اصل المیہ کیا ہے

اوریا مقبول جان  پير 13 جون 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

آج سے ٹھیک چالیس سال قبل جب میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لیا تو دوسرے سمیسٹر میں نفسیاتی امراض کا مضمون میرے لیے خصوصی دلچسپی رکھتا تھا‘ میں اس دوران ایک طالب علم ٹرینی کی حیثیت سے ہفتے میں تین دن ذہنی مریضوں کی بحالی کے ادارے فاؤنٹین ہاؤس میں بھی ان امراض کے علاج کی تربیت لیتا تھا۔ اس مضمون کے لیے James c colman (جیمزسی کول مین) کی کتاب Abnormal Psychology & Modren life ایک نسخہ کیمیا تھی۔ اس کے اس وقت چار ایڈیشن آ چکے تھے اور چوتھے ایڈیشن کی لائبریری میں صرف ایک کاپی تھی جسے ڈیپارٹمنٹ والوں نے ساتھ لیجانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔

چونکہ کتاب امریکی معاشرے کے پس منظر میں لکھی گئی تھی اس لیے اس میں دیے گئے تمام شواہد بھی وہیں کے تھے۔ یہ کتاب دراصل امریکی یونیورسٹیوں کے لیے تحریر کی گئی تھی اس لیے اس میں نفسیاتی مسائل کی وجوہات‘ علامات اور علاج کے طریقے سب اسی معاشرے کے حوالے سے بتائے گئے تھے۔ چونکہ پاکستان میں آج تک کسی نے نصاب تعلیم پر کوئی محنت نہیں کی اس لیے ہم سب بھی مغرب کی ٹیکسٹ بکوں کو پڑھ کر امتحان دینے پر مجبور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں سے جو نفسیات دان، معیشت دان، معاشریات کا عالم یا بشریات و سیاسیات کا ماہراپنے اپنے مضمون سے ایم اے کر کے پاکستانی معاشرے میں کام کرنے لگا ہے تو اسے مغرب کے ہر زوال و کمال کا علم ہو گا‘ ہر معاشرتی اور خاندانی مسئلے کی آگاہی ہو گی لیکن وہ اپنے لوگوں کے ماحول‘ معاشرت حتیٰ کہ خاندانی ماحول اور اخلاقی اقدار سے بھی نا آشنا ہو گا۔

آپ حیران ہوں گے کہ ذہنی مریضوں کی حالت کو جانچنے کے لیے اس وقت اردو میں ایک ہی ٹسٹ استعمال ہوتا تھا MMPI جسے دراصل میرے استاد اور بعدازاں دوست ڈاکٹر لئیق مرزا نے ترجمے اور تبدیلی کے بعد ترتیب دیا تھا۔ یہ ایک 499 چھوٹے چھوٹے سوالات پر مشتمل ٹیسٹ ہے جو کسی ذہنی مریض کی شخصیت کو معمول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں مینی سوٹا یونیورسٹی میں تخلیق کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سارے کا سارا علم اور سب کے سب ٹسٹ مغربی اور امریکی طرز زندگی کے مطابق دستیاب تھے۔ فاؤنٹین ہاؤس کے ڈاکٹر رشید چوہدری ڈاکٹر لئیق مرزا اور پھر بعدازاں عظیم استاد اور ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔

ان لوگوں کا ساتھ میسر نہ ہوتا تو شاید میرا علم بھی مغرب کی اسی معاشرت کو ایک آئیڈیل معاشرت کے حوالے سے اپنے ذہن میں بساتا اور ہر مرض کی ویسی ہی وجوہات ڈھونڈتا جیسی وہاں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ پڑھائی کے دوران کول مین کی کتاب کے چوتھے ایڈیشن کے ورق کے ورق آج تک میرے دماغ سے چپکے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک باب گھریلو تشدد پر تھا جس میں اس زمانے کے درج اعدادوشمار اس قدر خوفناک تھے کہ روح کانپ اٹھتی تھی۔کول مین کی اس کتاب میں گھریلو تشدد کا شکار چند بچوں کی تصویریں دی ہوئی تھیں اور ان ظالم ماؤں کے بھی چہرے کے کلوزاپ تھے جنہوں نے اپنے بچوں پر تشدد کیا یا انھیں مار دیا تھا۔

چونکہ یہ کتاب کیس ہسٹریوں کا ذخیرہ تھی اس لیے تشدد کے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات تھے کہ دوسرا واقعہ نہیں پڑھا جاتا تھا۔کسی ماں نے اپنے بچوں کو زور سے گھمایا اور دیوار سے پٹخ دیا‘ کسی نے اپنی تین بیٹیوں کو گاڑی میں ڈالا‘ شیشے بند کیے اور گاڑی دریا میں پھینک دی۔کسی نے بچے کو اوون میں رکھ کر جلا دیا‘ تو کسی نے واشنگ مشین میں ڈال کر گھما دیا۔ چالیس سال قبل میں سوچتا تھا کہ کوئی معاشرہ اس قدر کریہہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں ماں جیسے محبت کرنے والے رشتے کا یہ روپ سامنے آ جائے کہ دس لاکھ کے قریب بچے اسپتال میں داخل ہوں اور ان میں 25 فیصد تشدد کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جائیں اور تشدد کرنے والی نوے فیصد مائیں ہوں۔ میرے جیسا دیہاتی ماحول میں پلا بڑھا شخص جس نے ماں کا صرف اور صرف محبت کا روپ دیکھا ہو اس کے لیے یہ سب یقین کرنا بہت مشکل تھا۔

لیکن گزشتہ تین دن سے مجھے اس خبر کی صداقت پر تو یقین ہے لیکن اس کی ہولناکی پر یقین کرنے کو جی نہیں مان رہا۔ ایک ماں نے اپنی بیٹی کو زندہ جلا دیا اور پھر کس قدر اعتماد کے ساتھ کیمروں کے سامنے یہ کہا کہ مجھے اس پر ذرا برابر بھی ملال نہیں۔ بیٹیوں کو ایسے معاملات میں قتل کرنے کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ماں کا ایسا رویہ نہیں ہوتا۔ پسند کی شادی پر باپ بھائی ناراض ہوتے ہیں، غصے کے عالم میں قتل بھی کرنے نکل پڑتے ہیں لیکن مائیں عموماً بیٹی کے ساتھ ہمدردی کے عالم میں ہوتی ہیں۔ وہ ایسی بیٹی سے چھپ کے مل لیتی ہے۔

اسے سمجھاتی ہے، اس کے لیے خاموشی سے دعائیں بھی کرتی ہے۔ یہ سراپا رحمت رشتہ اسقدر ظالم کیسے ہوگیا اور پھر غصہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ہر کوئی اس واقعہ کی سنگینی پر گفتگو کررہا ہے۔ ریٹنگ کے جنون میں پاگل ٹیلی ویژن والے اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ متنازعہ بناکر لوگوں میں جو ہیجان پیدا کررہے ہیں، ہر طبقہ فکر کا شخص گفتگو کررہا ہے اور اپنے طبقے کا دفاع بھی لیکن کوئی واقعہ کی سنگینی اور اس اہم ترین موضوع پر بات نہیں کررہا کہ وہ کون سے حالات تھے جس نے ایک ماں جیسے محبت بھرے رشتے کو ظالم بنادیا۔ دنیا میں جہاں بھی قوموں نے ایسے مسائل دیکھے وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور پھر اس پر ماہرین نفسیات، سماجیات یہاں تک کہ ان کے مذہبی اور روحانی افراد نے بھی اس طرح کے ہیجان کا علاج کرنے کی کوشش کی۔ ہیجان اور اضطراب کو کم کرنے کے لیے مغرب میں جس طرح مراقبہ جسے Meditation کہتے ہیں وہ مقبول ہوا اور یوگا جیسی وزشیں عام ہوئیں تو یہ ان کی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کی علامت تھی۔

لیکن ہمارے ہاں تو خاتون سماجی کارکنوں سے لے کر اینکرپرسن اور آزادی نسواں کے علمبرداروں تک ہر کسی کو بحث کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے فرصت نہیں اور کسی کو اندازہ نہیں کہ معاشرے میں ہیجان اور اضطراب دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس سے پہلے کبھی زندہ جلائے جانے کے واقعات نہیں ہوئے تھے۔ مائیں بچوں کو زہر نہیں دیتی تھیں۔ ایسے اگر واقعات تھے بھی تو بہت کم۔ لیکن لگتا ہے کہ جس راستے پر آج سے چالیس سال پہلے امریکی معاشرہ چل پڑا تھا اور بدترین گھریلو تشدد کا شکار ہوا۔ ہم آج اس مقام پر آپہنچے ہیں۔

دونوں کا مرض ایک ہے لیکن وجوہات مختلف، آغاز دونوں معاشروں کا ایک جیسا ہے۔ آپ مغربی معاشرہ اٹھالیں۔ آپ کو خاندانی ہیجان و اضطراب اس وقت آغاز پاتا ہوا ملے گا جب نسوانیت Feminism کی تحریک نے خاندان کے ادارے کو کچل کر رکھ دیا۔ کارپوریٹ میڈیا نے عورت کو ایک پراڈکٹ کی حیثیت سے متعارف کرایا تو اس نے ماں، بہن، بیٹی یا بہو کی جگہ ’’کیریئر وومن‘‘ بننے پر ترجیح دی۔

اب یہاں وجوہات ہم سے مختلف ہوجاتی ہیں۔ وہاں خاندان مکمل طور پر ٹوٹ گیا اور پھر شادی صرف چند ماہ یا سال کا کھیل بن کر رہ گئی۔ بیرون از شادی تعلقات نے زندگی میں زہر گھولا تو کہیں معاشی دوڑ نے گھر کو جہنم بنایا۔ مرد صرف مرد بن گیا اور عورت صرف عورت جن کا زندگی کا مقصد آگے بڑھنا، کامیاب ہونا اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا تھا۔ قربانی کا تصور خاندان کی زندگی سے خارج ہوگیا۔ ایسے میں جس کو غصہ آیا، ہیجان پیدا ہوا اس کا پہلا نشانہ معصوم بچے یا کمزور عورتیں تھیں۔ ہمارے ہاں صرف یہ فرق ہے کہ خاندانی نظام سسکتا ہوا چل رہا ہے۔

اگرچہ کے اس کے چند دھاگے ہی بچے ہیں جن سے یہ نظام جڑا ہوا ہے۔ اس نظام کو روز ایک کاری ضرب لگائی جاتی ہے۔ کبھی سول سوسائٹی لگاتی ہے تو کبھی ہمارا نصاب تعلیم اور آخری وار میڈیا کا ہوتا ہے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور حقوق نسواں کے نزدیک وہ لڑکی تو ایک عورت ہے جو ماں باپ کی مرضی کے خلاف گھر سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں لیکن ان کے نزدیک وہ ماں ایک عورت نہیں کہ جو اس دن دنیا کے سامنے ایک اذیت ناک موت مرجاتی ہے جب اس کی بیٹی ایسا کرتی ہے۔ وہ محلے میں نکل نہیں پاتی، برادری کا سامنا نہیں کرپاتی۔ اس کی آنکھوں میں صرف آنسو ہوتے ہیں جو مسلسل بہے چلے جاتے ہیں۔ اس کی بددعاؤں میں کیسے کیسے فقرے ہوتے ہیں کہ کاش یہ پیدا ہوتے ہی مرجاتی۔ یہاں نفسیات کا وہ اصول سامنے آتا ہے جسے انسانی ذات کا شعوری Defence Machanism کہتے ہیں۔ مثلاً آدمی اپنے آپ کو تسلیاں دے کر زندہ رکھ لیتا ہے۔

مثلاً کونسا میری بیٹی اکیلی ہے اس جرم میں، چلو خوش تو ہے، لوگ تو کہتے ہی رہتے ہیں۔ انسان ایسی تسلیاں ہر اس فعل کے بعد اپنے آپ کو دیتا ہے جسے معاشرے میں اچھا نہ سمجھا جائے۔ مثلاً میں شراب پیتا ہوں غریبوں کا خون تو نہیں پیتا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بھلا کر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن چند لوگ یہ دباؤ برداشت نہیں کرپاتے، وہ یا تو خودکشی کرلیتے ہیں یا کسی ایسے شخص کو قتل کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر یہ معاشرتی دباؤ آیا۔ عموماً یہ ہوتا تھا کہ ماں کی محبت اس ہیجان اور اضطراب پر غالب آجاتی تھی۔ لیکن اگر معاملہ الٹ جائے اور ماں ہی اس جرم کے ارتکاب کا آغاز کردے تو یاد رکھو یہ معاملہ ٹاک شوز اور سوسائٹی کا نہیں۔ یہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ اس لیے کہ اب یہ معاملہ ان معاشرتی اور خاندانی محبتوں کے بند عبور کرچکا۔ اس دیوار محبت کو توڑ چکا جو رشتوں نے قائم کی تھی۔

اب یہ ماں ایک فرد ہے، ایک مضطرب اور پر ہیجان فرد، ایک ماں، بیٹی، بیوی یا بہو نہیں۔ ایک عورت ہے، صرف عورت۔ جب معاشروں پر یہ وقت آجائے تو پھر انھیں تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ان کے بازار خوبصورت، دکانیں رنگین، شہر پر رونق ہوتے ہیں لیکن گھر جہنم کی طرح بے سکون، بے مروت اور بے مہر ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔