جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  جمعـء 10 جون 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ صدی کی خونچکاں روداد پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی اس بات پر مصر رہے کہ ریاست کو مذہب سے الگ کرنے اور جمہوری طرز حکمرانی قائم کرنے سے خونریزی ختم ہو جاتی ہے تو اسے پوری انسانیت کو ان بیس کروڑ سے بھی زیادہ انسانوں کی موت کا جواز دینا ہو گا جو ان ریاستوں نے بہایا جن کے کاروبار حکومت سے مذہب نکالا جا چکا تھا اور جو اپنی اساس میں جمہوری تھیں۔

تاریخ نے فرعون‘ نمرود‘ شداد‘ چنگیز‘ سکندر ایسے ہزارہا ظالم حکمران پیدا کیے جو تاریخ کے صفحات کو توسیع سلطنت کی خاطر انسانوں کے خون سے رنگین کرتے رہے اور جدید تاریخ نے بھی بیسویں صدی کے سیکولر جمہوری معاشروں اور ریاستوں کا قتل و غارت بھی دیکھا۔ ان دونوں معاشروں اور ریاستوں کے مقابلے میں تاریخ کے صفحات پر ایک اور ریاست بھی جنم لیتی ہے جسے سید الانبیاء ﷺ مدینہ میں قائم کرتے ہیں اور جس کا کسی نہ کسی طور پر تسلسل خلافت عثمانیہ تک چودہ سو سال تک چلتا رہتا ہے۔ تاریخ کا ایک ایسا مغالطہ لوگوں کے ذہن نشین کروایا گیا ہے کہ اسلام کا سیاسی اور ریاستی نظام تو بس تیس سال چلنے کے بعد ختم ہو گیا۔ یہ کلیہ وہ دنیا میں کسی اور حکومت‘ ریاست یا آئین پر نہیں لگاتے‘ پاکستان میں جمہوریت آئے‘ مارشل لا لگے‘ پھر جمہوریت آئے‘ پھر مارشل لاء لگے لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کا آئین یا ریاست ناکام ہو گئی۔

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب تک ادارے چل رہے ہیں تو نظام چل رہا ہے۔ یہی دلیل اگراسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ پر لاگو کی جائے تو تیس سال کی خلافت راشدہ کے بعد حکمرانوں کے انتخاب کا طریق تو بدل گیا اور شورائیت کی جگہ خاندانی ملوکیت نے لے لی لیکن وہ ادارے جو رسول اکرم ﷺ  اور خلفائے راشدین کے زمانوں میں قائم ہوئے تھے وہ سب کے سب تھوڑے بہت زوال کے ساتھ خلافت عثمانیہ تک قائم رہے۔

اسلام کا تعزیراتی نظام اپنی اصل شکل میں قائم رہا‘ یہاں تک کہ برصغیر پاک و ہند میں بھی التمش نے 1256ء میں فقہ حنفی کے تحت عدل و انصاف کا نظام رائج کیا جو 1857ء تک چلتا رہا۔ مجلہ عدلیہ خلافت عثمانیہ کی وہ قانونی دستاویز ہے جو اسلامی نظام عدل و انصاف کو اپنے زیرنگیں علاقوں میں نافذ کرتی تھی اور جس میں تمام جرائم‘ سزاؤں‘ تفتیش کے طریق کار وغیرہ سب کا ذکر ہے۔ یہ عدالتی و تعزیراتی نظام 1924ء تک نافذ رہا۔ اسلام کا معاشی نظام جس میں سود کی حرمت اور بازار (سوق) کی آزادی شامل ہے‘ یہ بھی آخر وقت موجود رہا ہے۔ دنیا بھر میں 1694ء کے بینک آف انگلینڈ کے بعد سودی نظام نے اپنے پنجے گاڑ دیے تھے لیکن خلافت عثمانیہ اس سے مبرا رہی۔

اسی طرح انھی دنوں میں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ذریعے حصص اور پھر کارپوریٹ استعمال کا آغاز ہوا لیکن دنیا بھر کے معاشیت دان اس بات پر متفق ہیں کہ آخری آزادانہ تجارت اور استحصال سے پاک معیشت کا نظارہ دنیا نے عثمانیہ دور کے بازار میں دیکھا۔ یہ بازار جو عام آدمی کو اپنی مصنوعات لا کر بیچنے کے اسلامی اصول پر استوار تھا‘ جب اجڑا تو بڑے بڑے اسٹور اور مال وجود میں آ گئے جہاں ایک شخص سرمائے کی بنیاد پر نوے فیصد اشیائے خورونوش کا مالک بن بیٹھا اور اس نے چھوٹے دکاندار‘ کاشتکار اور کاریگر سے اس کا منافع ہی نہیں رزق بھی چھین لیا۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم موجود رہا‘ ریاست کی خارجہ پالیسی تبدیل نہ ہوئی۔

زکوٰۃ اور صلوٰۃ کا نظام برقرار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اس گئی گزری ریاست کی تاریخ میں ایک بھی عوامی بیزاری کی لہر نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اس دوران فرانس میں لوگوں نے اپنے بادشاہوں اور امیروں کو قتل کر کے خونریزی کی تاریخ رقم کی‘ انگلینڈ کے بادشاہ کے خلاف تحریک اٹھی اور اسے چھرے سے ذبح کیا گیا۔ اس دوران چودہ سو سالوں میں نظریاتی اور مسلکی بنیاد پر حکومت بدلنے کی تحریکیں تو اٹھیں لیکن ایک دن کے لیے بھی غربت‘ بے روز گاری‘ انصاف کی عدم فراہمی کی بنیاد پر کسی نے آواز بلند نہ کی۔ اس لیے کہ اسلام کے عدل و انصاف اور معیشت کے قوانین نافذ تھے جن سے معاشرہ امن کا گہوارہ تھا۔ جب کہ فرانس‘ انگلینڈ اور روس میں اسی دوران غربت‘ بیروز گاری اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے خوفناک حد تک خونی انقلاب آئے۔ اس سب کے باوجود بھی کچھ ’’عظیم‘‘ دانشور‘ مفکر اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسلام تیس سال بعد فیل ہو گیا۔

ایسا تجزیہ صرف دو قسم کے افراد کرتے ہیں‘ ایک وہ جو اسلام کو ناقابل نفاذ دین ثابت کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا وہ گروہ جو یہ تصور رکھتا ہے کہ پوری جماعت صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد الٹے پاؤں پلٹ گئی تھی۔ ان کی بات کو مان لیا جائے تو نعوذ بااللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کی سب سے ناکام شخصیت تھے‘ حالانکہ سوائے اس گروہ کے ساری دنیا کے مورخین یہ بات مانتے ہیں کہ سید الانبیاء کی ذات وہ عظیم ہستی ہے جس نے اتنے قلیل عرصے میں اتنی جاہل قوم کو اتنے بڑے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے تیار کیا‘ ایک حکومت قائم کی جس کا اپنا نظام عدل‘ معیشت اور معاشرت ہے اور پھر اس کو دوام بخشا۔

گزشتہ ایک صدی سے میرے ان دوستوں نے ایک رویہ اپنا لیا ہے کہ یورپ میں چرچ کی بالادستی‘ اس کے مظالم اور جبر و تشدد کو مذہب کا نام دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام مذاہب کو ریاست سے جدا کر دو‘ ورنہ ریاست برباد ہو جائے گی۔ چرچ کی وکالت چرچ والے جانیں مجھے تو یہاں صرف اور صرف اسلام کی وکالت کرنا ہے۔ اسلام جب سے ریاست کا مذہب اور دستور بنا ہے تو دنیا نے پہلی بار اخلاقیات کی بالادستی دیکھی ہے۔ اس نے پہلے کی تاریخ کی جنگیں اٹھا کر دیکھ لیں‘ قتل و غارت‘ لوٹ مار‘ فصلوں کو آگ لگانا‘ عورتوں کی سرعام بے حرمتی‘ تشدد‘ سب کچھ نظر آئے گا۔

مذہب یعنی اسلام نے جنگ کی اخلاقیات دیں اور ان پر عمل بھی کر کے دیکھایا۔ یہاں تک کہ ول ڈیورانٹ جیسا متعصب مورخ بھی کہتا ہے کہ یورپ نے صلیبی جنگوں میں جب بیت المقدس فتح کیا تو بازاروں‘ گھروں‘ محلوں میں خون اتنا بہایا گیا کہ گھوڑوں کی پنڈلیاں ڈوب گئیں جب کہ اس کے مقابلے میں صلاح الدین ایوبی کی اسلامی اخلاقیات نے یورپ کو ایک اور چہرہ دکھایا کہ اگر مذہب اسلام ریاست چلا رہا ہو تو جنگ کیسے لڑی جاتی ہے۔ کیا ریاست اسلام سے پہلے ریاستی سطح پر کفالت یتیم‘ مسکین‘ بیوہ اور غریب کا کوئی نظام موجود تھا۔ کیا اس سے پہلے کسی نے دنیا کے بدترین معاشی نظام یعنی سود پر پابندی لگائی تھی۔

آج پوری دنیا نشے کے خلاف جدوجہد کرتی ہے‘ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ قائم ہے۔ ہر ملک میں مسلح دستے اس کا قلع قمع کرنے کو تیار ہیں لیکن قابو نہیں پایا جاتا مگر جب ریاست کا مذہب اسلام بنا تو ہر قسم کے نشے پر پابندی لگی اور سزا مقرر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر میں مسلمان وہ واحد قوم ہے جس کے نوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ شراب نوشی اور دیگر نشہ نہیں کرتے۔ میں قوانین کی ایک طویل فہرست بتا سکتا ہوں جو اس وقت دنیا کے سامنے آئے جب اسلام ریاست کا مذہب بنایا گیا اور اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ یہ تمام قوانین‘ اصول و قواعد اور نظام ہائے زندگی جو نفاذ کا ایک پورا طریق کار رکھتے ہیں‘ کیا اسلام میں کسی ریاستی اختیار کے بغیر نافذ کر دیے گئے تھے۔

کیا ریاست مدینہ کے بعد حضرات ابوبکرؓ‘ عمرؓ‘ عثمانؓ اور علیؓ نے جو نظام حکومت قائم کیا اور وہ بھی صرف جزیرہ نما عرب تک محدود نہیں بلکہ ایران‘ مصر‘ شام اور دیگر علاقوں تک وسیع سلطنت میں‘ کیا وہ سب پولیٹیکل یا سیاسی نظام نہیں تھا۔ جس ابن خلدون کا بڑا تذکرہ میرے جدید دانشور کرتے ہیں۔ وہی سیاست کی تعریف اپنے مقدمے میں یوں کرتا ہے ’’فالسیا سۃ و الملک ھی کفالۃ للخق و خلافۃ للہ فی العباد و تنفیذ احکامہ فیھم‘‘ (سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت کی ضمانت کا نام ہے۔ یہ سیاست اللہ کی نیابت ہے اس کے بندوں پر اسی کے احکام نافذ کرنے کے کام میں)۔ کیا یہ پولیٹیکل اسلام نہیں ہے۔ ہاں یہ آپ کی جمہوریت‘ کارپوریٹ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور سیکولر ریاست کے چوکھٹے میں پورا نہیں آتا۔ اگر اسلام کو صرف ایک تبلیغی مشن کے طور پر ہی کام کرنا ہے تو میرے دوستوں کو قرآن پاک سے قتال کے قلم کی وہ بے شمار آیات کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔

فتنے کے ختم ہونے تک قتال کرو۔ کیا یہ حکم ریاست دے گی اور اگر وہی دے گی تو اس کے لیے اسلامی ہونا ضروری ہے اور اسلامی حکومت وہ ہوتی ہے جو اللہ کے قوانین نافذ کرے اور ان کے مطابق فیصلہ کرے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ صرف دو سال قبل جنم لینے والی داعش کو پولیٹیکل اسلام کا نتیجہ بنایا جاتا ہے۔ وہ پولٹیکل اسلام جو ریاست مدینہ سے شروع ہوا اور جس میں جدوجہد اور انقلاب کے سرخیل سیدنا امام حسینؓ ہیں۔ اسلام پر اب یہ وقت آ گیا ہے کہ میرے ملک کے دانشور مجھے راشد الغنوشی کے مراکش سے اسلام کی تعلیمات سیکھنے کا درس دیتے ہیں۔

اس مراکش سے جو اپنے عیاشانہ تصور اور قحبہ گری کے مرکز کی حیثیت سے جو یورپ کے بازاروں میں متعارف ہے اور قافلے جوق در جوق میرے دانشور کے ممدوح ملک میں جاتے ہیں۔ اس کی کوکھ سے اگر ایک نان پولیٹیکل اسلام کی ہمیں صدا دی جاتی ہے تو صرف اتنی بات کہوں گا کہ قرآن سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اور وہی اس کے شارح ہیں‘ اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام کی جماعت تھی اور انھوں نے صحبت رسولؐ میں قرآن کے مطالب سمجھے۔ راشد الغنوشی ہو یا جاوید غامدی‘ سیدنا عمر ابن خطاب کا یہ قول ان سب کی منطق کے مقابلے میں بھاری ہے۔

سیدنا عمرؓ نے فرمایا ’’واللہ مایز ع اللہ بالسلطان اعظم ممایزع بالقران‘‘ ’’اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ حکومت کے ذریعے برائیوں کا جو سدباب کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو قرآن کے ذریعے کرتا ہے (کنزالعمال)۔ میں نے قرآن و حدیث‘ سنت رسول اور سیرت صحابہ سے گزشتہ کالموں ’’طاغوت سے انکار‘‘ اور موجودہ کالموں کی سیرز میں دلائل و براہین رکھ دیے۔

لیکن میرے دوست کالم نگار انھیں اپنی بنائی ہوئی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں۔ آخر میں سورہ بقرہ کی ایک آیت پر ختم کرتا ہوں۔ یہ اس وقت نازل ہوئی جب بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے پاس ایک قتل کا فیصلہ کرانے آئے۔ اللہ فرماتا ہے۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو‘ وہ کہنے لگے کہ ہمارا مذاق بناتے ہیں۔ موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں شامل ہوں (البقرہ 67) میرے یہ دوست بھی ویسا ہی رویہ رکھتے ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو کہتے ہیں آج کے دور میں آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔