پہلے بارہ سو روپے کافی تھے اب دس ہزار میں بھی مہینہ نہیں گزرتا

بشیر واثق  اتوار 25 نومبر 2012
پھول فروش محمد نصیر کے شب روز کا احوال۔ فوٹو: فائل

پھول فروش محمد نصیر کے شب روز کا احوال۔ فوٹو: فائل

پھول کا تصور ذہن میں آتے ہی دل و دماغ معطر ہونے لگتے ہیں کیونکہ پھول اور خوشبو لازم ملزوم ہیں۔

شاعر اور ادیب اپنے محبوب کا حسن اور خوبصورتی بیان کرنے کے لئے پھول سے تشبیہ دیتے ہیں،جیسے میر تقی میر کہتے ہیں

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

خوشیوں کے لمحوں کو خوبصورت بنانے کے لئے پھول خاص طور پر استعمال کئے جاتے ہیں اسی لئے منگنی بیاہ یا خوشی کے دیگر موقع پر پھولوں کے ہاروں اورلڑیوں کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے حتیٰ کہ کوشش کی جاتی ہے کہ دھرتی کو پھول کی پنکھڑیوں سے سجا دیا جائے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر کسی میں اتنی مالی استطاعت نہیں ہوتی کہ پھولوں کا بھرپور استعمال کر سکے تاہم سب کی خواہش ضرور ہوتی ہے کہ ہاتھوں سے ریت کی طرح سرکتے مسرتوں بھرے ان یادگار لمحات میں پھولوں کی مہک کا رچائو ضرور ہو۔

عجب بات یہ ہے کہ پھول جہاں حسن و خوبصورتی کا استعارہ ہیں وہیں غم اور اندوہ کے لئے بھی پھول استعمال کئے جاتے ہیں ،کوئی عقیدت میں پھول پیش کرتا ہے تو کوئی محبت میں۔سوال یہ پیدا ہوتا کہ خوشی اور غمی دونوں صورتوں میں آخر پھول ہی کیوں استعمال کئے جاتے ہیں ؟پھولوں کی خوبصورتی اور خوشبو یہ وہ دوخوبیاں ہیں جو انھیں ہر موقع کے لئے موزوں بنا دیتے ہیں ۔ غم و اندوہ میں پھول پیش کرنا ایک بہت ہی مہذب طریقہ ہے جس سے انسان اپنے جذبات کا اظہار خوبصورت طریقے سے کر سکتا ہے۔ اب یہ پھول کی قسمت ہے کہ وہ شادی کے موقع پر کام آنے والی لڑی میں پرویا جاتا ہے یا کسی مرقد پر چڑھایا جاتا ہے۔

یوں پھولوں کی مختلف مواقع پر ضرورت پڑتی ہے اور پھول فروش ہمارے معاشرے کا اہم حصہ بن چکا ہے،دوسروں کی زندگیوں کے مختلف مواقع کو خوشبوئوں سے مہکانے والوں کی اپنی زندگی کن نشیب و فراز سے دوچار ہے، قبرستان میانی صاحب میں گزشتہ 35سال سے پھول فروخت کرنے والا محمد نصیر اپنے شب روز کے احوال سے کچھ یوں پردہ اٹھاتا ہے۔

’’حکومت ہم غریبوں کے لئے کچھ بھی نہیں کرتی، یوں لگتا ہے کہ ہر آنے والا دن سخت سے سخت تر ہے ،88ء میں میری آمدن 1200روپے ماہانہ تھی جبکہ اب نو،دس ہزار روپے کما لیتا ہوں ،پہلے 12سو میں گزارہ ہو جاتا تھا ، اب نو، ہزار روپے میں بھی مہینہ نہیں گزرتا،مہنگائی نے تو ہم غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، خوراک کو ہی لے لیں ،دال روٹی تو ہمیں کسی نہ کسی طرح میسر آ جاتی ہے مگر گوشت جیسی نعمت ہمیں عید کے عید ہی میسر آتی ہے، اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مہنگائی کتنی بڑھ چکی ہے۔‘‘

کچھ لوگ شوق سے کوئی پیشہ اپناتے ہیں،کچھ خاندانی طورپر اور اکثریت مجبوراً کسی پیشے سے وابستہ ہو جاتی ہے کیونکہ پیٹ کا دوزخ ہرحال میں بھرنا ہوتا ہے جو دن میں دوبار ضرور خوراک کا مطالبہ کرتا ہے، اسی لئے انسان اپنی آرزئوں کا گلہ گھونٹتے ہوئے کچھ کمانے کے لئے کوئی نہ کوئی کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ محمد نصیر نے بتایا کہ اس کا تعلق نارووال کے گائوں پتو وال سے ہے اور چھ بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ والد نذیر میانی صاحب قبرستان لاہور میں ایک پھول فروش کے پاس ملا زم تھے۔

ابھی میں پانچ ، چھ سال کا ہی تھا کہ وہ پورے خاندان کو لاہور لے آئے، پھول فروشی میں تو پہلے ہی بہت کم آمدن ہوتی ہے اور پھر والد صاحب تو پھول فروش کے ملازم تھے ، خود اندازہ لگا لیں کہ کتنا کماتے ہوں گے،غرض کرائے کے چھوٹے سے مکان میں بڑی تنگی ترشی سے گزارہ ہوتا تھا،والد صاحب نے جب دیکھا کہ دووقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی تو پھول فروش کی نوکری چھوڑ کر خود پھول فروخت کرنے کا پھٹا لگا لیا اور اکیلے ہونے کی وجہ سے مجھے بھی بچپن میں ہی والد صاحب کے ساتھ یہ پیشہ اختیار کرنا پڑا،کیونکہ یہ ہماری مجبوری تھی۔

آمدن اتنی کم تھی کہ ملازم نہیں رکھا جا سکتا تھا اور اکیلے بندے کا یہ کام نہیں ہے ، اس لئے میرے اسکول جانے کے دن والد صاحب کا ہاتھ بٹانے میں صرف ہوئے ۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ میں ان پڑھ ہوں،اسکول نہ جا سکنے کے باوجود میں نے اپنی کوشش سے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سیکھ لیا ہے اور حساب بھی کر لیتا ہوں۔

گفتگوکرتے ہوئے پھول فروش کے چہرے سے دبا دبا جوش نمایاں تھا جیسے اسے اس بات پر بڑا فخر ہوکہ اس نے اپنی کوشش سے پڑھنا لکھنا سیکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر تقدیر اسے موقع دیتی تو وہ ضرور تعلیم سے مستفید ہوتا۔گو دوسروں کے لئے یہ معمولی بات رہی ہو گی مگر اس کے لئے یہ یقیناً بڑی بات تھی تمام تر مشکلوں کے باوجود اس نے خود کو اس حد تک قابل کرلیا کہ وہ اخبار وغیرہ پڑھ سکے۔

اس نے بتایا کہ جب 88ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور پیپلز پروگرام شروع ہوا تو تب اسے پیپلز پروگرام میں عارضی بنیادوں پر نوکری مل گئی،ہوا یوں کہ اس کے پاس پھول لینے کے لئے ایک گاہک آیا کرتا تھا،اس نے پوچھا کہ نوکری کرو گے ، میں نے فوراً ہاں کردی اس نے مجھے 1200روپے ماہانہ پر لگوا دیا تب میں نے یہ کام چھوڑ دیا ،وہیں پر میں نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سیکھا،وہاں پر ایک ٹائپسٹ اشفاق صاحب تھے ان سے اچھی سلام دعا بن گئی ،انھوں نے مجھے قائل کیاکہ میں اپنے چھوٹے بھائیوں کو تعلیم دلوائوں ، میں نے اس کے مشورے پر فوراً عمل کیا اور اپنے سب سے چھوٹے دو بھائیوں کو اسکول داخل کر ا دیا ۔

زندگی ایک پر خار وادی کی طرح ہے جس میں بہت سی اترائیاں اور چڑھائیاں آتی ہیں ،کبھی تو انسان بلندی پر ہوتا ہے اور کبھی گہری کھائی کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے جسے انسان بڑی مشکل سے پار کرتا ہے تو آگے پھر ایک چڑھائی اس کی منتظر ہوتی ہے ۔

اگر انسان حالات کے مقابلے پر ڈٹا رہے تو وہ ہر کھائی اور ہر چڑھائی کو عبور کر لیتا ہے اور اگر ہمت ہار جائے تو گہری پستیاں اس کا مقدر ٹھہرتی ہیں ، محمد نصیر کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب اچانک اس کی نوکری جاتی رہی، پیپلز پروگرام چونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے وابستہ تھا ، اٹھارہ مہینے کے بعد جیسے ہی بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تو پیپلز پروگرام بھی فوری بند کر دیا گیا اور کام کرنے والے تمام افراد فارغ کردئیے گئے، ملازمت ملنے پر نصیر کی زندگی میں تھوڑی سی تن آسانی کے جو چند ماہ آئے تھے۔

ان کا خاتمہ ہو گیااور اسے واپس اپنے والد کے ساتھ پھولوں کے پھٹے پر بیٹھنا پڑا ، جیسے شاعر نے کہا ہے ،پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا،تو نصیر کے ساتھ بھی ویسے ہی ہوا مگر اس نے اسے ذرا بھی دل پر نہیں لیا اور حسب معمول کام میں جت گیا ، کیونکہ اسے پتہ تھا کہ گھر میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے اس کی بہت سی ذمے داریاں ہیں ، یہی ذمے داریاں انسان کو زنجیر کی طرح باندھ دیتی ہیں۔

نصیر نے بتا یا کہ اس سے چھوٹے بھائی نے بھی پھولوں کا کام شروع کر دیا تھا جبکہ ایک نے درزیوں کام سیکھ لیا اور دو چھوٹے پڑھ رہے تھے ، اتنے آدمیوں کے کام کرنے سے گھر کا چولہا آسانی سے جلنے لگا ، تب اس نے اپنے دو بھائیوں کی شادی کا بیڑہ اٹھا یا اور خود کو نظر انداز کر کے ان کی شادی کی ، اس کی باری ان کے بعد آئی ، اسی طرح اس نے اپنے دوسرے بھائیوں کی بھی شادیاں کیں یوں اکٹھی آمدن اور سادگی اپنانے کی وجہ سے سب بھائیوں کے گھر بس گئے ۔

اپنا گھر جیسا ہو جہاں بھی ہو ،انسان کو بہت عزیز ہوتا ہے اور جس کے پاس ذاتی گھر نہ ہو اس کی ہمیشہ یہ آرزئو ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنا مکان بنائے ، اپنی اس تمنا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نصیر نے بتایا کہ وہ شاہدرہ کے علاقے نین سکھ بیگم کوٹ میں رہتے ہیں ، والد صاحب کی بھی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنا گھر بناتے مگر انھیں صرف پانچ روپے دیہاڑی ملتی تھی جس سے ہم بڑی مشکل سے گزارہ کرتے تھے حالانکہ اس وقت وہاں سو روپے مرلہ جگہ تھی مگر ہمارے پاس کچھ بچتا ہی نہ تھا۔

دس سال پہلے میں نے آبادی سے باہر کھیتوں کے قریب ایک سستا سا پلاٹ خرید لیا تھا پھر اسے جیسے تیسے بنانا شروع کر دیا ،چاردیواری کرنے اور سادہ سے کمرے بنانے میں پانچ سال لگے مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنا گھر، جیسا بھی ہے ، بنانے میں کامیاب ہو گیا،اب اپنے بیوی بچوں ،ماں باپ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ وہیں رہ رہا ہوں ،تین بچیاں اور ایک بیٹا ہے ،بڑی بیٹی اسماء ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے اور پانچ سال کا بیٹا اسامہ پہلی جماعت میں ہے،اب سب کچھ بچوں کے لئے ہی کرتا ہوں۔

نصیر نے میانی صاحب قبرستان فصیح روڈ پر قبروں کے بالکل ساتھ پھولوں کا پھٹا لگایا ہوا ہے۔ جب پوچھا کہ یہاں کب سے آئے اور کیا مسائل ہیںتو کہنے لگاکہ چار پانچ سال سے یہاں پھول بیچ رہا جبکہ اس سے قبل مین روڈ پر تھا جہاں کارپوریشن والے تنگ کرتے رہتے تھے ،یہاں پر قبرستان کمیٹی والے ماہانہ ہزار روپے کرایہ لیتے ہیں ، میرے ساتھ ایک اور لڑکا کام کرتا ہے جسے ڈیڑھ سو روپے دیہاڑی دیتا ہوں کیونکہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں ہے ، مجھے صبح نین سکھ پھولوں کی منڈی بھی جانا ہوتا ہے جہاں سے میں گیارہ، بارہ بجے سے قبل نہیں لوٹ سکتا وہ لڑکا میرے آنے تک دکان لگا لیتا ہے اس طرح گاہک خراب نہیں ہوتا۔

روزانہ 200سے400سو روپے تک کما لیتے ہیں کبھی کبھار پانچ سو کی بھی دیہاڑی لگ جاتی ہے،تاہم عید ،بقر عید اور شب برات پر زیادہ رش ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ہرقسم کا گاہک آتا ہے اچھا بھی برا بھی ،کوئی مہربانی کر کے زیادہ پیسے بھی دے دیتا ہے اور کوئی دھونس جما کر کچھ بھی نہیں دیتا، اس کے علاوہ نشہ کرنے والے رات کو سامان وغیرہ چوری کر لیتے ہیں ۔ قبرستان سے سانپ بہت نکلتے ہیں جن کے کاٹنے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے اس لئے احتیاط کرنا پڑتی ہے، تھوڑا عرصہ پہلے یہاں قبرستان میں بابا نواب سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے فوت ہوا ہے ، بابا نواب ادھر قبرستان میں اکیلا پڑا رہتا تھا ،اسے رات کو سانپ نے کاٹا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ۔

پھول فروش بیٹھا تو پھولوں کی سیج پر ہوتا ہے مگر انھی پھولوں کے کانٹے ہمیشہ اسے چبھتے رہتے ہیں،وہ دوسروں کی زندگی کے مختلف لمحات کو تو معطر کرتا ہے مگر اس کی اپنی زندگی بے بو ،بے رنگ، ایک ہی ڈھب سے گزرتی ہے۔

٭تنگدستی کی وجہ سے والد نے اسکول بھیجنے کی بجائے اپنے ساتھ پھول بیچنے پر لگا دیا۔

٭ہمارے پاس قبرستان میں اچھا، برا ہر قسم کا گاہک آتا ہے۔

٭بعض گاہک خدا ترسی سے زیادہ پیسے دے دیتے ہیں جبکہ کچھ دھمکا کر ویسے ہی پھول لے جاتے ہیں۔

٭کوشش کر کے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سیکھ لیا ہے۔

٭دوبھائیوں کی شادی اپنے سے پہلے کی، دو کو تعلیم دلوائی۔

٭ حکومت ہم غریبوں کے لئے کچھ نہیں کرتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔