چند ہزار نئے دیوتا

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 10 جون 2016

گلیلیوگیلیلی کہتا ہے مجھے یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ جس خدا نے مجھے عقل عطاکی ہو وہی خدا مجھے عقل کے استعمال سے کیسے روک سکتا ہے۔ انسانی ترقی کے معنی جو بھی نکالے جائیں اس کا کم ازکم مطلب یہ ہونا چاہیے کہ ’’ لوگوں کو انسان ہونے اور رہنے کا حق دیا جائے ‘‘ انسانی حقوق کی بات کرنے والے کسی بھی معاشرے میں ان حالات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ جن میں انسان اپنی انسانیت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں جہاں لوگ مجبور ہو کر اپنے بنیادی حقوق سے ہی دستبردار ہوجائیں اور زندہ رہنے کے لیے اپنی بیوی بچوں اور خود اپنے آپ کو ہی بیچ ڈالیں یا اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں۔

جب کوئی ریاست لوگوں کو حقوق دیے بغیر اور لوگوں کو انسان مانے بغیر چلائی جارہی ہو تو وہ اس گاڑی کی مانند ہوجاتی ہے، جو فل اسپیڈ میں ڈرائیور کے بغیر دوڑی جارہی ہے جس کی نہ تو کوئی سمت ہو اور نہ منزل اور پوری دنیا دانتوں میں انگلیاں دبائے سکتے کے عالم میں سارا منظر دیکھ رہی ہو۔

ایسا ملک پاکستان کے علاوہ کوئی اور دوسرا ہو ہی نہیں سکتا ہے جہاں انسان ہونے اور رہنے کا حق صرف حکمرانوں، اشرافیہ، مذہبی رہنماؤں اور سیاسی رہنماؤں کو حاصل ہے اور باقی بیس کروڑ انسان صرف لوگ ہیں انسان نہیں تمام حقوق سے محروم، آزادی اور خوشحالی کے لیے ترستے ترقی اور کامیابی کے لیے تڑپتے بیس کروڑ لوگ ۔ سب سے پہلے ریاست کون سی تھی یہ تو نہیں بتایا جاسکتا، البتہ بڑی ریاستوں میں فرعون نے سب سے پہلے 3200 قبل مسیح میں مصر کی پوری سرزمین فتح کرلی تھی، اقتدار بڑے بڑے زمین داروں اور طبقہ امرا کے ہاتھ میں تھا، ایسی زمین پر جو بادشاہ اس کے درباریوں یا عبادت گاہوں کی ملکیت ہوتی عام لوگوں سے جبری محنت لی جاتی، اہرام بنوائے جاتے صرف ایک سب سے بڑے اہرام کی تعمیر میں بیس برس لگے جب کہ مصر کی پوری آبادی سے اس میں بیگار لی گئی تھی۔

انسانی حقوق کی پامالی میں ایک قدم اور اس وقت بڑھا جب 2500 قبل مسیح میں عکامہ کا حکمران سرگون اول تاریخ کا پہلا حکمران بنا، تاریخی طور پر قدیم معاشرے میں فوج اور مذہب ہی اس بات کا فیصلہ کرتے رہے ہیں کہ انسانی حقوق کیا ہونے چاہیں اور ہونے بھی چاہیں یا نہیں یا یہ کہ کس کو کتنے حقوق ملنے چاہیں۔ انسانی حقوق کے لیے تاریخ کی سب سے پہلی بڑی بغاوت ہمیں مصر میں نظر آتی ہے جب 18 ویں صدی قبل مسیح کے وسط میں کسانوں ، دستکاروں اور غلاموں کی ایک وسیع پیمانے کی بغاوت ہوئی ’’ پورا ملک اس لپیٹ میں آگیا۔

فرعون کو تاج و تخت سے دستبردار ہونا پڑا، مالدار زمیندار اپنے اپنے محل چھوڑ کر بھاگ گئے ، سابق بادشاہوں کی مومیائی ہوئی لاشوں کے زیورات لوٹ لیے گئے اور انھیں مقبروں سے نکال اور اہراموں سے کھود کر باہر پھینک دیاگیا ، غلے کے شاہی گوداموں پرا ور عبادت گاہوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ کھانے پینے اور قیمتی اشیا کے ذخیروں کو لوگوں میں تقسیم کردیاگیا محصول اورخراج کی تمام دستاویزات کو نیست ونابود کردیاگیا۔ ‘‘ برصغیر میں چھٹی صدی قبل مسیح جین مت اور بدھ مت کی تعلیمات پھیلیں ۔ جین مت کا مبلغ ’’مہاویر‘‘599 قبل مسیح پیدا ہوا، اس نے ایک دوسرے کو انسانی حقوق دینے کے لیے چار اصولوں کی تعلیم دی۔

(۱) کسی کواذیت نہ پہنچانا۔
(۲) چوری نہ کرنا۔
(۳) جھوٹ نہ بولنا۔
(۴) ملکیت نہ رکھنا ۔

جین مت بہت تیزی سے پھیلا، اس نے حقوق سے محروم انسانوں کو نجات کی راہ دکھائی ۔ جین مت کے فوراً بعد بدھ مت پھیلا ’’سدہارتھ ‘‘ جو آگے چل کر گوتم بدھ بنا ۔ 563 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور اس نے اپنی ساری زندگی ظلم سے نجات اور انسانی حق کی تبلیغ میں گذاری چین میں انسانی حقوق کے علمبردار کنفیوشس تاریخ میں بڑا عالم بن کر ابھرا ۔ قدیم یونان میں ہیرقلیطس پہلا جدلیاتی فلسفی تھا۔

اس نے لکھا ’’ہر چیز بہہ رہی ہے‘‘ آپ ایک دریا میں دوبار نہیں اتر سکتے‘‘ انسانی حقوق اور ریاست کے بارے میں تفصیل سے لکھنے والا پہلا فلسفی افلاطون تھا انسانی حقوق کا تصور باقاعدہ طور پر سب سے پہلا روم میں پروان چڑھا اور یہ ہی وہ پہلا مغربی معاشرہ تھا جہاں نجی ملکیت کے تصور کو سرکاری ملکیت کے مساوی کھڑا کیا گیا۔ رومی قانون دانوں کے لیے حقوق ، قانون اور انصاف لازم و ملزوم تھے۔ سولہویں صدی کے دو اہم شخصیات جنہوں نے بہتر انسانی زندگی کے لیے نہ صرف جدوجہد کی بلکہ قربانیاں بھی دیں وہ انگلستان کے سرٹامس مور اور اٹلی کے ٹوماسوکمپانیلا تھے دونوں نے ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوئے اور مختلف ممالک میں رہتے ہوئے تقریباً ایک جیسی کتابیں لکھیں، جن کا موضوع ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں انسانوں کونہ صرف زندہ رہنے بلکہ آزادی اور خوشحالی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل تھا ۔

انسانی حقوق کے بارے میں جان لاک کا خیال تھا کہ فطری قانون کے مطابق تمام انسان برابر ہیں اور تمام کو مساویانہ فطری حقوق حاصل ہیں جو تین ہیں:

(۱) زندگی کا حق۔
(۲) آزادی کا حق۔
(۳) اور ملکیت کا حق۔

اٹھارویں صدی میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا سب سے بڑا محاذ انقلاب فرانس بنا فرانس نے طبقاتی مراعات اور تقسیم کو ختم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’ انسان آزاد پیدا ہوتے اور آزاد زندہ رہتے ہیں جن کے حقوق مساوی ہیں۔‘‘ جرمن مفکر نیطشے کے مطابق تاریک دور کے کچھ عرصے بعد ہی دیوتاؤں کی موت واقع ہوگئی تھی ، پھر انسان خود دیوتا بن گیا اور آج پوری دنیا میں اسی دیوتا کی حکمرانی قائم ہے جو آزاد بھی ہے خوشحال بھی ہے بااختیار بھی ہے اور تمام انسانی حقوق کا مالک بھی ہے ۔

لیکن دوسری طرف ہماری بدقسمتی کہ جہاں دنیا بھر میں دیوتاؤں کی موت ہوگئی تھی، یہاں ہمارے ہاں چند ہزار نئے دیوتاؤں نے جنم لے لیا اب وہ چند ہزار دیوتا ہیں ۔ ان کی قربان گاہیں ہیں اور ہم بیس کروڑ پجاری ہیں ہم بیس کروڑ ان چند ہزار نئے دیوتاؤں کو زندہ رہنے کے لیے اپنی خو شیوں، آرزوؤں، تمناؤں، خوابوں کے ہدیے پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔

ہم اپنی آزادی ، خوشحالی، کامیابی، ترقی کی بھینٹ انھیں چڑھاتے رہتے ہیں نہ جانے ہمارے دیوتاؤں کی موت کب واقع ہوگی، نجانے ہماری قربان گاہیں کب فنا ہونگی۔ نجانے انسانی جسموں کی راکھ کے ڈھیر سے ایک نیا سورج کب طلوع ہوگا، کب غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی ،کب زبان کی بندشیں اٹھتی جائیں گی کب ان تاریک قیدخانوں سے نجات حاصل ہوگی۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جس دن ہم لوگ نہیں انسان ہوں گے با اختیار، خوشحال اور آزاد جس دن ہمیں انسان ہونے اور رہنے کا حق دے دیا جائے گا ، نجانے وہ دن کب آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔