اسی تنخواہ پر گزارا کرو

نصرت جاوید  جمعـء 23 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آج کل پھر کراچی کے حالات پر میڈیا میں بہت شور برپا ہے۔

خورشید شاہ نے ایک بیان کے ذریعے اس شہر میں ’’نسلوں تک یاد رہنے والے‘‘ آپریشن کی خواہش کا اظہار کیا۔ الطاف بھائی اور ان کی جماعت کے کان کھڑے ہو گئے۔ انھیں ایم کیو ایم کے خلاف ماضی میں کیے گئے آپریشنوں کی یاد آ گئی۔ پرانے زخموں کی یاد میں گویا تازہ زخموں کو روکنے کیلیے ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کر دی۔ نواز لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے حامیوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود یہ منظور بھی ہو گئی۔

اس قرارداد کے ذریعے فاروق ستار اور ان کی جماعت نے تاثر کچھ اس طرح کا پھیلا دیا کہ کراچی میں فساد کی اصل جڑ وہاں مہلک ہتھیاروں کی فراوانی ہے۔ یہ ہتھیار غالباََ قبائلی علاقوں سے کراچی ہی نہیں پورے ملک میں پہنچائے جاتے ہیں۔ کراچی میں امن قائم کرنا ہے تو پورے ملک کو اسلحے سے پاک کرو۔ ورنہ ’’اسی تنخواہ ‘‘ پر گزارا کرتے رہو۔

خورشید شاہ کی طرف سے کراچی میں آپریشن کی خواہش اور امکانات کے اظہار سے پہلے مجھے یاد دلانے دیجیے کہ ’’ نسلوں تک یاد رہنے والا‘‘ کوئی آپریشن فوج کی بھر پور شرکت کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں اس کا ارادہ باندھا تو جنرل بیگ نے آئین کے آرٹیکل 245 اور 147 کی بحث شروع کرا دی۔ اصغر خان کیس میں اس وقت کے بریگیڈئر حامد سعید کی رپورٹ ذرا غور سے پڑھیں تو آپ کو پوری طرح سمجھ آ جائے گی کہ جنرل بیگ اور ان کا ادارہ ایسے آپریشن کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ وہ تو بلکہ یہ طے کیے بیٹھے تھے کہ اس وقت کی منتخب وزیر اعظم ’’سیکیورٹی رسک‘‘ بن چکی ہیں۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو امریکا کے حکم پر مرحلہ وار کمزور کرتے ہوئے ختم کرنا چاہ رہی ہیں۔ محترمہ کے بارے میں یہ طے کرتے وقت کسی نے یاد رکھنے کی زحمت ہی نہ کی کہ اس پروگرام کا حقیقی بانی ذوالفقار علی بھٹو تھا اور وہ اتفاق سے ان کا باپ بھی تھا اور وہ مرتے دم تک اپنے والد کی سیاست ہی کو بچا کر آگے بڑھاتی رہیں۔

محترمہ کے بعد نواز شریف صاحب آئے تو سندھ کے ’’کچے‘‘ میں چُھپے ڈاکوئوں سے پاک کرنے کے نام پر ایک آپریشن شروع ہوا۔ اس آپریشن کی اجازت لینے کے بعد وزیر اعظم کو جو بریفنگ دی گئی اس میں سید خورشید شاہ کا نام بھی ’’ڈاکوئوں کے سرپرست‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپریشن کی اجازت کے بعد کراچی میں اچانک ’’حقیقی‘‘ بھی نمودار ہو گئی اور چوہدری نثار علی خان جیسے طاقتور وزیر ہکا بکا ہو کر واویلا کرنا شروع ہو گئے۔

کراچی میں امن و امان کا ذکر کرتے ہوئے لوگ اس آپریشن کو بہت یاد کرتے ہیں جو نصیر اللہ بابر نے محترمہ کے دوسرے دورِ حکومت میں شروع کیا تھا۔ یہ بات مگر کوئی یاد ہی نہیں رکھتا کہ اس آپریشن کے تحت دیے گئے اختیارات کے تحت ہی محترمہ نے اپنا سگا بھائی مرتضیٰ بھٹو گنوایا اور اس قتل کا الزام آصف علی زرداری کے سر لگا۔ بالآخر کسی اور نے نہیں بلکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے بڑی سختی کے ساتھ فوج کو کراچی کے معاملات سے الگ کیا۔ ان سب باتوں کے باوجود بے نظیر بھٹو کے ’’فاروق بھائی‘‘ بنے، صدر نے جب اِن کی دوسری حکومت فارغ کی تو ’’کراچی میں ماورائے عدالت قتل‘‘ اس حکومت کے خلاف پڑھی گئی چارج شیٹ میں پہلے الزام کے طور پر سامنے آئے۔

حکیم سعید کے قتل کے بعد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سندھ میں ایک بار پھر گورنر راج لگا کر آپریشن کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ ’’جانے پہچانے عادی مجرموں‘‘ کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلیے جب فوجی عدالتیں لگانے کا فیصلہ ہوا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے اسے انسانی حقوق اور حقیقی عدل کے منافی قرار دے دیا۔ پھر کارگل ہو گیا اور نواز شریف کراچی میں امن قائم کرنے کے بجائے اپنی جان بچا کر سعودی عرب جانے پر مجبور ہو گئے۔ میرا نہیں خیال کہ آج کی آزاد عدلیہ کراچی میں آپریشن کے نام پر وہ کچھ ہونے دے گی جو نواز شریف کے دنوں والے سپریم کورٹ نے بھی منظور نہیں کیا تھا۔

فوج اگر مجرموں کو پکڑ کر سرسری سماعتوں کے ذریعے سزائیں دینے کا اختیار حاصل نہیں کرتی تو جنرل کیانی بھی اپنے ادارے کو ’’اس گند‘‘ میں ملوث نہیں کرنا چاہیں گے۔ مختصر لفظوں میں کہنا صرف یہ چاہ رہا ہوں کہ جس آپریشن کے بارے میں اتنا شور و غوغا مچایا جا رہا ہے اس کے امکانات موجودہ چیف جسٹس اور ’’آزاد میڈیا‘‘ کے ہوتے ہوئے تو دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خورشید شاہ جیسے زیرک اور تجربہ کار سیاستدان نے جو اوپر بیان کی گئی ساری باتیں مجھ سے کہیں بہتر جانتے ہیں۔ ’’کراچی میں نسلوں تک یاد رہنے والے‘‘ آپریشن کا اشارہ کیوں دیا؟ میری ناقص رائے میں سکھر کے اس بہت ہی سیانے سید نے یہ بیان محض اپنے حلقہ نیابت کو خوش کرنے کیلیے دیا تھا اور چلتے چلتے ذرا یہ بھی چیک کر لیا کہ رحمٰن ملک کی طاقت راجہ پرویز اشرف کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں بھی قائم و دائم ہے یا نہیں۔ اب تک انھیں واضح جواب مل گیا ہے۔ اسی لیے تو خاموش ہیں۔

بات بڑی سیدھی ہے، آصف علی زرداری اپنی بندۂ صحرائی والی یاداشت کی وجہ سے یہ بات بھول ہی نہیں سکتے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کے دوران کراچی میں ’’امن قائم‘‘ کرتے ہوئے ان کی جماعت نے کیا کچھ گنوایا تھا۔ وہ اس بار ایم کیو ایم کے ساتھ کسی بھی قسم کا پھڈا لینے کو ہرگز تیار نہیں۔ یقیناً یہ بات ان کی جماعت کو اندرون سندھ بڑی مہنگی پڑ رہی ہے۔ مگر آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کو ایم کیو ایم کے ساتھ ’’محبت‘‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والے نقصان کا فائدہ کون اُٹھانے کو تیار بیٹھا ہے۔ جی ہاں نواز شریف صاحب جو اب ’’اصولی سیاست‘‘ کو آہستہ آہستہ فراموش کرتے ہوئے پیر پگاڑا کے قریب آ رہے ہیں اور پیر صاحب کے اِرد گرد سندھ کے بہت سارے ’’وڈیرہ دشمن‘‘ ترقی پسند قوم پرست بھی جمع ہو رہے ہیں۔

اس اجتماع کی وجہ سے اندرونِ سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کو آیندہ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں یقیناً بڑی مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔ مگر اس صوبے میں اکثریتی جماعت جو بھی ہو ایم کیو ایم سے مخلوط حکومت بنائے بغیر ایک دن بھی چل نہ پائے گی۔ اسی لیے صدر زرداری کی نظر میں بہتر یہی ہے کہ فی الحال جو ہاتھ میں ہے اسی پر گزارا کیا جائے۔ دریں اثناء بیانات آتے رہیں گے۔ کبھی اِدھر سے کبھی اُدھر سے اور جب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ دوبارہ زور پکڑے گی تو ہم میڈیا والے بھی ایک آدھ ہفتہ اس کے بارے میں شور مچا کر خود کو بے گناہ شہریوں کے پاسبان ثابت کرتے ہوئے اپنی اپنی ریٹنگ بڑھانے یا کم از کم برقرار رکھنے کے شغل میں مصروف ہو جائیں گے۔ تھوڑے کو بہت جانو اور اسی تنخواہ پر گزارا کرو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔