آئینہ (پہلا حصہ)

ندیم جاوید عثمانی  منگل 14 جون 2016
کمبخت اندھے کے بچے، اللہ کرے ان کی آنکھوں میں کالا پانی اُترجائے اور اُن کی بینائی چلی جائے، بتاؤ رضیہ خالہ سے پہلے تو ہمارا گھر پڑتا ہے پھر بھی سب رشتہ لیکر یہاں نہیں وہاں جاتے ہیں۔

کمبخت اندھے کے بچے، اللہ کرے ان کی آنکھوں میں کالا پانی اُترجائے اور اُن کی بینائی چلی جائے، بتاؤ رضیہ خالہ سے پہلے تو ہمارا گھر پڑتا ہے پھر بھی سب رشتہ لیکر یہاں نہیں وہاں جاتے ہیں۔

تھوڑی دیر پہلے تک باورچی خانے میں ہونے والی کھٹر پٹر بند ہوچکی تھی اور نہ اب آنگن میں چلتے پھرتے قدموں کی کوئی دھمک تھی، پھر  بھی وہ اپنی تسلی کی خاطر اوپر کے حصے میں بنے اپنے کمرے کی کھڑکی کے پردے کو ہلکا سا سرکا کر نیچے آنگن میں نظریں دوڑانے لگی، صرف اِس یقین دہانی کے لیے کہ اماں اب تک گھر میں موجود ہیں یا برابر والوں کے ہاں جاچکی ہیں۔ اس کی نظریں گھر کے مرکزی کواڑ پر پڑیں جس کی کنڈی اندر سے کھلی ہوئی تھی، جس کا مطلب ہے کہ اماں باہر سے تالا ڈال کر گئی ہیں۔ اُس نے کھڑکی کا پردہ واپس برابر کیا اور گھر کے مرکزی دروازے کو اندر سے بھی بند کرنے کے خیال سے آنگن میں اُتر آئی۔ اندر سے کنڈی لگانے کی احتیاط گو فضول ہی تھی کیونکہ آج پڑوس میں رہنے والی رضیہ خالہ کی بیٹی عائشہ کی مایوں تھی اور اُسے پتہ تھا کہ اب اماں دو یا تین گھنٹے سے تو پہلے کیا ہی آئیں گی لیکن ابھی اوپر اپنے کمرے میں واپس جاکر اُس نے جو کرنا تھا اُس کے خیال میں دروازہ اندر سے بند کرلینا ہی زیادہ بہتر تھا کیونکہ اماں کا کیا بھروسہ، اگر انھیں وہاں بھی گھٹنے کا درد شروع ہوجائے جس میں وہ برسوں سے مبتلا تھیں تو ابھی واپس آجائیں گی۔

ابھی وہ واپسی کے لئے پلٹی ہی تھی کہ پڑوس میں پڑنے والی ڈھولک کی پہلی تھاپ اُس کے سینے پر گھونسے کی طرح پڑی اور اُس کے اوپر کی جانب بڑھتے ہوئے قدم آنگن میں ہی جم گئے۔ ان ساٹھ ساٹھ گز کے کوارٹروں میں بھلا فاصلہ ہی کتنا تھا جو ڈھول کی آواز اُس تک نہ پہنچ پاتی اور نہ ہی اس گھر کی دیواریں اتنی بلند تھیں جو اس کو ڈھول کی اس ڈھم ڈھم کی اذیت سے بچالیتیں جس کی ہر تھاپ اس کے سینے پر کسی گھونسے کی طرح پڑرہی تھی!

اُس نے پڑوس کے گھر کی دیوار کی جانب منہ کرکے پوری طاقت سے تھوکا۔ غصے کی حالت میں پھینکا گیا تھوک آدھا برابر والوں کی دیوار پر پڑا تو آدھا اُس کے اپنے گریبان پر گرگیا۔ اُس نے پہلے رضیہ خالہ کو کوسا جنہوں نے ہاتھی جیسی ایک دو نہیں پوری سات لڑکیاں پیدا کی تھیں اور اس پر ستم کہ آج ان کی سب سے چھوٹی بیٹی عائشہ کی بھی مایوں کی رسم ہونے جارہی تھی، جسے دو دن بعد پیا دیس سدھار جانا تھا، دو چار لڑکیاں کم جن لیتی تو اس کی بیٹیوں کے حصے کا ہی شاید کوئی ایک رشتہ ادھر آجاتا۔

رشتہ آنے کے خیال پر اب اُسے عائشہ کے سسرال والوں کا خیال آیا تو اب رضیہ خالہ کے ساتھ ساتھ عائشہ کے ہونے والے سسرالی بھی ان کوسنوں میں شامل ہوگئے۔ کمبخت اندھے کے بچے اللہ کرے ان کی آنکھوں میں کالا پانی اُترے اور ان سب کی آنکھوں کی بینائی چلی جائے، بتاؤ رضیہ خالہ سے پہلے تو ہمارا گھر پڑتا ہے اور وہ اندھے اس آنگن کی بیری کو لے جانے کے بجائے اس نیم کی نیمبولی عائشہ کے لئے جاپہنچے۔

ڈھول کی تھاپ تیز ہوتے ہی حلق پھاڑ پھاڑ کر گاتی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کی آوازیں بھی تیز ہونے لگیں، اُس نے ان سب کے سُروں میں گاتے ہوئے گلوں کو بے سرے ہونے کی بد دعا دی اور جلدی سے آنگن کی رسی پر سوکھتی ہوئی دری اُتاری جسے آج صبح ہی دھوکر اس نے اس رسی پر سُکھا دیا تھا۔ جس پر اماں نے اس کے لتے بھی لئے تھے کہ یہاں کون آرہا ہے جو تو صبح صبح اس دری کو دھونے بیٹھ گئی ہے۔ اب وہ اماں کو کیا جواب دیتی، اِس لیے اُن کی بات سُنی ان سُنی کرگئی، اور شاید اماں کو بھی اس سے جواب ملنے کی اُمید نہیں تھی لہذا وہ بھی چائے کا کپ ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا پان لگانے میں مشغول ہوگئی تھیں۔

اُس نے آنگن میں دری بچھائی اور پھر اُسکی صبح ہونے والی دُھلائی کا تنقیدی نظروں سے جائزہ لینے لگی اور جب دری کے بیچ میں تو آئی تو ایک دو شکنوں کو بھی پیروں سے درست کرنے لگی، پھر اچانک آپ ہی اُس کے ہونٹوں پر یہ سوچ کر ہنسی آگئی کہ ابھی کوئی آکر ان شکنوں کو دیکھتا تو کیا کہتا کہ لڑکی کیسی پھوہڑ ہے، اس جانب سے مطمئن ہوکر وہ تیزی سے اوپر اپنے کمرے کی جانب لپکی۔

کمرے میں آ کر اپنی الماری کھولی اور سامنے استری کیا ہوا پیلا سوٹ نکال لیا جس پر اس کے اپنے ہاتھوں سے ٹانکے ہوئے دھنک رنگ کے گوٹے کے کام کے پھول انتہائی خوبصورتی سے بنائے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح اماں سے چُھپ کر گلی کے ایک لڑکے سے منگایا گیا گلاب کے پھولوں کا ایک ہار اور کچھ بیلے کے گجرے کی لڑیاں بھی بڑی احتیاط کے ساتھ کاغذ سے نکالیں اور جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔

اس کام سے فارغ ہوکر وہ جلدی جلدی اپنے چہرے کو ہلکے سے لالی پاوڈر سے سجاتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بولی۔

غزل کی بچی کہیں اس لالی کی سُرخی اتنی گہری نہ ہوجائے کہ تیرے اپنے گالوں کی حقیقی سُرخی اس میں چُھپ جائے۔

پھر لبوں پر سُرخی کو  پھیر کر اس نے اپنا جائزہ لیا تو آپ ہی اپنی بلائیں لینے کو دل چاہا۔ ماشاءاللہ کہتے ہوئے وہ شیشے کے سامنے سے ہٹی اور دوپٹے کو بڑی نفاست کے ساتھ سجا کر ہلکا سا گھونگھٹ لیا، اور اپنے کمرے سے آنگن میں اُترتی ہوئی سیڑھی پر شرماتے لجاتے قدموں سے آہستہ آہستہ اُترنے لگی تو نہ جانے کتنی خیالی سکھیاں اُس کو سنبھالنے کے لئے بڑھ کر آگے آگئیں، کسی نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا تو دوسری اس کا گھونگھٹ درست کر رہی تھی جبکہ تیسری سیڑھیاں سنبھل سنبھل کر اُترنے کا مشورہ دے رہی تھی۔

اور پھر انہی سہیلیوں نے اس کو بڑے لاڈ پیار سے لاکر آنگن میں بچھی دری پر بٹھادیا۔ پڑوس میں بجتے ڈھول کی آواز اور گاتی ہوئی آوازیں سب کی سب اس کے آنگن میں اُتر آئیں، اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی اس کی مایوں کی رسم شروع ہوگئی۔ ہاتھوں میں پان مٹھائی رکھنے پر سکھیاں چھیڑنے لگیں، تو اس کے بدن کا سارے کا سارا خون اس کے رخساروں پر اُمڈ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی مایوں کی رسم تمام ہوئی تو وہی سکھیاں جو اس کو یہاں آنگن تک لائیں تھیں واپس اُس کے کمرے میں چھوڑ آئیں اور وہ کمرے میں ہی واپس نہیں آئی اپنے خیالوں کی دنیا سے بھی واپس آگئی۔ واپس اپنے حلیے میں آنے کے لئے منہ دھونے اور کپڑے بدلنے میں اُسے چند منٹ لگے۔ گلے میں پڑا ہار اور بالوں میں لگی گجرے کی لڑیاں اپنی الماری میں دھرے اُس تھیلے میں ڈالنا نہیں بھولی جس میں ہر بار مایوں کی رسم میں پہنے گئے ہار اور گجروں کے سوکھے ہوئے پھولوں کا ایک ڈھیر لگ گیا تھا۔

پلنگ پر لیٹتے ہی اُسے اندر سے لگائی گئی کنڈی یاد آئی تو گھبرا کر دروازے کی جانب لپکی کہ اماں کے آنے سے پہلے کھول دے، پڑوس سے بجتے ہوئے ڈھول کی آوازیں بھی اب تھم گئیں تھیں۔ کنڈی کھول کر واپس اپنے پلنگ پر لیٹ کر مطمئن ہوئی تو ابھی کچھ دیر پہلے کی اپنی رسم کے تمام منظر اُس کے ذہن میں چلنے لگے، اُس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ سج گئی اور شرماتے ہوئے اُس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھے اور تھوڑی دیر میں ہی نیند کی وادیوں میں اپنے خوابوں کے شہزادے کو ڈھونڈنے نکل گئی جو اس کے گھر کی راہ بھول چکا تھا۔

مکینوں کے نام پر اس ساٹھ گز کے قبرستان نما گھر میں دو مکین تھے۔ عذرا بیگم اور اُن کی بیٹی غزل، جن کے نزدیک اپنے اپنے لئے دو دو گز کی جگہ چھوڑ کر گھر کا باقی چھپن گز حصہ غیر ضروری تھا۔ غزل کے ساتھ اس گھر میں اپنی بیوگی کے دن گزارتی ہوئی عذرا بیگم کو نہ اپنے حالات کا رونا تھا نہ بڑھاپے کی یہ بیوگی خون کے آنسو رلاتی تھی۔ اس گھر میں غزل کی صورت چلتا پھرتا وجود ہی اُن کی جان کو گھن لگانے کو کافی تھا کہ اُس کی عمر نکلتی جارہی تھی۔ بیجاری نہ جانے کتنے لوگوں سے غزل کے لئے رشتے کا بول بول کر تھک چکی تھیں اور ہر بار لوگ یہی کہتے تھے کہ ہاں آپا کوئی اچھا لڑکا ہوا تو ضرور بتائیں گے۔ اب تو عذرا بیگم کو یہ جواب بھی کوئی اُمید نہیں دلا پاتا تھا۔

ادھر غزل کی حالت اُن سے پوشیدہ نہیں تھی، ماں تھیں ناں تو سمجھ سکتی تھیں کہ آس پڑوس یا محلے میں ہونے والی کسی شادی پر اُس کا چڑچڑا پن کیوں بڑھ جاتا ہے۔ جو کبھی دنوں تو کبھی ہفتوں برقرار رہتا ہے۔ اس لیے عذرا بیگم بھی اُس دوران چپ سادھ لیتی تھی کہ غزل کو کچھ کہنا جلتی پر تیل چھڑکنے کے برابر ہوگا اور جب غزل اپنی اس کیفیت سے نکلتی تھی تو اس تمام عرصے اماں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر اُس کا اپنا دل بھر آتا تھا۔ وہ چُپ چاپ آنگن میں بچھے تخت پر بیٹھی ہوئی اماں کی گود میں سر دے کر بیٹھ جاتی اور پھر جہاں غزل کے آنسو اماں کے دامن کو تر کر رہے ہوتے تھے۔ وہیں اماں کی گود میں دھرے غزل کے سر کے بالوں کو اماں کا رونا بھگو دیتا تھا۔ اب تو اس گھر کے درو دیوار بھی رونے کے اس منظر سے اس قدر آشنا ہوچکے تھے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد رونے کی اس محفل پر حیرت کا اظہار نہیں کرتے تھے۔

صبح نیند پوری ہونے پر جب وہ اپنے کمرے سے اُتر کر نیچے آنگن میں آئی تو اماں تخت پر بیٹھی ناشتہ کررہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے ہی وہ بھانپ گئیں کہ اب اس پر کچھ دنوں کے لئے پھر دورہ پڑگیا ہے۔ وہ اُن کو نظر انداز کرتی ہوئی آنگن میں بنی ٹنکی سے منہ دھونے بیٹھ گئی اور پھر وہاں سے فارغ ہوکر باورچی خانے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ ایک ہاتھ میں پراٹھا دبائے اور دوسرے ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے ان کے برابر میں تخت پر آکر بیٹھ گئی تو اُس کے ہاتھوں میں یوں پراٹھا پکڑے دیکھ کر اُن کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل گیا، بیٹا پراٹھا کسی ڈلیہ یا پلیٹ میں ہی رکھ لیتی۔ بس اُن کا یہی بولنا برا ہوا کہ وہ کوئی جواب دینے کے بجائے گھورتی ہوئی نظروں سے الٹا سوال کر بیٹھی، کیوں؟ مجھے کونسا تم نے بیاہ کر سُسرال بھیجنا ہے جو یہ ڈھنگ سلیقے سکھا رہی ہو اماں؟ اور پھر اپنا کپ اور پراٹھا یونہی ہاتھوں میں لئے اماں کا کوئی دلاسہ سُنے بغیر ہی اوپر اپنے کمرے کی جانب چل دی۔

اماں اُس کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر اوپر آسمان کی جانب دیکھنے لگیں جیسے دعا کررہی ہوں کہ یا رب! میری بیٹی کی خوشیوں کے لئے دروازے کھول دے یا پھر ہم پر اپنے جہاں کا دروازہ بند کرکے واپس بلا لے۔

کمرے میں آکر لمحے بھر پہلے کی کوئی چیز اُسے یاد نہیں رہی۔ چائے پراٹھہ ختم کرکے وہ ایک بار پھر اپنے کمرے میں لگے آئینے میں کھوئی کھوئی نظروں کے ساتھ اپنے سراپے کا جائزہ لینے لگی۔ جوانی کے دنوں سے ابتک یہ واحد آئینہ تھا جس کے ساتھ اس کی بڑی گہری اور مضبوط دوستی تھی، جو کبھی اس کی تعریفیں کرتا تو کبھی اس کو اچھے دنوں کی نوید سُناتا۔ اس کو تو اپنی ذات کا بھی پتہ نہیں تھا۔ یہ تو اس آئینے نے ہی اس پر راز کھولا تھا کہ وہ کتنی خوبصورت تھی۔ دودھ جیسی رنگت، بادامی آنکھیں، پنکھڑیوں جیسے لب اور اُن پر سجی ایک قاتل سی مسکان، اس نے تو آئینے کے مشورے پر ہی اپنے بالوں کو باندھ کر رکھنا شروع کردیا تھا۔ جب آئینے نے اس کی زلفوں کے بکھرنے کی صورت دن میں رات ہونے کا خوف اس کے دل میں بٹھایا تھا۔

نجانے کتنی دیر وہ ابھی آئینے کی ان تعریفوں میں کھوئی رہتی کہ نیچے سے اماں نے آواز دی، غزل بیٹا نیچے آؤ ، دیکھو کون آیا ہے۔ اماں کی آواز سن کر ایسے موقعوں پر افسانوں میں پڑھے ہوئے وہ تمام منظر اس کی آنکھوں میں گھوم گئے، جب دور پار کے رشتے کا کوئی نوجوان بھولے بھٹکے برسوں بعد آ نکلتا ہے اور دور کی خالہ کی بیٹی کو دیکھتے ہی فدا ہوجاتا ہے۔ اماں کی آواز میں بھی اسی نوید کو محسوس کیا تو جلدی سے بالوں پر کنگھا مارا اور نینوں میں کاجل کی ڈوری سجا کر زینے کی جانب بڑھی اور تمام کے تمام خیالات اُس لمحے ملبے کا ڈھیر ثابت ہوئے جب تخت پر اماں کے ساتھ اپنی سہیلی فائزہ کو بیٹھے دیکھا جو تین سال پہلے شادی ہوکر لاہور چلی گئی تھی۔ فائزہ پر نگاہ پڑتے ہی اُس کے حلق میں کڑواہٹ اُتر آئی اور یہ فائزہ پر ہی موقوف نہیں بلکہ اُس کی جن جن سکھیوں کی شادیاں ہوتی گئیں وہ سہیلیاں اپنے گھروں سے اور یہ اُن سے چھوٹتی گئی کہ اُن کی شادی کے بعد سے ہی اسے اُن کے وجود سے نام نفرت ہوتی گئی اور اُس کی اسی نفرت نے نجانے بچپن کی کتنی سکھیاں چھڑا کر اُسے مزید تنہا کردیا تھا۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔