اورحق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ

اقبال خورشید  منگل 14 جون 2016
 ایک پہلو اور، دونوں فریقین کے غلط ہونے سے عمرانی نقطہ نگاہ سے، معاملہ برابر نہیں ہوجاتا۔

ایک پہلو اور، دونوں فریقین کے غلط ہونے سے عمرانی نقطہ نگاہ سے، معاملہ برابر نہیں ہوجاتا۔

بدقسمت ہے وہ قوم، جس کی قیادت کرنے والوں کے لہجے کرخت ہوجائیں، اور منبر پر بیٹھنے والوںکی آوازوں میں درشتی در آئے۔ اور بدقسمتی کی انتہا یہ کہ وہ اپنی دشنام طرازی کا جواز گڑھ لیں، اور ان کی پیروی کرنے والے ان کا دفاع کرنے لگیں۔ کوئی بدقسمتی اس بدقسمتی سی نہیں۔

میڈیا میں لاکھ خامیاں، کئی سقم، مگر یہ خوبی ضرور کہ وہ ریٹنگ ہی کے لیے سہی، ہماری زندگیوں کے فیصلہ سازوں کا حقیقی چہرہ عیاں کردیتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہمارے قائدین کے افکار کیا ہیں، ان کی سوچ کیا، کس قسم کی زبان برتتے ہیں۔۔۔ ٹی وی نامی جادوئی ڈبے سے سب خبر ہوجاتی ہے۔ جو لفظ کارروائی سے حذف کر دیا جاتا ہے، وہ بھی ملک کے طول و عرض میں گونجتا رہتا، جیسے خواجہ آصف کے الفاظ گونج رہے ہیں۔

ٹاک شوز میں بھی کتنی ہی برائیاں، بے شمار خامیاں، مگر یہ اچھائی ضرور کہ شہرت ہی کے لیے سہی کہ ان کے وسیلے ہماری تقدیر اپنی مٹھی میں رکھنے والوں کے چہرے سے علمیت کا نقاب سرک جاتا ہے۔ جس برداشت کا وہ درس دیتے ہیں، آپ ہی اس کی نفی کر دیتے ہیں۔ جس فکر کے علمبردار، اسی کو تار تار کرتے نظر آتے ہیں ۔

بے شک یہ بات پریشان کن کہ شیریں مزاری سے متعلق تضحیک آمیز زبان استعمال کی گئی، مگر اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ شرفا کی اس مجلس میں کسی نے انھیں روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور تشویش ناک معاملہ یہ ہے کہ ان کے حواری اور حامی ان کے طرز عمل کا دفاع کرتے نظر آئے۔ خواجہ صاحب نے معافی تو مانگی، مگر عابد شیر علی کا تازہ بیان: ’’ٹریکٹر ٹریکٹر ہوتا ہے، ٹرالی ٹرالی، چاہے پارلیمنٹ میں ہو یا باہر!‘‘ اس جانب اشارہ کہ ہمارے سروں پر سوار حکمراں کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔

بے شک یہ بات پریشان کن کہ جمہوری اور مذہبی فکر کی ملک کے اعلیٰ ترین ایوان میں نمایندگی کرنے والے حضرات جب خاتون سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، مگر اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ وہ اس پر ذرا شرمندہ دکھائی نہیں دیتے۔ اور معاملے کا تشویش ناک پہلو یہ کہ ان کے حواری اور حامی ان کے طرز عمل کا دفاع کر رہے ہیں۔

’’اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ، اور سچی بات جان بوجھ کر نہ چھپاؤ!‘‘ (بقرہ)

خواجہ آصف کے ایشو پر خاصی بات ہوئی۔ اس پر آخری تبصرہ یہ کہ اس معاملے کو مکافات عمل ٹھہرانا، تحریک انصاف کے قائدین کے ماضی کے بیانات کا حوالہ دینا، جہاں انھوں نے خود بھی حد عبور کی، اس نفسیاتی بھنور کا عکاس، جس میں یہ قوم پھنس چکی ہے۔ ہم غلط کو غلط کہنے سے پہلے اس کا اپنی نظریاتی، مذہبی، لسانی اور صنفی وابستگی کے عدسے سے جائزہ لیتے ہیں، اور اسی عدسے کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ عمران خان کے سخت بیان بھی قابل مذمت، شیریں مزاری کے الفاظ بھی، مگر ان کی بنیاد پر خواجہ آصف کو رعایت دینا، معذرت کے ساتھ، ایک غیر متوازن رویہ ہے۔

حافظ حمداﷲ اور ماروی سرمد والا معاملہ تفصیل طلب  ہے  حافظ صاحب کے کچھ مداح ان کے طرز عمل پر جشن منا رہے ہیں۔ ان کے قائدین اور حواریوں پر بھی اطمینان بخش خاموشی چھائی ہے۔ اس فکر اور قبیلے کے سامنے دلیل اور منطق بے معنی، سو ان پر توانائی خرچ کرنا وقت کا ضیاع۔ دوسری جانب مذہبی بیانیہ کا قائل وہ علمی و فکری طبقہ، جو توازن اور دلیل کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ اس طبقے نے حافظ صاحب کے رویے کی شدید مذمت کی، البتہ ماروی سرمد کے طرز فکر اور نظریات پر تنقید بھی ضروری جانی۔

جو کچھ ہوا، اس میں خاتون کو بھی کو ذمے دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ آپ ان کے طرز عمل کو بدتمیزی کہہ سکتے ہیں، اس کی مذمت کرسکتے ہیں، اور یہ کافی ہوگا کہ وہ اس فکر کی ترجمان نہیں، جس کی تقلید عام لوگ کرتے ہیں۔ نہ ہی ان کی وہ اثر پذیری۔ نہ ہی عوام سے براہ راست تعلق۔ دوسری طرف حافظ صاحب ایک دینی شخص کی حیثیت سے خود کو شناخت کرواتے ہیں۔ ان کی تقلید کرنے والے ہزاروں ہوں گے۔ اثر پذیری زیادہ۔ وہ دین کی بات کرتے ہیں، اور عوام کی اکثریت دینی فکر کی حامل۔ یعنی ذاتی حیثیت میں، چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی عوام ان سے جڑتے ہیں۔

اور اسی تعلق کی وجہ سے مولانا کا طرز عمل زیادہ پریشان کن۔ ماروی صاحبہ کے رویے سے کس کی سبکی ہوئی؟ کیا اس گروہ کی، جنھیں مذہبی طبقہ طنزاً ’’لبرل فاشسٹ‘‘ کہتا ہے؟ ان کی تعداد ہی کتنی؟ مخالفین کے اپنے الفاظ میں: ’’مٹھی بھر لوگ!‘‘ مگر حافظ حمداﷲ کے رویے سے کس کی سبکی ہوئی؟ اس شخص کی، جو انھیں عالم دین سمجھتا ہے، ان سے جڑتا ہے۔ وہ شخص، جو خالص دینی فکر رکھتا ہے، ماروی صاحبہ کے رویے پر وہ خفت محسوس نہیں کرے گا، جو حافظ صاحب کے رویے پر محسوس کرے گا۔

ایک پہلو اور، دونوں فریقین کے غلط ہونے سے عمرانی نقطہ نگاہ سے، معاملہ برابر نہیں ہوجاتا۔ یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ فریقین کس فکر کی نمایندگی کرتے ہیں، کس تہذیبی اور فکری بیانیے کی علامت۔ اور یہاں معاملہ حافظ صاحب کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ جارج آرویل کے محاورے میں کہیں، تو اس معاملے میں اگر دونوں غلط، تو ایک کچھ زیادہ غلط ہے۔

مگر صاحبو، حافظ حمداﷲ اور خواجہ آصف کے طرز عمل سے زیادہ پریشان کن امر یہ کہ اس سماج میں انھیں ایسے حواری اور حامی میسر، جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتے ہیں، اور سچ بات جان بوجھ کر چھپاتے ہیں۔ بے شک ایسے لوگوں کے لیے خرابی ہے۔

’’کیا وہ نہیں جانتے کہ اﷲ جانتا ہے، جو وہ چھپاتے ہیں، اور جو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ (بقرہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔