دھکے آخر کب تک

شہلا اعجاز  بدھ 8 جون 2016
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

’’بس نہ پوچھیں جی۔ میں نے تو توبہ ہی کر لی۔ اب کبھی نہیں جاؤں گی ایسی جگہوں پر۔ جو درگت کل بنی ہے زندگی بھر یاد رہے گی۔‘‘ اس نے جھاڑو قالین پر رکھی اور کچھ شرمندگی سے مسکراتے بولی۔

’’اس بے چارے کو بہت چوٹیں آئیں، جسم پر نیل تک پڑ گئے۔‘‘

’’توبہ کریں جی۔ بس نکل آئیں وہاں سے۔‘‘

’’کیا وہاں پہلے سے ایسا ہو رہا تھا، یا اچانک شروع ہوا؟‘‘

’’وہاں تو عورتیں صبح چھ چھ بجے سے آئی ہوئی تھیں، ہم تو ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچے تھے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، اچانک جیسے عورتوں نے ہلہ بول دیا، بہت سی تو ہمارے ساتھ ہی بیٹھی تھیں بس ایک کے بعد دوسری پھر اسے دیکھ کے سب ہی چل پڑیں، انھوں نے گیٹ بند کر دیے تھے کہ ابھی کچھ نہیں دیا جا رہا، دراصل وہاں پہلے ٹوکن بٹتے تھے مائیک پر آدمی آوازیں لگا رہا تھا کہ پہلے ٹوکن لیں۔ ہم نے تو ٹوکن لیے تھے پر کچھ عورتیں جلد بازی میں زیادہ ہی آگے نکل گئیں، انھوں نے تو اس بے چارے آدمی کو بھی گرا دیا تھا جس کے پاس مائیک تھا اور ٹوکن والے کا بھی حشر ہو گیا تھا، آخر میں تو اس نے سارے ہی ٹوکن ہوا میں اڑا دیے تھے۔‘‘

’’تو کیا مار پیٹ بھی ہوئی تھی؟‘‘

’’ان کے بندوں کو بھی مارا الٹا… بس نہ پوچھیں۔ اور نہ پوچھیں ایک ایک چیز اٹھا کر لے گئیں۔ عورتیں رکشوں میں جو زمین پر قالین انھوں نے بچھائے تھے وہ تک لپیٹ کر لے گئیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہاں گیزر لگے تھے انھیں تک اٹھا کر لے گئیں یہاں تک کہ ان کی کرسیاں تک لے گئیں۔‘‘

’’تو انھوں نے کچھ نہیں کہا؟‘‘

’’کتنا کہتے آخر میں انھوں نے گیٹ کھول دیا کہ لے جاؤ، اب آپ خود بتائیں اس میں ان کا کیا قصور جب گیٹ بند کیا تھا کہ پہلے ٹوکن لیں تو عورتوں نے شیشے تک توڑ ڈالے۔ برابر میں آدمیوں کا تھا وہاں آرام سے چل رہے تھے پر اچانک جیسے عورتوں نے ہلہ بول دیا۔ کسی نے کسی چیز پر ہاتھ ڈالا تو کسی نے کسی پر۔ ‘‘

’’اس بے چاری کو تو صرف سویوں کے دو پیکٹ ملے۔‘‘

’’تو کیا تم بھی صرف سویاں ملیں؟‘‘

’’نہ جی ہمارے لیے تو بچا ہی کچھ نہ تھا۔ صبح سے گئے گئے شام ساڑھے پانچ بجے لوٹے بھوکے پیاسے۔ ایسے جیسے قید میں ہوں۔ دو سو روپے کرایہ خرچ کرکے گئے تھے۔‘‘

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ خاص طور پر لوگ آئے اس طرح کے پروگرامز کو برباد کرنے۔‘‘

’’پتہ نہیں جی۔ بڑی بڑی لمبی لمبی چوڑی عورتیں تھیں اور ہمارے ساتھ بیٹھی عورتیں بھی تھیں۔ پولیس تو بعد میں آئی تھی۔ اتنی دھکم پیل ہوئی کہ نہ پوچھیں ادھر باٹنے والی لڑکیاں بھی بے چاری سر جھکائے بیٹھی تھیں کہ کچھ بانٹنے کو بچا ہی نہ تھا۔‘‘

’’سیدھی سی بات ہے میں تو کہتی ہوں کہ اس طرح بانٹنا ہی نہیں چاہیے ہماری قوم خود ایسی ہی ہے کہ اس کے لیے اس طرح کام کرنا ہی نہیں چاہیے۔ ان بے چاروں کا بھی کتنا نقصان ہوا اور میں نے تو ٹی وی پر یہی دیکھا کہ اچھے خاصے لوگ بھی لینے کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔‘‘

یہ گفتگو تھی اس کام والی نوجوان لڑکی اور ہماری ایک عزیزہ کی بیٹی کی جو اتوار کو بازار مہربان میں مفت راشن لینے گئی تھیں اور بدنظمی کا شکار ہوکر لوٹیں۔ کچھ برس قبل اسی طرح کی بھگدڑ میں چند جانیں بھی گئی تھیں جب کراچی کے اولڈ ایریا میں ایک تاجر کے رمضان المبارک میں مفت راشن کی تقسیم کی تھی بعد میں پولیس نے ان تاجر صاحب کو بھی گرفتار کرلیا تھا بعد میں ان کو رہا بھی کردیا گیا تھا لیکن سوال یہ تھا کہ یہ کام وہ صاحب پہلی بار نہیں بیس برسوں سے زائد مدت سے کر رہے تھے پھر اس برس ہی کیوں۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے ہونے والے مفت راشن کی تقسیم میں اس طرح کی بھگدڑ۔ خدا کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا، غالباً اس میں بانٹنے والوں کی سچی نیت کا عمل دخل تھا ورنہ جو صورتحال ٹی وی کی اسکرینوں پر دیکھی گئی وہ انتہائی خطرناک تھی۔

اسی طرح کی مفت تقسیم کے سلسلے میں ایک مہربان خاتون اپنی سونے کی زنجیر، نقدی ، موبائل فون وغیرہ سے بھی محروم کردی گئی تھیں جب وہ راشن کی اسی طرح کی تقسیم کرنے خود افغان خیمہ بستی پہنچی تھیں چند برسوں پیشتر اس واقعے کے بعد اس طرح کے اور واقعات کا رونما ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ دراصل ہماری قوم غربت کی اس یکسر کو عبور کرچکی ہے جہاں سے بے غیرتی کی شروعات ہوتی ہے۔ اس میں قصور وار کون ہے، میں آپ یا ہم سب؟

کیا اس طرح کی بھگدڑ اور افراتفری سے عام لوگوں میں خدمت خلق کے جذبے سے پیچھے ہٹنے کا تصور نہیں پنپتا۔ کیا ایسا نہیں سوچا جاتا کہ عام لوگوں کی بجائے یتیم خانے، این جی او اور مساجد و مدرسوں کے لیے ہی کام کرنا مناسب ہے اس طرح ایک عام غریب انسان حقیقی طور پر ان خدمات اور سہولیات کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے جس کا وہ واقعی حق دار ہے۔ ہم معاشی طور پر اپنی قوم کو خود بھکاری بنا نے کے عمل سے گزار رہے ہیں مہنگائی کا اونچا گراف اور غربت کی بڑھتی شرح نے معاشرے میں جس توازن کی صورت قائم کی ہے اسے درست کرنا ناممکن کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔