مرض خطرناک حد کو چھونے سے قبل علامات ظاہر نہیں ہوتیں

ڈاکٹر احمد نواز بھٹی  جمعرات 22 نومبر 2012
انسان کے جسم میں دو گردے پیٹ میں پسلیوں سے نیچے ریڑھ کی ہڈی کی دونوں جانب  ہوتے ہیں۔ فوٹو : فائل

انسان کے جسم میں دو گردے پیٹ میں پسلیوں سے نیچے ریڑھ کی ہڈی کی دونوں جانب ہوتے ہیں۔ فوٹو : فائل

انسان کے جسم میں مسلسل کیمیائی عمل جاری رہتا ہے اور ہر کیمیائی عمل کے نتیجے میں کچھ ایسے کیمیائی عناصر وجود میں آتے ہیں، جو ہمارے جسم کے لئے نقصان دہ ہیں۔

گردہ ان غیر ضروری اور ضررساں کیمیائی عناصر کااخراج کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جسم میں پانی کی مقدار کو معتدل سطح پر رکھتا ہے اور کچھ اہم ہارمون بھی خارج کرتا ہے۔ جن میں سے ایک خون کی افزائش کے لئے ضروری ہے اور دوسرا ہڈیوں کو مستحکم رکھنے اور کیلشیم کو جسم میں جذب کرنے کا ذمے دار ہے۔

گردوں کا عمل:
انسان کے جسم میں دو گردے پیٹ میں پسلیوں سے ذرا نیچے ریڑھ کی ہڈی کی دونوں جانب واقع ہوتے ہیں۔ ان کا حجم مٹھی کے برابر ہوتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی شریان ’’اعورطا‘‘ سے خون کی دو نالیاں ان کو خون پہنچاتی ہیں۔ گردے میں پہنچ کر خون کی یہ نالیاں درخت کی شاخوں کی طرح تقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بالکل آخر میں یہ اتنی مہین ہو جاتی ہیں کہ انھیں صرف خوردبین سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مرحلے پر یہ مہین ’’عروق شعریہ‘‘ ایک گچھے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ گچھا ایک پیمانے نما کیپسول میں ملفوف ہوتا ہے جب خون ایک خاص پریشر کے ساتھ خون کی ان مہین نالیوں سے گزرتا ہے تو خون(جو ٹھوس ذرات اور رقیق پانی نما محلول کا مرکب ہے) میں سے صرف محلول چھن کر اس پیالے میں جمع ہوتا رہتا ہے۔

ایسے لاکھوں پیالوں میں جمع ہونے والا محلول مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے پیشاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ان پیالوں سے پیشاب جمع کرنے والی نالیاں ایک دوسرے سے جڑتی چلی جاتی ہیں اور بتدریج ایک بڑی نالی بن جاتی ہے‘ جو گردے سے نکل کر مثانے سے جا ملتی ہے۔ گردے انسانی صحت اور زندگی کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ چار اعضاء ایسے ہیں جن کے مکمل طور پر ناکارہ ہونے کے بعد زندگی ممکن نہیں۔ اس میں دل‘ پھیپھڑے‘ جگر اور گردے شامل ہیں۔

گردے کی خرابی کے نتائج:
گردے کی خرابی سے جسم میں ایسے کیمیائی مادے جمع ہو جاتے ہیں‘ جو ہمارے جسم کے لئے زہر کا اثر رکھتے ہیں۔ اگر ان مادوں کو خارج نہ کیا جا سکے‘ تو خون میں ان کی سطح اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ان کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور نتیجتاً موت واقع ہو جاتی ہے۔ گردے جس میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والے تیزاب کا بھی سدباب کرتے ہیں۔ گردوں کی خرابی سے خون میں تیزابیت خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ گردے پیشاب کی صورت میں پانی کے اخراج سے جسم کو نارمل حالت میں رکھتے ہیں۔ جب گردے پانی کا اخراج نہیں کر سکتے تو جسم میں پانی جمع ہو جاتا ہے جس سے نہ صرف ظاہری طور پر سوجن ہو جاتی ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی پھیپھڑوں‘ پیٹ اور دل کی جھلی میں پانی بھرنا شروع ہو جاتا ہے۔

گردے کی خرابی کے اسباب:
گردوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ذیابیطس ہے اور یہ جسم کے ہر عضو کو متاثر کرتی ہے۔ جسم پر اس کے اثرات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ عروق شعریہ کو برباد کر دیتی ہے چونکہ گردوں میں ان نالیوں کا وجود سب سے زیادہ ہے اور گردے کا کام ہی ان عروق شعریہ پر مشتمل ہے۔ اس لئے اوسطاً سترہ سال کے بعد شوگر کے بیشتر مریض گردوں کی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گردے کی خرابی کی دوسری بڑی وجہ فشار خان یا خون کے دباؤ کی زیادتی ہے۔ بلڈ پریشر یوں تو ہر عمر میں مضر ہے، مگر کم عمری میں بلڈ پریشر کا ہونا خاص طور پر خطرناک ہے۔ اور اس کا فوری اور کامیاب علاج نہ کیا جائے تو یہ عام طور پر گردوں کی خرابی کا سبب بن جاتا ہے۔

نوجوانوں یا بچوں میں گردوں کی خرابی کے اسباب میں ایسی بیماریاں جو جسم میں اینٹی باڈیز بناتی ہیں یا پھر گردوں میں پیدائشی نقص شامل ہیں۔کچھ بیماریاں موروثی بھی ہیں جیسے پالی سسٹک کڈنی‘ گردے میں پتھری‘ پیشاب کے بہاؤ اور اس کے راستے میں رکاوٹ اور اس میں بار بار انفیکشن ہونا بھی گردے کے ناکارہ ہونے کا سبب ہو سکتا ہے۔

بیماری کی علامت:
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت عرصے تک گردے کی خرابی کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتیں۔ جب تک گردہ سنگین حد تک ناکارہ نہ ہو جائے۔ مریض کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی اور وہ اپنے اندر سلگنے والی اس آگ سے بے خبر ہوتا ہے۔ گردے کی خرابی کے اعلیٰ مدارج میں بھوک نہ لگنا‘ غذا کی لذت سے محرومی‘ کمزوری‘ خون کی کمی اور دل متلانا شامل ہیں۔ جب بیماری مزید بڑھتی ہے تو سر میں درد اور قے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے تیسری دنیا میں زیادہ تر مریضوں کے گردوں کی خرابی کی تشخیص اسی مرحلے پر ہوتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ باقاعدگی سے جنرل چیک اپ کا دستور ہے۔ اس لئے یہاں عام طور پر جلد ہی گردے کی بیماری کا پتہ لگ جاتا ہے۔ ہر مریض یہ پوچھتا ہے کہ کیا میرے دونوں گردے خراب ہیں۔ حقیقت میں جب دونوں ہی گردے خراب ہوں تبھی یہ بیماری ہوتی ہے کیونکہ ایک گردے سے انسان نارمل حالت میں مکمل اور بھرپور زندگی گزار سکتا ہے۔

تشخیص:
اگر جنرل چیک اپ میں پیشاب اور خون کے ٹیسٹ شامل ہوں تو گردے کی خرابی کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد عام امراض کے ڈاکٹر مریض کو ماہر امراض گردہ کے پاس بھیجتے ہیں۔ گردے کے امراض کے سرجن یورالوجسٹ اور فزیشن نیفرولوجسٹ کہلاتے ہیں۔ ڈائلسیز اور گردے کی دائمی بیماری گردے کے فزیشن کے حلقہ عمل میں آتی ہے۔ یورالوجسٹ گردے کے سرطان‘ پیشاب کے بہاؤ‘ اس میں رکاوٹ‘ پتھری‘ مثانے اور پراسٹیٹ اور الٹراساؤنڈ تجویز کرتا ہے اور چند لوگوں میں گردے کی بایوپسی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ان تمام چیزوں کے نتائج کے بعد علاج کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ گردوں کے مستقل طور پر ناکارہ ہونے کی صورت میں ڈائلسیز یا گردوں کی پیوندکاری کی ضرورت پیش آتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔