پاکستان کی سالمیت اس کی معیشت میں ہے

جاوید قاضی  جمعـء 10 جون 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

مسلم لیگ ن کی حکومت کے کسی زمانے میں بھی افراط زر لگ بھگ تین فیصد کے نزدیک کبھی نہیں رہی کیونکہ یہ لبرل معیشت کی پیروکار ہے، یعنی ڈھیر سارے قرضے لو، نوٹ چھاپو اور جان بناؤ۔ ہماری اس افراط زر کی شرح میں تیل کی قیمتوں کا بین الاقوامی منڈی میں گر جانا اور انتہائی حد تک گر جانا یعنی 120 ڈالر فی بیرل سے 25 ڈالر فی بیرل تک آنا اور پھر پچاس و چالیس کی بینڈ پر رہنا یہ اس کا ثمر ہے۔ ورنہ بیرونی و اندرونی قرضے لینے میں اس حکومت نے پاکستان میں سب حکومتوں کے اس مرتبہ ریکارڈ توڑ چکے۔ ہمارا امپورٹ بل 49 ارب ڈالر سے 36 ارب ڈالر تک آجانا کسی معجزے سے کم نہیں اور سارا عمل اس وقت اپنا اثر کھو دیتا ہے جب ہماری ایکسپورٹ میں پندرہ سے بیس فیصد کمی آجاتی ہے۔

اور اگر تیل 120 ڈالر فی بیرل ہوتا، تو ہم بھی دیکھتے ہماری شرح نمو چار اعشاریہ سات فیصد کیسے ہوتی۔ یہاں تک کہ اس حکومت کی چھٹی بھی ہوجاتی یہ پانامہ لیکس کا بہانا لوگوں کو گلیوں میں کھینچ کے لے آتا۔ جب عمران خان ڈی چوک پہ کھڑے تھے یہ کسی حد تک مہنگائی کی گرمی تھی اور پھر تیل کی قیمتیں کیا گریں جیسے ان لوگوں پر برف گر پڑی۔

ساڑھے پانچ فیصد سود کی شرح کوئی چھوٹی بات نہیں۔ اس سے یقیناً شرح نمو کی رفتار کو ہوا ملنی چاہیے، مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ بینکوں کے 80 فیصد ڈپازٹ کا خریدار خود حکومت ہے۔ چلو یہ بھی مان لیں کہ ہم جیسے ملکوں میں ریاست ہی سیزپ کاری کرتی ہے انفرااسٹرکچر بناتی ہے۔ مگر ان تین سالوں میں جو بھی PSDP کی مد میں مختص کیا گیا یا یوں کہیے انفرااسٹرکچر و پرائیویٹ سیکٹر کے لیے رکھے گئے وہ ہر سال بیس و تیس فیصد کم کیے گئے اور اس طرح 800 ارب روپے ان تین سالوں میں بجٹ میں بیان کی ہوئی رقم سے کم ہوئے۔

ہمارے بینکوں کو کوئی پروا نہیں۔ جب نوٹ چھاپنے والا خود نوٹوں کا خریدار ہو تو ان کو کسی چیز کی پروا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال میں پرائیویٹ سیکٹر کو دیے گئے قرضوں کی شرح پچھلے سال سے بھی کم ہوئی۔ اس سود کی کم ترین شرح ہے ایک طرف قرضے لینے والوں کو فائدہ ہوگا مگر بچت کرکے جمع کرنے والوں کو حقیقی مدد کی شرح یعنی Real Interest Rate کے حساب سے صرف دو فیصد کے لگ بھگ منافع وغیرہ ملے گا۔ پندرہ سال بینک میں بھی نوکری کرنے کا تجربہ رکھتا ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ سود سے پاک کوئی بینکاری حقیقی معنوں میں ہوسکتی ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے پیسے کی ماہیت اور پرانے زمانے کے پیسے کی ماہیت میں کوئی بھی مماثلت نہیں۔ کوئی بات نہیں ہم اس خوش فہمی میں بھلے رہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کبھی کسی بینک نے آپ کے سود سے پاک اکاؤنٹ میں نقصان درج کیا ہے یا کبھی کم منافع کبھی زیادہ منافع۔

نہ بدلا اگر تو وہ ہمارا ٹیکس نظام ہے۔ لیکن پھر بھی بالآخر FBR تین ہزار ارب روپے جمع کرنے کا ہدف حاصل کرگئی ۔ یہ اور بات ہے کہ مقررہ ہدف نہ حاصل کرسکی۔لیکن جو ہمیں FBR نے دیے یا جو کسی اور جگہ سے آمدنی ہوئی وہ تو ہمارے اخراجات میں گئے باقی اگلے سال کے لیے ترقیاتی کاموں کا یا PSDP کا ہدف جوکہ 800 ارب روپے ہے وہ سارے کے سارے قرضوں سے ملے پیسوں سے ہوگا، پہلے سے ملے تو ترقیاتی کام بھی ہوں گے اور اگر نہ ملے تو ترقیاتی کام بھی نہ ہوں گے۔

سی پیک کے حوالے سے چین کی سرمایہ کاری کوئی آسان زائچہ نہیں۔ پنجاب میں جو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پروجیکٹ جس کا افتتاح خود چین کے صدر نے کیا تھا وہ بند ہوگیا۔ خود چین کی معیشت ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔ رواں مالی سال میں اس کی شرح نمو لگ بھگ صفر کے نزدیک ہوگی جوکہ چین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔ اس کے باوجود بھی یہ ساری تبدیلیاں سی پیک پر منفی اثر نہیں ڈالیں گی۔ مگر پھر بھی پھونک پھونک کے چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ چین کی تیل ڈیمانڈ کم ہوگی۔

پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقعہ ہے کہ چین اب اپنے مغرب کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔ اس سے پہلے وہ صرف مشرق تک محدود تھا۔ چین کے اندر معاشی بحران دیرپا نہیں۔ مگر اب چین ترقی یافتہ ملکوں کی طرح شرح نمو کے اعتبار سے بڑھے گا نہ کہ گیارہ یا سات فیصد کی بینڈ پر۔

ہمیں جو بات سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہماری معیشت پر اگر منفی اثر آیا تو ہماری پالیسی کی وجہ سے نہیں بلکہ بین الاقوامی تبدیلی کی وجہ سے، مثال کی طور پر تیل قیمتوں کا بین الاقوامی منڈی میں بہت ہی گرجانا۔ خود چائنا کا ہماری انفرااسٹرکچر میں سیزپ کاری کرنا۔

ہمارے خطے میں بہت ہی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے تجارتی اعتبار سے یہ خطہ دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں آتا ہے۔ ہماری معاشی ترقی میں شرح نمو کے نہ بڑھنے میں جو وجوہات ہیں اس میں ایک اعتبار سے ہماری فرسودہ گھسی پٹی سرد زمانوں کے معیار پر بنی خارجہ پالیسی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ ذرا غور سے دیکھیے چین کو ، وہ ہندوستان سے 100 ارب ڈالر کی تجارت بھی کرتا ہے مگر اس کے نیوکلیئر کلب میں داخل ہونے میں اعتراض بھی رکھتا ہے۔ کیا ہم ہندوستان کے ساتھ تجارت نہیں کرسکتے اور ساتھ ساتھ تنازعات بھی۔

پاکستان کے مستحکم ہونے میں اس ملک کا شرح نمو سات فیصد تک لانا ہوگا جو دہائیوں کے اعتبار سے اوسط نکال کر دیکھا جائے تو کبھی بھی نہیں رہا۔ ہندوستان سات فیصد کی اوسط سے گزشتہ بیس سالوں میں بڑھتا رہا ہے۔ ملکی سیکیورٹی میں جو تین چیزیں اہم ہیں جس سے ہماری ڈاکیومینٹڈ معیشت دگنی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے بجٹ کا حجم بھی دگنا ہوگا وہ ہیں ٹیکس کی وصولی کا مجموعی پیداوار کے کم ازکم پندرہ فیصد ہونا۔ یہ کسی بھی طرح بددیانتی ہوگی اگر اس بات کو نہ سراہا جائے کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال ایک فیصد اس ہدف میں اضافہ ہوا ہے جوکہ 9.5 فیصد تھا اور اب 10.5 فیصد ہے۔

دوسرا ہے بجلی کی پیداوار کا آیندہ پانچ سالوں میں کم ازکم یہ بیس ہزار میگاواٹ تک آجانا جوکہ اب صرف تیرہ سے چودہ ہزار ہے۔ اور ہمارا Fiscal Difict چار فیصد کے لگ بھگ رہنا۔ جوکہ اس سال بڑے سالوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر پاکستان کے تمام انڈیکیٹر اچھے ہوگئے ہیں سوائے ایکسپورٹ کے۔ اس کے لیے ہمیں ایران و ہندوستان سے تجارت کرنی پڑے گی اور دوسرے ممالک کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے جس ملک کے انسانی وسائل بہت ہنرمند ہوتے ہیں ان کی تجارت بھی اچھی ہوتی ہے ۔ اس لیے تجارت کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔