پرفریب خیال کی حقیقت

شبنم گل  بدھ 8 جون 2016
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

سکھ، آسائشیں اور آسان راستوں کی طلب انسان کو حسیاتی طور پر غیر متحرک کر دیتی ہے۔ انسان کی حسیں اس وقت تیزی سے کام کرنے لگتی ہیں، جب کوئی تضاد اس کے سامنے آتا ہے۔ کسی دکھ سے سابقہ پڑتا ہے یا کوئی کمی مستقل اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔

انسان کو جتنی فراغت ملتی ہے، اس کا ذہن واہموں، وسوسوں اور پرفریب خیال کے تانے بانے میں الجھتا چلا جاتا ہے۔ جدید دنیا کو ہی دیکھ لیجیے کہ ہر طرف بدگمانیوں، کدورتوں اور وسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ صبح سے شام تک منفی باتیں سنتے سنتے ہماری سماعتیں ذہنی آلودگی تلے دھندلی ہوجاتی ہیں۔ اس کی واحد وجہ وقت کی فراوانی ہے۔

حقیقت اور اصلیت فقط دل کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔ دل کی آنکھوں کا سراغ پانا بہت ہی مشکل ہے۔ جس کے لیے شاہ لطیف فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے پرفریب خیال کے بھنور سے باہر نکل آؤ۔ یہ دوئی تمہارے اندر ہے۔ لہٰذا سماعتیں تمہیں فریب دے رہی ہیں۔ کیونکہ یہ دنیاوی خواہشات کا جال ہے۔ جس میں تمہاری طلب الجھی ہوئی ہے۔ خود کو طلب کے دائرے سے آزاد کرکے دیکھ۔ پھر سارے منظر اجلے ہوتے چلے جائیں گے۔

مظہر حسن ذات باقی ہے

اے محبت تیرا ہجوم صفات

جلوہ حسن یار ہر شے میں

جلوہ حسن یار کی کیا بات

اس حوالے سے شاہ جو رسالوکے ابتدائی سُرکلیان اور یمن کلیان اہمیت کے حامل ہیں۔ سُر کلیان وہ راگنی ہے جو سورج غروب ہونے کے بعد گائی جاتی ہے۔ جسے ’’کلیان ٹھاٹھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جب کہ سُر یمن کلیان میں شاہ صاحب مشکلات کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ آزمائشیں انسان کو زندگی کی سچائیوں کے قریب تر کر دیتی ہیں۔ ذات کی نفی سے عشق کی منزل قریب تر ہو جاتی ہے۔ دکھ، تکلیف، جستجو اور تڑپ سے ادراک و عرفان حاصل ہوتا ہے۔ یہ منزل پانے کے لیے مشاہدے کی سچائی کا شامل ہونا ضروری ہے۔ مشاہدے کے لیے غیر جانبدار ذہن کی ضرورت ہے۔ نظریاتی عینک کے ساتھ کیا جانے والا مشاہدہ کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ یہ وقت کا زیاں ہے۔

انسان جب تک اپنے وجود سے کہیں اوپر جاکر پرکھ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کی طلب، خودپرستی کے دائرے میں بھٹکتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حسیاتی طور پر غیر فعال ہوجاتا ہے۔ اور مغالطے میں مبتلا ذہن، زندگی یا کائنات کی حقیقی تصویر نہیں دیکھ پاتا۔ ذاتی مشاہدے کی اہمیت ہے، کیونکہ دوسروں کی آنکھ سے دنیا دیکھنا یا ذہن سے سوچنا اپنے خالص رنگ سے دور لے جاتا ہے۔ خالص رنگ نفرت، تعصب اور حسد سے بالاتر ہے۔ صوفی کا اپنا منفرد خالص رنگ ہے۔ اسے ہر شے محبت کے رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہے۔ محبت کا رنگ امر ہے۔ محبت، ذات کی اجارہ داری سے نجات دلاتی ہے۔ یہ انا پرستی کا بت توڑ دیتی ہے۔ یہ ذہن، روح و آنکھ سے پردہ ہٹا دیتی ہے۔

قصر ہے ایک اور در لاکھوں

ہر طرف بے شمار ہیں روزن

ہر سمت سے نظر آیا جو

جلوہ گر ایک ہی رخ روشن

پرفریب خیال کی حقیقت، انا پرستی کی ڈور سے بندھی ہوئی ہے۔ تمام تر مسئلہ ناسمجھی کا ہے۔ کیونکہ انسان فقط نظریاتی ذہن اور ظرف کے محدود پیمانے سے زندگی اور کائنات کے فاصلے طے کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا جتنا تیز چلتا ہے، راستے مزید پھیلتے جاتے ہیں۔ منزل اور دور ہوجاتی ہے، معاملات مزید الجھ جاتے ہیں، ابہام بڑھ جاتا ہے، منزل سے دوری قسمت کا کھیل نہیں ہے۔ یہ ذات کی قربت کا زہر ہے، اس رمز کو انسان نہیں سمجھ پاتا۔ وہ فقط سوچ کے تانے بانے بنتا رہتا ہے اور اپنی ناکامیوں کا جواز ڈھونڈتا رہ جاتا ہے۔

ناکامی کی حقیقت، ذات کی خودغرضی کی ڈور سے لپٹی ہے۔ یعنی اگر انسان کی پرکھ اور ظرف کھوٹے سکے کی مانند ہو اگر تو وہ بے شمار روزن نہیں دیکھ سکتا۔ وہ تو ذات کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہے گا اور کہیں اسے اپنی غلطی دکھائی نہیں دے گی۔ موجودہ حالات کو ہی دیکھ لیجیے۔ جو شاہ صاحب کی بتائی ہوئی غفلت کا نتیجہ ہیں۔ شاہ لطیف فرماتے ہیں طلب کو بھی قرینہ چاہیے، مانگنا بھی ایک ہنر ہے، دعا اس لیے بے ثمر ہے کہ من پر میل جما ہوا ہے۔ پہلے اس میل کو کھرچ کر صاف کر اے انسان۔ بصارت کو بصیرت کے سانچے میں ڈھال۔ پھر دیکھ کے کیسے چارہ سازوں تک تیری رسائی ہو پاتی ہے۔

کیسی دوری کہاں کی نزدیکی

رمز محبوب دیکھتے جاؤ

رفعت دار یا فراقِ یار

جو بھی حصے میں آئے اپناؤ

دراصل یہ سب سمجھ کا پھیر ہے۔ عارضی زندگی کے لیے لڑائی جھگڑے یہ سب انا کے فرسودہ جال ہیں۔ انسان کو جال پسند ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں گرفتار ہونا چاہتا ہے۔ اسیری کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ اپنی غلطیاں مگر قسمت کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے، جب کہ راستوں کا انتخاب خود کرتا ہے۔ کمی بصیرت میں ہے ناکہ حالات میں۔ انسان اپنے حالات میں بہتری لاسکتا ہے۔ وہ ناکامی کے بھنور سے باہر نکل سکتا ہے۔ مگر سب سے پہلے اسے اپنے لہجے کو محبت کے خالص رنگ میں رنگنا ہوگا۔ سوچ میں تضاد کی جگہ ہم آہنگی پیدا کرنی پڑے گی۔ تضاد انتشار ہے۔ انتشار، جنگل کی آگ کی طرف پھیلتا ہے۔ ہم آہنگی یقین کامل ہے۔ یہ وجود کی وحدت سے پھوٹ نکلتی ہے۔

اس وقت ہمارا پورا معاشرہ بے یقینی کی آگ میں جل رہا ہے۔ کوئی بھی حقیقت اگر سامنے آتی ہے تو اسے ایک پرفریب خیال بنالیتا ہے۔ واہمے، وسوسے اور قیاس آرائیاں ہر سمت گردش کر رہی ہیں۔ یہ خود رحمی اور احساس کمتری کی پیداوار ہیں۔ زمین سے جو جسم و روح کے تعلق کو نہیں سمجھ پاتے۔ وہ خیال کی معرفت تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔

بقول شاہ لطیف کے:

جسم اور روح کے تعلق کو

لازمی ہے قریب تر ہونا

کھیل سمجھو نہ عشق کو یارو

شرط ہے صاحب نظر ہونا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔