کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

رئیس فاطمہ  ہفتہ 11 جون 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہر سال کی طرح غیر مسلم ممالک میں ’’رمضان المبارک‘‘ کے بینر آویزاں کردیے گئے اور خوردنی اشیا کی قیمتیں کم کردی گئیں۔کئی مسلم ممالک میں بھی ایسا ہی کیا گیا، سعودی عرب کا توکہنا ہی کیا ؟ وہاں جس افراط اور خوش دلی سے روزہ کھلوایا جاتا ہے وہ سبھی کو معلوم ہے۔کینیڈا، امریکا، آئرلینڈ،آسٹریلیا اور دیگر غیر مسلم ممالک کے علاوہ انڈیا میں بھی دکاندار روزوں میں اپنے مسلم بھائیوں کے لیے ضروری اشیا، سستی کردیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں کہیں شامل نہیں ہے۔

یہاں رمضان سے پہلے ہی حکومت کی چشم پوشی اور سرکاری اہل کاروں کی ملی بھگت سے ہر اس شے کی قیمت بڑھادی جاتی ہے، جس کا تعلق روز مرہ کی کھانے پینے کی اشیا سے ہے۔کیونکہ یہ منافع کمانے کا مہینہ ہے۔اس میں دو طرح کے لوگ شامل ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق تاجر برادری سے ہے۔ ان میں ہول سیلر اور ریٹیلرز دونوں شامل ہیں۔ دودھ، دہی، بیسن حتیٰ کہ کھجورکی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ کردیا گیا۔کہتے ہیں کہ اس مبارک مہینے میں شیطان کو قیدکردیا جاتا ہے۔ تو پھر پاکستان میں یہ کون ہیں جو اسی مبارک مہینے میں لوٹ کھسوٹ، چور بازاری، ناجائز منافع خوری اور ہر ممکن طریقے سے عوام کی رگوں میں سے خون نچوڑ کر اپنی تجوریاں بھرنے میں ماہر ہیں؟

خیر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں کہ تمام اخبارات اور میڈیا رمضان المبارک کی خیر اور برکتوں والے مضامین اورٹاک شوز سے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں حکومت نام کی چڑیا کبھی کسی نے نہیں دیکھی، نہ اس اڑتی چڑیا کے پرگننے کی کسی نے جسارت کی۔ البتہ یہ اڑتی چڑیاں بھاری بھرکم بوٹوں کی دھمک کو اسی طرح محسوس کرلیتی ہیں جیسے طوفان کی آمد کو جانور محسوس کرکے وہ جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔  پرندے اور حشرات الارض بھی فوراً بلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔

اسی طرح حکومت کرنے والے چڑے چڑیاں بھی کہیں اور پرواز کرجاتے ہیں کہ بیرون ملک ان کے لیے بہت سے محفوظ ٹھکانے ہیں، ان ٹھکانوں میں محلات، شاطو اور قیمتی لگژری فلیٹ کے علاوہ بڑے بڑے اسپتال ہمہ وقت ان کی آمد کے منتظر رہتے ہیں جہاں سیون اسٹار ہوٹلوں والی سہولیات انھیں میسر ہوتی ہیں۔ اس لیے ان سے توقع کرنا کہ یہ مہنگائی  روکیں گے، رمضان اور عید پر قیمتیں کم کروائیں گے، محض خوش فہمی اور جی کو جلانے والی باتیں ہیں۔ البتہ انفرادی اور نجی طور پر جو ادارے زکوٰۃ، خیرات وغیرہ کے ذریعے مستحقین کا روزہ کھلواتے ہیں عام دنوں میں ہر کسی کے لیے سڑکوں اور شاہراہوں پر ان کے دسترخوان لگے ہیں اس کا اجر انھیں واقعی ملے گا۔

لیکن میں ان لوگوں کے لیے زیادہ فکرمند رہتی ہوں جو نہ کسی سے مانگ سکتے ہیں، نہ زکوٰۃ خیرات اور صدقے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ میرے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’پہلے اپنے آس پاس دیکھو‘‘ اول خویش بعد ازدرویش کی بات بھی سب جانتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ عام دنوں میں بھی اور رمضان کے ماہ مبارک میں بھی ہمیں ان سفید پوش ضرورت مندوں کو ڈھونڈنا چاہیے، جو ہیں تو ہمارے آس پاس لیکن نگاہوں سے اوجھل ہیں، میری گورنمنٹ کالج فار ویمن کی ایک ساتھی گزشتہ سال سے زکوٰۃ کی رقم کسی سفید پوش مستحق تک پہنچانے کے لیے مجھ سے رابطہ کرتی ہیں۔

اس سال بھی وہ ایک معقول رقم ایک خاندان کے لیے مجھے دے گئی ہیں۔ وہ رقم مستحق خاندان کو دے کر میں انھیں فون کروا دیتی ہوں۔ اسی طرح میری ایک قریبی عزیزہ جو کینیڈا میں مقیم ہیں لیکن اس رمضان میں وہ کراچی میں ہیں۔ انھوں نے بھی ایک معقول رقم میرے پاس رکھوائی ہے۔ جو ہم اس غریب خاندان کو دیں گے، جو حالات، غربت، مہنگائی اور بیماری کے ستائے ہوئے ہیں۔ خدا کرے کچھ اور ساتھی بھی اس نیک کام میں ہمارے شریک ہوجائیں۔

لیکن آج میں براہ راست ان لوگوں سے درخواست کرتی ہوں جو منافع خوروں اور دکھاوے کی عبادت سے کوسوں دور ہیں ۔ جو اپنے رب کو راضی کرنے اور اپنی قبروں کو روشن کرنے کے لیے، عذاب قبر سے بچنے کے لیے خاموشی سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور خود اپنی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔ گزشتہ سال میں نے ایک کالم میں ’’اندھیروں کی باسی نور جہاں‘‘ کے عنوان سے ایک 72 سالہ بیوہ خاتون کی مدد کی درخواست کی تھی۔ جن کا پتّا نکال دیا گیا تھا، جگر کا آپریشن بھی ہوچکا ہے۔ اور یہ کینسر کی مریضہ بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ کسی جگہ کوئی ملازمت چاہتی تھیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ میرے کالم کے جواب میں بہت سے لوگوں نے ان کی مالی مدد کی۔ ایک صاحب اب بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ نور جہاں (بانو اماں) کا کینسر کا علاج چل رہا ہے ان کی حالت خاصی تشویشناک ہے۔

فی الحال ایک گورنمنٹ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ خدا کرے انھیں کرن اسپتال جو یونیورسٹی روڈ پر ہے وہ جگہ دے دے کیونکہ خاتون پہلے بھی وہاں سے علاج کرواچکی ہیں۔ فی الحال مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے ان کی مزید کیمو تھراپی کروانے سے منع کردیا ہے۔ گھر والوں کو بتادیا ہے کہ اس کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ پھر اخراجات ڈیڑھ لاکھ سے زائد آئیں گے وہ کہاں سے مہیا ہوں گے؟ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ان کے موشن نہیں رُک رہے ہیں۔ مسلسل ڈرپس لگوائی جا رہی ہیں جس کے اخراجات انھی کو اٹھانے ہیں۔ میری آپ سب سے اپیل ہے کہ نور جہاں اماں کے جو دن باقی ہیں جتنی سانسیں بچی ہیں ان میں دوائیں اور ڈرپس ازحد ضروری ہیں۔ بچی کچھی سانسوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنی زکوٰۃ، فطرہ، صدقہ، خیرات جو بھی ہو۔ خواہ پچاس روپے ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ اس اکاؤنٹ میں جمع کروا دیجیے۔

Act No: 02012469655
Branch Code: 0039
Soneri Bank, Gol Market, Nazimabad, Karachi

اگر مزید معلومات درکار ہوں تو اس موبائل نمبر پر بات کر لیجیے۔0331-2398413

آپ لوگوں کی مدد سے نور جہاں اماں کی دوائیں خریدی جاسکیں گی تاکہ وہ کم ازکم جسمانی تکلیف سے بچ سکیں۔ مجھے امید ہے اس بار بھی میرے قارئین مجھے مایوس نہیں کریں گے۔

آیندہ کالم میں ایک اور مستحق خاندان کا ذکر کروں گی جو بڑی مشکل سے اپنا موبائل نمبر دینے پہ راضی ہوا ہے۔ انھیں بھی ہم نے کسی کی مدد سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ غیرت مند اور خاندانی آدمی کا المیہ یہ ہے کہ وہ چاہنے کے باوجود کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرسکتا۔ یوں سمجھ لیجیے ایک کرم فرما کی مہربانی سے ان کا پتا چلا۔ کرائے کا مکان ہے، مستقل ملازمت کوئی نہیں، کیبن لگانا چاہا تو سرمایہ نہیں، بڑے بڑے اسٹور اور دکانوں کو مختلف کمپنیاں کریڈٹ پہ مال دیتی ہیں لیکن ایک غریب کریانہ فروش کو بھلا کون کریڈٹ پہ مال دے گا؟

انشا اللہ اگلے کالم میں تفصیل دوں گی۔ باقی معلومات مدد کرنے والے خود حاصل کرلیں گے۔ یہ واضح کردوں کہ متذکرہ خاندان کو میں ذاتی طور پر بھی اچھی طرح جانتی ہوں، لیکن اندرونی حالات کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے اب تک موبائل فون کی SIM نہیں خریدی ہے۔ دو چار دن میں آجائے گی۔ اس وقت تک نور جہاں اماں کی مدد کیجیے۔جزاک اللہ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔