عوام دُشمن وفاقی بجٹ کو عوام دوست بجٹ کون کہے گا؟

رحمت علی رازی  ہفتہ 11 جون 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

ہمیشہ کی طرح امسال بھی غریب کُش بجٹ پیش کیا گیا جو محض اعدادوشمار کے ہیرپھیر اور حکومت کے ناقابلِ عمل جھوٹے وعدوں اور نئے ٹیکسوں کے گورکھ دھندہ کے سوا کچھ نہیں‘ چند روز ٹیلیویژن چینلز پر نام نہاد دانشوروں کے بحث ومباحثے گرم ہوئے‘ اخبارات میں نرم گرم خبریں اور سچے جھوٹے کالم چھپے اور پھر یہ مسئلہ بھی ایک نان ایشو بن کر نوآمدہ سنسنی کے شور میں دب کر غریب آدمی کے اصل مسائل پر مٹی ڈال کر رفع ہوگیا۔

یہ سالانہ میزانیہ تو برائے نام پیشکش اور رسمی کارروائی کا ایک نام ہے، درحقیقت اصل بجٹ تو سارا سال اوپر نیچے آتے ہی رہتے ہیں، کبھی ششماہی تو کبھی سہ ماہی، کبھی دو ماہی تو کبھی ماہانہ‘ اس کے باوجود ایک متوازی عوامی بجٹ ہر دس دن بعد پیش ہوتا ہے جو ذخیرہ اندوز اور گرانفروش مرتب کرتے ہیں۔

یہ مافیا خود ہی قیمتوں کا تعین کرتا ہے اور خود ہی طے کرتا ہے کہ کتنے دنوں بعد نئی قیمتیں متعارف کروانی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ صارفین آئے روز اشیائے خورودنوش اور دیگر بنیادی سہولیات کی چیزوں میں بتدریج گرانی دیکھ کر حواس باختہ ہوجاتے ہیں‘ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کو جو چیز آپ 10روپے میں خریدتے ہیں، صبح وہی چیز اسی دکاندار سے آپ کو 12روپے میں خریدنا پڑتی ہے اور دو دن یا ہفتہ بعد اس کی قیمت 15روپے ہو جاتی ہے جب کہ چھ ماہ بعد وہ چیز دوگنا مہنگی ہوجاتی ہے۔

بجٹ 2016-17 کو زرعی مع ترقیاتی (کسان کم ٹھیکیداری) بجٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس میں خواص کے لیے اس لیے بہت کچھ ہے کہ ترقیاتی کاموں کا براہِ راست فائدہ اشرافیہ ہی کو ہوتا ہے‘ دوسرے یہ کہ باالواسطہ ٹیکسوں کا مطلب بھی یہی ہے کہ یہ ٹیکس جابرطبقہ پر لاگو نہیں ہوںگے بلکہ ان کا 95فیصد اطلاق غریب اور متوسط آدمی پر ہوگا۔ عام آدمی کے حصہ کا بجٹ بھی حکومت نے سڑکوں، پُلوں، میٹروبسوں اور اورنج ٹرینوں کے کھاتے میں ڈال کر اور غریب پر بیشمار نئے ٹیکس لگا کر اس کا رہاسہا خون نچوڑنے کا بھی مکمل پلان تیار کرلیا ہے۔

اشرافیہ کے بعد اگر صحیح معنوں میں کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ ہے بیوروکریسی جس کے پاؤں پر مٹی چڑھا کر اس کی بنیادوں کو مزید مضبوط کیا گیا ہے۔ یہ افسرشاہ مافیا لوئر ڈویژن کلرک سے لے کر کمشنر اور سیکریٹری تک ڈیڑھ صدی سے سرکاری میزانیوں کی اصل بینیفیشری رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 43.94کھرب روپے (مجموعی حجم 48 کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے) کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے فاخرانہ انداز میں اسے ترقیاتی بجٹ قرار دیا۔

سرکاری بینچ اسے عوام دوست بجٹ بھی کہنے سے باز نہ آئے جب کہ حقیقتاً یہ ترقیاتی بجٹ کے ساتھ ساتھ کسان دوست بجٹ ہے جس میں دونوں لحاظ سے حکومت نے اپنا ہی بھلا سوچا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک روایتی بجٹ ہے جس میں امیر کو امیرترین اور غریب کو غریب تر بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، حسبِ دستور عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکی گئی ہے، اگر آپ اس بجٹ کو روایتی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام دشمن بجٹ قرار دیں توزیادہ موزوں ہوگا۔

وزیر خزانہ نے مشکل اقتصادی زبان میں اپنی کامیابیاں گنوائیں‘ انھوں نے مہنگائی اور خوراک کی قیمتیں کم نہ ہونے پر پوچھے گئے سوالات پر مشکل اور ثقیل اقتصادی زبان کا استعمال کرتے ہوئے بچ نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ مجموعی طور پر اسحاق ڈار کا یہ چوتھا ناکام بجٹ ہے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ موجودہ حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں پیش کیے جانے والے تین وفاقی بجٹوں میں تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے معاملے میں سرکاری ملازمین کو لالی پاپ دیا ہے۔

افراطِ زر کی شرح کی مناسبت سے دیکھا جائے تو حقیقی اُجرتوں اور پنشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ قرضوں کی واپسی، دفاع اور عوامی ضروریات سے بیگانہ ترقیاتی منصوبوں پر بجٹ کا تقریباً 80فیصد خرچے جانے کے بعد صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت روزبروز خراب ترین ہوتی جا رہی ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پینے کے صاف پانی اور جدید سیوریج کی سہولیات سے محروم ہے۔ محنت کش طبقے کے لیے رہائشی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔

وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ معاشی اعدادوشمار میں ہیراپھیری کرنے کے بادشاہ ہیں اور وہ وفاقی بجٹ کی تشکیل میں بھی اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ کبھی قرضوں کو آمدن کی مد میں دکھاتے ہیں تو کبھی سابقہ قرضوں کی واپسی کے لیے درکار رقم میں سود کی واپسی کے لیے مختص رقم کو شامل ہی نہیں کرتے۔ کبھی توانائی کے شعبے سے منسلک گردشی قرضوں کو قرضہ تصور ہی نہیں کیا جاتا تو کبھی فوجی بجٹ کو کم دکھانے کے لیے اس کا ایک بڑا حصہ سویلین اخراجات میں شامل کر دیا جاتا ہے۔

کبھی افراطِ زر کی شرح کو کم دکھانے کے لیے کنزیومر پرائس انڈیکس بنڈل میں مرضی کے مطابق ردوبدل کر دیا جاتا ہے تو کبھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو بھی متعلقہ شعبے کے ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تمام شعبدہ بازی کے علاوہ پورا سال منی بجٹ آنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور وفاقی بجٹ کے بعد بھی ہر سال حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔اس سال بھی حکومت ٹیکس نیٹ میں وسعت پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

اگر ایک دکان مقروض ہوتو اسکو چلانا مشکل ہوتا ہے اور اگر ملک مقروض ہوتو وہ کیسے چلے گا۔ مال روڈ کا وہی حال ہے جو اس وقت حکومت کا ہے۔ مال روڈ کو دھرنوں نے گھیر رکھا ہے جس سے کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے‘ اگر انتظامیہ دھرنوں کو روک نہیں سکتی تو کاروبار کیسے کنٹرول ہوسکتا ہے۔ بجٹ ایک مسلسل گھاٹے میں چلنے والی دکان کے اعدادوشمار ہیں۔ 12776 ارب روپے کا خسارہ ہے‘ اس صورتحال میں یقینا منی بجٹ آئیگا‘ مزید قرضہ بھی لیا جائے گا۔ پاکستان جیسے ملک کا بجٹ بنایا نہیں جاسکتا بلکہ بنا ہوتا ہے۔

3600 ارب روپے کے ٹیکس میں سے 2172 روپے اِن ڈائریکٹ ٹیکس سے وصول کیے جاتے ہیں جس میں وِدہولڈنگ ٹیکس 60 سے 70فیصد ہے، اگر وِدہولڈنگ ٹیکس کم ہوجائے تو ملک چل نہیں پائیگا۔ وزیرخزانہ نے بجٹ میں اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت پہلے تین سال ساختی تبدیلیوں سے ملکی معیشت کو مستحکم کریگی اور آخری دو برسوں میں شرح نمو پر توجہ دیگی۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر وزیرخزانہ ملک میں امن وامان کی بہتر صورتحال اور توانائی کی مطلوبہ سپلائی پاک چین اقتصادی راہداری کے سرمایہ کاری کے منصوبوں کے مدِنظر پاکستان میں ایکسپورٹ کے ذریعے گروتھ حاصل کرنے کا پلان ترتیب دیتے جس سے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوتے اور بیروزگاری میں بھی کمی آتی۔

حالیہ بجٹ میں نقصان میں چل رہے اداروں (اسٹیل مل، پی آئی اے اور بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں، جن کے لیے ہر سال غریب عوام کے ٹیکسوں سے 500 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے) کی نجکاری کے بارے میں ذکر تک نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے بجٹ میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے 800 ملین ڈالر کے بقایاجات کا معاملہ توگول ہی کردیا۔ بجٹ دستاویزات 2016-17 کا وضاحتی میمورنڈم دبئی کی کمپنی اتصالات کے پاکستان کے 800 ملین ڈالر کے قرض دار ہونے پر مکمل طور پر خاموش ہے حالانکہ اتصالات، پی ٹی سی ایل کے صرف 26فیصد حصص کی مالک ہے۔

حکومت کی طرف سے نئے مالی سال کے لیے نجکاری پروگرام سے حاصل ہونے والی رقم 50ارب روپے ظاہر کی گئی ہے جب کہ موجودہ کرنسی ایکسچینج ریٹ پر پی ٹی سی ایل کے بقایا جات کی رقم 84ارب روپے بنتی ہے‘ یہ رقم پہلی مرتبہ گزشتہ بجٹ میں بھی شامل نہیں کی گئی تھی۔ وزارتِ خزانہ نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ یہ رقم بجٹ سے کیوں نکالی گئی۔ اتصالات نے پی ٹی سی ایل کے 26فیصد حصص مینجمنٹ کنٹرول کے ساتھ جولائی 2005 میں 2.6ارب ڈالر میں خریدے تھے۔

اس معاہدے سے آگاہ افراد کے مطابق اس وقت کے پرائیویٹائزیشن کمیشن نے پی ٹی سی ایل کی ملک بھر میں 3215 جائیدادیں اتصالات کے نام ٹرانسفر کرنے کی حامی بھرکر غلطی کی تھی اور یہی غلطی اب ہر حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ اتصالات کمپنی کا موقف ہے کہ حکومتِ پاکستان نے سیل پرچیز ایگریمنٹ کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے تمام جائیدادیں اسے منتقل نہیں کیں جب کہ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی سی ایل کی ملکیت3215 جائیدادیں پہلے ہی اتصالات کے نام ٹرانسفر کی جاچکی ہیں‘ اور ٹرانسفر نہ کی جانیوالی 34 جائیدادوں کی مالیت 92.4 ملین ڈالر ہے۔

اب اتصالات ان 92.4 ملین ڈالرز میں 24ملین ڈالر (جو اتصالات کے پی ٹی سی ایل میں 26شیئرز کے برابر ہے) ایڈجسٹ کرکے باقی رقم پاکستان کو دیدے‘ اتصالات نے اپنے تخمینے پاکستان کو نہیں بتائے تھے تاہم اطلاعات کے مطابق یہ 450ملین ڈالر تھے۔ اتصالات نے اپنا تخمینہ ایچ ایس بی سی بینک لندن کو پیش کیا تھا۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی سی ایل کے بقایاجات کا معاملہ بجٹ سے نکال دینے سے یہ کیس مزید کمزور ہوگا۔

وزیر خزانہ نے ستمبر 2013 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اس رقم کے حوالے سے اتصالات سے بات کرنے کا عندیہ بھی دیا تھامگر اب حکومت کی طرف سے 800ملین ڈالر کے بقایاجات کا معاملہ بجٹ سے گول کرنا پی ٹی سی ایل کی 3215 جائیدادوں کی اتصالات کو منتقلی پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

ایک اور خسارے کی بات یہ ہے کہ برآمدکنندگان کے 230 ارب روپے کے انکم و سیلزٹیکس ریفنڈ 31 اگست 2016 تک کرنے کا وعدہ کیا گیا لیکن حیرت کا اَمر یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی حالانکہ وزارتِ خزانہ حسبِ سابق آئی ایم ایف کو بجٹ کے مالی خسارے میں کمی دکھانے کے لیے 300 ارب روپے ایکسپورٹر کے ریفنڈ ریونیو کی وصولی کی مد میں دکھاتی رہی ہے لیکن حالیہ بجٹ کے اعداد کے گورکھ دھندے نے ایکسپورٹر کی مالی استطاعت کو بری طرح متاثر کرتے ہوئے ملکی ایکسپورٹ 25ارب ڈالر سے کم کرکے 20ارب ڈالر کر دیا ہے جب کہ مجموعی عالمی مشکلات کے باوجود ہمارے حریفوں کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔

پلاسٹک کی صنعت میں فِنش گڈز کے مقابلے میں خام مال پر زیادہ کسٹم ڈیوٹی لاگو ہے‘ بعینہٖ تاجروں نے ملک میں سرمایہ کاری اور نئی صنعتوں کے قیام کے لیے نئی مشینوں کی امپورٹ پر سیلزٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز دی تھی لیکن حکومت نے مشینوں کی امپورٹ پر 3فیصد کسٹم ڈیوٹی برقرار رکھی ہے۔ رینٹل انکم پر ٹیکس میں 5فیصد مزید اضافہ کرکے 20فیصد کردیا گیا ہے حالانکہ اسی ضمن میں سندھ ریونیو اتھارٹی بھی 6فیصد صوبائی ٹیکس وصول کرتی ہے‘ اس طرح تو رینٹل انکم پر گزارہ کرنیوالوں سے ان کے کرایوں کا 26فیصد وصول کرنا انہیں ٹیکس چوری کی ترغیب دے گا۔

وفاقی حکومت کو رینٹل انکم ٹیکس کو 15فیصد کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں مگر انھوں نے کسی کی ایک نہیں سنی۔ آف شور کمپنیوں، بیرونِ ملک اثاثوں اور اکاؤنٹس تک رسائی کے بِل کے لیے بجٹ میں ٹیکس قوانین میں ترمیم کی تجویز پیش تو کی گئی ہے لیکن آنیوالا وقت بتائے گا کہ اس میں کتنی صداقت برتی جاتی ہے۔

حکومت وِدہولڈنگ ٹیکس اور دیگر بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل کرنا چاہتی ہے جو ٹیکس وصولی کا ایک ناکام اور فرسودہ طریقہ کار ہے‘ موثر اور کامیاب نظام (جو دُنیا میں کامیاب ہے) صرف اور صرف ڈائریکٹ ٹیکسز کا ہے مگر حکومت اشرافیہ کو بچانے کے لیے ایسا کبھی نہیں کریگی اور ٹیکسوں کا سارا بوجھ اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے متوسط اور غریب طبقہ پر ہی ڈالا جاتا رہیگا۔ نئے بجٹ میں 150 ارب کے لگائے جانے والے نئے ٹیکسوں کا ہدف بھی درمیانہ اور نچلا طبقہ ہی ہے۔

ہمارے ہاں بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح اس لیے زیادہ ہے کہ ٹیکس نظام میں نااہلی اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ پاکستان کے ریونیو کا80فیصد ان ہی بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے جو بنیادی سہولیات سے محروم طبقے کی جیبیں کاٹ کر پورا کیا جاتا ہے۔ غریب طبقہ اپنی آمدنی کا 16فیصد سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے جب کہ مراعات یافتہ 10فیصد سے بھی کم ٹیکس دیتا ہے، اس میں بھی ٹیکس چوری روایتی سی چیز ہے۔ نئے بجٹ میں دلچسپی کا اور کوئی پہلو نہیں‘ اگر کوئی ہے تو صرف اتنا کہ ریلیف دینے کے بجائے عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ اور کتنا زیادہ لادا جارہا ہے۔

معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے ہمیں پچاسوں ٹیکسز ادا کرنا پڑتے ہیں: انکم ٹیکس، جنرل سیلزٹیکس، کیپیٹل ویلیو ٹیکس، ویلیوایڈڈ ٹیکس، سینٹرل سیلز ٹیکس، سروس ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، پٹرول لیوی، ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، آکٹرول ٹیکس، ٹی ڈی ایس ٹیکس، ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، گورنمنٹ سٹامپ ڈیوٹی، آبیانہ ٹیکس، عشر، زکوٰۃ کٹوتی بذریعہ بینک، ڈھال ٹیکس، لوکل سیس ٹیکس، پی ٹی وی لائیز، پارکنگ فیس بلدیہ، کیپیٹل گین ٹیکس، واٹر ٹیکس، فلڈ ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، ٹال ٹیکس، روڈ ٹیکس، سکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس، ایجوکیشن سیس، ویلتھ ٹیکس، ٹرانس رینٹ آکو پنسی ٹیکس، کانجیشن لیوی (لازمی)، سپرٹیکس، وِدہولڈنگ ٹیکس، ایجوکیشن فیس پر 5فیصد ٹیکس، ایس ای سی پی لیوی، جہلم سرچارج وغیرہ، ان کے علاوہ اسکولوں کی بھاری فیسیں، ڈونیشن، مسجدوں کے چندے، چوکوں چوراہوں پر بھکاریوں کے بھتے وغیرہ بھی ان ہی ٹیکسوں کا ایک حصہ ہیں۔

ہمیں قطعی یقین نہیں کہ جس طرح زرعی شعبہ پر ایک چوتھائی بجٹ نچھاور کیا گیا ہے، اس سے کوئی فائدہ ہوگا‘ بدقسمتی سے معاشیات کے حوالے سے حکومتوں کا زاویۂ نگاہ طویل المدتی نہیں ہوتا جب کہ حالات بدلنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسیوں کا ہونا بہت اہم ہے۔ بجٹ میں زراعت کی منفی گروتھ کو درست کرنے کے لیے بظاہر اقدامات کیے گئے ہیں جن میں اِن پٹ کو سبسڈائز کرنا سرفہرست ہے، حقیقتاً ان مراعات کا فائدہ چھوٹے کاشتکاروں کی بجائے بڑے زمینداروں کو زیادہ ہوگا۔

بجٹ بنانے والوں کی سوچ اور مفروضہ دونوں ہی غلط ہیں، جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان سے زرعی گروتھ بڑھنے کے امکانات ہی نہیں ہیں۔ ہمیں ڈیمز کی تعمیر کے علاوہ دریاؤں کے کناروں پر سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بڑی بڑی جھیلیں بنانی پڑیں گی تاکہ مشکل وقت میں کاشتکار انہیں استعمال کرسکیں۔ بجٹ میں گرمی برداشت کرنیوالے بیجوں کی پیداوار کے لیے کوئی فنڈز نہیں رکھے گئے لہٰذا اِن پٹ میں جتنی سبسڈی دی جائے اس کا اتنا زیادہ فائدہ نہیں ہوسکے گا کیونکہ ہماری اجناس کی پیداوار میں 10فیصد کمی کی صورت میں ہم قحط کا شکار ہوسکتے ہیں۔

بجٹ میں زراعت کے ساتھ کھیل کھیلا گیا ہے‘ کھاد پر سبسڈی سے امیر مزید امیر ہو گا۔ پاکستان دُنیا بھر میں صحت اور تعلیم پر سب سے کم ترین اخراجات کرنیوالے ممالک میں شامل ہے، ہم جی ڈی پی کا  0.91 فیصد اس پر خرچ کر رہے ہیں جب کہ ہماری 65فیصد آبادی غریب اور 73فیصد آبادی بیمار ہے، 85فیصد بیماریاں گندے پانی کیوجہ سے ہیں۔ بجٹ قومی وژن اور آئیڈیا سے خالی ہے اور محض اکاؤنٹنگ مینجمنٹ کی گئی ہے جب کہ مہذب معاشروں میں بجٹ پسماندہ طبقات کی فلاح اور مستقبل کی نسلوں کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

پاکستان ایک غیرمستحکم ڈیٹ رِسک بن چکا ہے، ریونیو جنریشن اپنے اہداف سے کم ہوئی اور حکومت نے ٹیکس اصلاحات کرنے کی بجائے اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کا سہارا لیا ہے جن سے غربت اور معاشی ناہمواری میں مزید اضافہ ہوگا‘ ٹیکس بڑھانے کے حکومتی اقدامات کیوجہ سے لوگ ڈاکومنٹیشن کی طرف مائل نہیں ہورہے ہیں۔ بجٹ میں جس زرعی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے اس کا فائدہ غریبوں کی بجائے امیروں کو ہوگا‘ حقائق کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔

حکومت کی آمدنی اور اخراجات میں خطرناک حد تک شارٹ فال موجود ہے لیکن حکومت کا دھیان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بجائے اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے جس سے غریب آدمی پر بوجھ بڑھے گا، حکومت نے اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے امیروں کو نوازنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے پچھلے سال اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے وِدہولڈنگ ٹیکس اور ٹرانزیکشن ٹیکس عائد کیا تھا لیکن یہ تجربہ بھی ناکام رہا‘ اب حکومت اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے اس خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کریگی۔ حکومتیں ہیلتھ اور ایجوکیشن پر سمجھوتہ کرکے فنڈز کا استعمال کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی آئی ہے‘ ہیلتھ اور ایجوکیشن ایسے سیکٹر ہیں جن پر بجٹ کا زیادہ حصہ مختص کرنے سے پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

بجٹ میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھا گیا ہے حالانکہ یہ عمل حکومتی منشور کو آگے بڑھانے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ جو ملک اپنی آمدنی کا 40فیصد، قرضہ جات کی واپسی پر خرچ کریگا، وہ کیسے معاشی طور پر خودمختار ہوسکتا ہے۔ بجٹ میں 90فیصد بالواسطہ ٹیکس عائد کیے گئے جب کہ ہمیں براہِ راست ٹیکس بڑھانے چاہئیں۔ سستی بجلی کے لیے نئے ڈیم بنانا بہت ضروری ہے وگرنہ ہم عالمی سطح پر مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ حکومت کے 3سال گزرنے کے باوجود ابھی تک لیبرپالیسی دی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے قومی سطح پر اجلاس بلایا گیا ہے۔

حالیہ بجٹ کی ترجیحات بھی ہمیشہ کی طرح بالادست طبقات اور اشرافیہ کے لیے ہی ہیں۔ موجودہ نظام میں برسر اقتدار آنیوالی کسی حکومت سے کچھ اور اُمید کی بھی نہیں جا سکتی۔ 1.45 ٹریلین روپے براہِ راست سامراجی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکاروں کو سود کی ادائیگیوں کی مد میں چلے جائیں گے۔ ان قرضوں میں بجلی کے شعبے کے ’گردشی قرضے‘ ابھی شامل نہیں ہیں اور یہ گردشی قرضہ 300 ارب روپے کے آس پاس منڈلا رہا ہے۔

860 ارب سے 1000 ارب روپے ’’دفاع‘‘ کے لیے مختص ہیں لیکن واضح رہے کہ ان فوجی اخراجات میں ریٹائرڈ فوجی ملازمین کی پنشن، ایٹمی پروگرام، خفیہ اداروں کی سرگرمیوں اور آپریشنوں کے وسیع تر اخراجات شامل نہیں ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں بنیادی انفراسٹرکچر مسلسل گل سڑ رہا ہے، ترقیاتی بجٹ کی رقم ٹھیکیداروں اور سرمایہ داروں کو نذر کرنے کے لیے ہی رکھی جاتی ہے۔ یہ ترقیاتی منصوبے نمائشی نوعیت کے ہی ہوتے ہیں۔

بجٹ کے باقی اخراجات داخلی ریاستی اخراجات، حکومتوں کے خرچوں اور دوسرے ایسے شعبوں میں صرف ہوتے ہیں جن کا ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ پیسہ براہِ راست استحصالی طبقات کے مفادات اور حکمرانو ں کے نمائشی اور پیداگیری کے منصوبوں پر صرف کیا جاتا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی لوٹ مار اور حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کے بعد عوام کے لیے بجٹ صرف پیچیدہ اصطلاحات، لفظوں اور اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہی رہ جاتا ہے۔

وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے صرف 20ارب اور تعلیم کے لیے 71ارب روپے مختص کیے گئے اور باقی ملبہ صوبائی بجٹوں پر ڈال دیا گیا ہے‘ ایسی صورتحال میں پاکستان کا جنوبی ایشیاء میں شرحِ خواندگی میں سب سے پیچھے رہ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ پے دَرپے آنیوالی کئی حکومتوں نے ہمیشہ ٹیکس چوروں اور قومی دولت لوٹنے والوں کی دِلجوئی کی ہے۔

کالے دھن کی موجودگی کو قابل گرفت کبھی سمجھا ہی نہیں گیا‘ اس کی بجائے انتہائی امیر اور بااثر افراد ، عوامی عہدیداروں، سول وملٹری بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سہولیات دینے کے لیے اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں کہ ٹیکس اد اکرنیوالے عام آدمی کے حصے کچھ نہیں آتا۔ اس وقت پاکستان کے سامنے انتہائی اہم مسئلہ ہر سال 15لاکھ سے زائد نوجوانوں کو ملازمت کی فراہمی ہے‘ اس کے لیے معیشت کو 8 سے 10فیصد سالانہ ترقی کی ضرورت ہے‘ اور ضروری ہے کہ طویل عرصے تک یہ شرح برقرار رہے۔

یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے جی ڈی پی کے 20فیصد تک کی سرمایہ کاری درکار ہے‘ یہ چیلنج ہماری معاشی ترقی کے لیے ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کوڈ کے مشکل اور تکلیف دہ عمل کو تبدیل کیا جائے۔ اس ضمن میں کم ٹیکس ریٹ ایک اہم کوشش ہو گی تاہم اصل مسئلہ قوت ارادی کی کمی ہے۔ بہتر محصولات کے لیے ایک ریونیو ایجنسی قائم کرنے کی ضرورت ہے جس پر شہر یوں کا اعتماد ہو‘ اگر حاصل کردہ رقم کو شہریوں پر خرچ کیا جائے تو ان کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار میں پیش کیے جانے والے چاروں وفاقی بجٹوں میں تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے معاملے میں سرکاری ملازمین کو لالی پاپ دیا ہے۔

افراطِ زر کی شرح کی مناسبت سے دیکھا جائے تو حقیقی اُجرتوں اور پنشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وفاقی بجٹ 2016-17ء کے حوالے سے خوش کن حکومتی وعدوں کے برعکس سرکاری ملازمین کو ایک بار پھر دھوکہ دیا گیا اور تنخواہوں وپنشن میں مہنگائی کی شرح کے حساب سے اضافہ کے بجائے صرف 10فیصد اضافہ اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ بجٹ میں سب سے زیادہ ظلم محنت کش طبقہ کے ساتھ روا رکھا گیا ہے‘ گزشتہ برس جب اُجرت کار کی کم ازکم تنخواہ 13ہزار روپے رکھی گئی تھی، تب بھی ہم نے صدائے احتجاج بلند کی تھی‘ اس بار تو ہم یہ سن کر گنگ سے ہوگئے کہ مزدور کی تنخواہ میں فقط ایک ہزار روپے کا اضافہ کرکے اسے 14ہزار روپے کردیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ ہمیں بتائیں کہ 14ہزار روپے سے تو اکیلے فرد کا مہینہ نہیں گزر سکتا‘ وہ اس چٹکی بھر آمدنی سے اپنے بچے کیسے پالے گا اور انہیں اسکول کیسے بھیجے گا؟ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کے اعلان کے باوجود گھریلو اور دفتری ملازمین کو کوئی 13ہزار بھی ادا نہیں کرتا‘ اس پر حکومت کو سختی سے نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ منصفانہ طور پر ایک محنت کش آدمی کی کم ازکم ماہانہ اُجرت 30ہزار روپے ہونی چاہیے تاکہ وہ تھوڑا سا ریلیف محسوس کرے ورنہ اسکے بچے چائلڈلیبر کا شکار ہوں گے یا پھر غلط ہاتھوں میں چلے جائیںگے اور پھر یہ یقینی ہوگا کہ ملک کا امن و امان برباد اور معیشت کو تباہ کرنے کے لیے وہ اپنا بجٹ بنا رہے ہوں گے۔

اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار طبقے کی نمایندہ حکومت کے پاس محنت کش طبقے کو دینے کے لیے سوائے ڈھکو سلوں اور جھوٹے وعدوں کے اور کچھ بھی نہیں۔ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ عوام ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے انہیں ووٹ دیتے ہیں، سو انھوں نے بجٹ کا زیادہ تر حصہ ترقیاتی منصوبوں کی نذر کردیا‘ انہیں یہ بھی باور ہے کہ دیہاتی ووٹ بینک پر چھوٹے بڑے زمینداروں کا قبضہ ہے اور اگر اس بااثر طبقہ کو قابو کرلیا جائے تو دیہی ووٹ ان کی جھولی میں آجائیں گے‘ یہی سوچ کر نون لیگ نے اس بجٹ میں سارا کچھ زمینداروں اور جاگیرداروں پر لٹا دیا ہے۔

یہ کیا کم تھا کہ حکومتِ پنجاب نے بھی نئے مالی سال کے بجٹ میں کسانوں کے لیے 100 ارب روپے کا پیکیج رکھنے کا اعلان کیا ہے‘ علاوہ ازیں 10ہزار ٹریکٹروں کی فراہمی کی اسکیم بھی سبسڈی پر بحال کی جائے گی جو گزشتہ بجٹ میں کسانوں کے لیے 20ارب روپے کے پیکیج اور بلاسود قرضوں کا حصہ تھی‘ اب کی بار بھی بلاسود قرضے، جدیدطرز کے زرعی آلات اور بیجوں کی مفت فراہمی کے ساتھ ساتھ موسم کی صورتحال سے آگاہ رہنے کے لیے کسانوں میں اسمارٹ فون بھی تقسیم کیے جائیںگے۔

یہ تمام لُوٹ سیل آیندہ انتخابات جیتنے کے لیے کی جارہی ہے اور الیکشن جیتنے کی یہ قیمت غریب عوام کے خون پسینے سے اکٹھے کیے گئے وفاقی اور صوبائی میزانیوں سے پوری کی جائے گی۔ حکمرانوں کو یقینِ واثق ہے کہ وہ پانچواں بجٹ پیش نہیں کر پائینگے اور ان کی میعاد چار سال سے زیادہ نہیں چل پائے گی چنانچہ اسی بجٹ کو اپنا آخری بجٹ تصور کرتے ہوئے انھوں نے اسے انتخابی پیش بندی کے طور استعمال کیا ہے جو ملک وقوم کے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔