بھارت کی وہی پرانی راگنی

بھارت کوہٹ دھرمی پرمبنی رویہ چھوڑ کرمذاکرات کی میز پرآنا چاہیےکیونکہ اس خطے کے متنازعہ مسائل کا یہی آخری حل ہے


Editorial June 12, 2016
ممبئی حملوں کی آڑ میں بھی بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی کو ہوا دی تھی :فوٹو: فائل

NEW YORK: ترجمان بھارتی وزارت خارجہ وکاس سروپ نے ہفتے کو نئی دہلی میں میڈیا سے گفتگو میں پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے اپنی حکومت کے ہٹ دھرمی پر مبنی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مذاکرات چاہتا ہے تو پہلے پٹھانکوٹ حملے کے ملزم کٹہرے میں لائے۔

انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ پاک بھارت سیکریٹری خارجہ مذاکرات کے ذریعے تاریخ کے تعین بارے میں پس پردہ کوششوں کے حوالے سے رپورٹوں میں کوئی صداقت موجود نہیں' پاکستان کے ساتھ فوری مذاکرات کے لیے کوئی تاریخ طے ہوئی نہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا گیا۔

ادھر پاکستانی سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا کوئی ادارہ کبھی بھارت میں کسی واقعہ میں ملوث نہیں رہا' مذاکرات کے حوالے سے بھارتی شرائط منظور نہیں' پٹھانکوٹ واقعے کی تحقیقات کے لیے ہمارے ادارے کام کر رہے ہیں' ایسے واقعات کی تحقیقات سال ہا سال چلتی رہتی ہے ہمیں بے صبر نہیں ہونا چاہیے' پٹھانکوٹ واقعے میں بھارت نے پاکستان کے ملوث نہ ہونے کا اعتراف کیا تو یہ کوئی اچھوتی بات نہیں' بال اب بھارت کی کورٹ میں ہے' دیکھتے ہیں وہ کب ادھر لوٹاتا ہے' ہمارے لیے مسئلہ کشمیر اور سیاچن بھی بہت اہم ہے۔

بھارت نے وہی پرانی رٹ لگا رکھی ہے کہ پاکستان پہلے پٹھانکوٹ حملے کے ملزم پکڑے پھر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گا، بھارت کی طرف سے مذاکرات کے ایشو کو سبوتاژ کرنے کی کوشش پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ ماضی کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسا کرنا اس کا معمول ہے۔ ممبئی حملوں کی آڑ میں بھی بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی کو ہوا دی تھی۔

پاکستان نے تب بھی یہ واضح کیا تھا کہ ممبئی حملوں میں کسی بھی طور پاکستانی حکومت یا اس کی کوئی ایجنسی ملوث نہیں بعدازاں یہ بات منظر عام پر بھی آ گئی کہ پاکستان کا موقف سچ ہے اور بھارت بلاجواز اس کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ جہاں تک پٹھانکوٹ حملے کا تعلق ہے تو گزشتہ دنوں بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل شرد کمار نے بھی اعتراف کیا تھا کہ اس حملے میں حکومت پاکستان یا کسی بھی پاکستانی ایجنسی کے براہ راست ملوث ہونے کے کوئی شواہد اب تک نہیں ملے ہیں۔ تمام تر حقائق منظرعام پر آنے کے باوجود بھارتی حکومت تعصب اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹھانکوٹ واقعہ کو پاکستان کے سر منڈھنا چاہتی ہے اور اسی واقعہ کو آڑ بنا کر وہ مذاکرات سے مسلسل راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔

بھارتی حکومت کے رویے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ ہی نہیں اور کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر مذاکرات کا سلسلہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی کھڑکی بند کر دی گئی ہے جس پر پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے مذاکرات کے لیے کوئی کھڑکی کھولی اور نہ پاکستان ہی کو مذاکرات کے لیے کوئی بے چینی ہے' ہمیں کسی بھی صورت بھارت کے دباؤ میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن خطے میں امن اور دونوں ممالک کے قریب آنے کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہونا چاہیے۔

بھارت مذاکرات کے لیے اپنی شرائط پیش کر رہا ہے اس کی سوئی صرف دہشت گردی کے ایشو پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ مذاکراتی عمل میں کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کو مائنس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازعہ معاملات کو زیربحث لایا جائے جہاں تک پٹھانکوٹ واقعہ کا تعلق ہے پاکستان یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کر رہا ہے اور اس نے اس مسئلے پر بھارت سے ہر ممکن طور پر تعاون کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے کر پوری دنیا میں بدنام کیا جائے اسی لیے وہ ایک خاص منصوبے کے تحت دہشت گردی کے ایشو پر اڑا ہوا ہے کہ اسی مسئلے پر بات چیت کی جائے۔

پاکستان کی حکومت کو بھی ان بھارتی چالوں کا بخوبی ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر یہ واضح کر رہا ہے کہ دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ دہشت گردی کے خلاف خود ایک بڑی جنگ لڑ رہا ہے لہٰذا وہ دہشت گردوں کی کیسے حمایت کر سکتا ہے۔ بھارت کو ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے کیونکہ اس خطے کے متنازعہ مسائل کا یہی آخری حل ہے اس کے سوا کوئی بھی دوسرا راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔

مقبول خبریں