھ 8 جون 2016
barq@email.com

[email protected]

تکبر اور غرور ہمارے اندر بالکل بھی نہیں ہے خاص طور پر اپنے منہ میاں مٹھو بننا تو ہمیں ہرگز پسند نہیں ہے کیوں کہ ایک تو میاں مٹھو کا رنگ سبز ہوتا ہے اور سبز رنگ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا کیوں کہ آج تک جتنی بھی سبز چیزوں سے ہمیں پالا پڑا ہے کچھ خوشی نہیں ہوئی ہے، دوسرے یہ کہ میاں مٹھو یعنی طوطا اور لیڈر ہمیں ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں، وہی چند فقرے چند جملے اور رٹے رٹائے مکالمے … اور پھر وہ ’’لیڈر چشمی‘‘ بھی طوطے ہی کا خاصہ ہے، خیر وہ مطلب یہ کہ ہمیں خود ستائی اور اپنی تعریف کچھ زیادہ پسند نہیں ہے ورنہ ہمارے اندر ایسے بہت سارے ’’گن‘‘ ہیں جو بڑے بڑے دعوؤں کی بنیاد بن سکتے ہیں اور یہ صرف ہم نہیں کہتے بلکہ بہت سارے اور لوگ بھی یہی کہیں گے۔

اگر آپ کہیں بہت سارے آئینوں کا انتظام کر سکیں۔ ایک شخص ہے شکل تو اس کی کچھ اچھی نہیں ہے لیکن باتیں بڑی اچھی کرتا ہے اس سے ہماری جب بھی آئینے کے اندر ملاقات ہوتی ہے ہماری تعریف ہی تعریف کرتا ہے، ابھی پچھلے دنوں ہم نے اپنے اقوال زرین کا تذکرہ کیا تھا لیکن ایک اور گن جس کا خود ہمیں آج تک پتہ نہیں تھا یہ ہے کہ ہم نئے نئے الفاظ بھی ایجاد کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں، مثال کے طور پر ’’سرکاری‘‘ کے مقابل ہم نے جو ترکاری کا لفظ ایجاد کیا ہوا ہے عالم نسواں کے مقابل عالم نہواں جو ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتے، یا فرض کے مقابل قرض … یعنی ایک وہ جو فرض ادا کرتے ہیں اور قرض کھاتے ہیں اور دوسرے وہ جو قرض کو فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں، خیر یہ تو پرانی ایجادات ہیں ایک نئی ایجاد جو ابھی ابھی اتفاقاً ہم سے سرزد ہو گئی وہ ہے ’’فیڈر‘‘ … فیڈر کے معنی تو شیر خوار بچوں کو بھی معلوم ہیں لیکن یہ کسی نے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ فیڈر کا مقابل کیا ہوتا ہے۔

گرامر میں ہر چیز کی ایک ضد ہوتی ہے جو الگ الگ اور بالکل مختلف بلکہ متضاد عمل کرتی ہیں یا خوبیاں رکھتی ہیں جیسے خوبی کے مقابل خامی، سیاہ کے مقابل سفید، کڑوے کے مقابل میٹھا اور اجالے کے مقابل اندھیرا لیکن یہ صرف عام سی بات نہیں ہے دونوں مخالف اور متضاد چیزیں بظاہر تو یکسر دشمن نظر آتی ہیں لیکن ایک دوسرے کی پہچان بھی ہوتی ہیں، وہ کیا کہتے ہیں لازم اور ملزوم … کیوں کہ اگر ایک نہ ہو تو دوسری کا بھی وجود نہیں ہوتا ہے، شر نہ ہو تو خیر کی پہچان کیا ہو، اندھیرا نہ ہو تو اجالا کہاں سے آئے گا، بات کچھ گاڑھی ہو رہی ہے لیکن کبھی کبھی تھوڑا بہت گاڑھا پن بھی ضروری ہو جاتا ہے اور یہ جو ہم اپنی نئی ایجاد یا اختراع ’’فیڈر‘‘ کو لانچ کرنے چلے ہیں۔

اس کے لیے تو گاڑھا پن بہت ہی ضروری ہوتا ہے اگر فیڈر میں دودھ گاڑھا نہ ہو تو پینے والا … شف شف کی کیا ضرورت ہے صاف صاف ’’لیڈر‘‘ ہی کیوں نہ کہیں … لیڈر بمقابلہ فیڈر … کیسا لگا ابھی اور بھی اچھا لگے گا جب ہم ’’فیڈر‘‘ کو تھوڑا اور گاڑھا کریں گے، آپ نے کبھی ایسے بچے کو دیکھا ہے جس کے منہ میں فیڈر ہوتا ہے اور پھر وہ بچہ بھی دیکھا ہو گا جس کا فیڈر کہیں گر جائے یا کوئی ہٹا دے یا خالی ہو جائے، اب سوال یہ ہے کہ لیڈر کون اور فیڈر کون؟، لیڈروں کو تو آپ جانتے ہیں، پہچاننے کی ہم بات نہیں کر رہے ہیں ورنہ پہچانتے ہوتے تو اب تک … ’’یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزدان چاک‘‘ کے مرحلے تک پہنچ چکے ہوتے بلکہ ہمیں پکا پکا یقین ہے کہ آپ کسی نہ کسی جیل میں کسی نہ کسی دفعہ 302 میں محبوس ہوتے، اس لیے ہم صرف جاننے کی بات کر رہے ہیں پہچاننے کی نہیں… اور یہ جاننے والی سامنے کی بات ہے کہ لیڈر لوگ پیتے ہیں صراحت کی ضرورت نہیں ہے ورنہ پھر یہ فہرست لمبی ہو جائے گی کیوں کہ پینے والی چیزوں میں خون کا شمار بھی ہوتا ہے۔

عام طور پر فیڈر کے نام سے تو دودھ کا ہی خیال آتا ہے لیکن دودھ کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ’’فیڈ‘‘ میں آتی ہیں حتیٰ کہ حکومت فنڈز وغیرہ کو بھی فیڈ کرنا ہی کہتی ہے، مطلب یہ کہ فیڈ کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن بہرحال اس کا بنیادی تعلق دودھ سے ہی ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ دودھ صحت بڑھوتری نشوونما اور کارکردگی کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے چنانچہ ہمارے لیڈر صاحبان ’’دن رات ادویات‘‘ والی دکانوں کی طرح انتھک لگے رہتے ہیں، حکومت میں ہوں تو قوم کی خدمت کا بار گراں کچھ زیادہ ہو جاتا ہے چنانچہ اس کام میں اپنے خاندان بچوں رشتہ داروں حتیٰ کہ خواتین تک کو جھونک دیتے ہیں، اب اتنا زیادہ کام کرنے والوں کے لیے خوراک بھی زیادہ اور مقوی ہونا چاہیے جو دودھ کے علاوہ اور کسی چیز میں نہیں ہے۔

یہاں سے اس گائے کا ذکر ضروری ہو جاتا ہے جو ان خادمان کرام اور رہبران عظام کو فیڈ کرنے پر مامور ہے جو مقدس تو ہرگز نہیں ہے لیکن دودھیل بہت ہے معلوم نہیں اس کا تعلق کون سی نسل سے ہے کہ آج تک نہ تو اس کے دودھ میں کمی آئی ہے اور نہ ہی کوئی وقفہ۔ ہمارے ملک میں لیڈروں کی بے پناہ پیدائش افزائش اور ’’آلائشی‘‘ کا باعث فیڈر ہے، کمال کا فیڈر ہے وہ جو لوگ حکومت کے ذریعے قوم کو نہال کر رہے ہیں ان کو تو یہ فیڈر جی بھر کر دودھ پلاتا ہے لیکن جو بیروز گاری کا شکار ہو کر یہاں وہاں بھاگم بھاگ کرتے ہیں ان کو بھی یہ فیڈر ’’خالی منہ‘‘ نہیں چھوڑتا کچھ نہ کچھ منہ میٹھا کر ہی دیتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ نوالہ نگلنے کی سبیل پیدا کر دیتا ہے۔

یہاں پر ایک اور بات یاد آگئی یہ جو بھیڑ بکریاں چرانے والے گڈریا لوگ ہوتے ہیں ان بے چاروں کی زندگی بڑی سخت ہوتی ہے یوں کہیے کہ لیڈروں کی طرح … یہ لوگ دن بھر اپنے ریوڑ چراتے ہیں اپنے ساتھ کھانے کے لیے تو کچھ رکھ نہیں سکتے البتہ صبح چلتے وقت ایک روٹی اپنے پلے باندھ لیتے ہیں پھر جب دوپہر ہوتی ہے تو یہ ریوڑ کو کسی سائے میں لے جاتے ہیں، آرام کے اس وقفے میں یہ لوگ لنچ یوں کرتے ہیں کہ دودھ والی بھیڑ یا بکری کو پکڑ لیا منہ میں نوالہ ڈالا اور اس کے تھن سے دودھ کا گھونٹ بھر لیا یوں ان کا کھانا ایک یا دو جانوروں سے ہو جاتا ہے، اسی لیے تو ہم نے نہایت ہی غور اور خوص بلکہ محنت سے یہ ’’فیڈر‘‘ کا لفظ ایجاد کیا ہے جو لیڈر کے مقابلے میں ہر لحاظ سے موزوں اور مناسب ہے جس کسی کو ضرورت ہو ہماری طرف سے مفت نذر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔