آپ کی اپنی آخری رسومات

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 15 جون 2016

’’انجام کو ذہن میں رکھ کر شروع کریں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنا سفر اپنی منزل کے بارے میں واضح تصور کے ساتھ کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ علم ہونا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے آپ کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ آپ اب کہاں کھڑے ہیں تا کہ یہاں سے آپ جو قدم بھی اٹھائیں وہ آپ کو اپنی منزل کی طرف ہی لے کر جائیں ۔ آیے، اپنے ذہن میں سے ہر چیز نکال دیں اور اپنی پوری توجہ میری بات پر مرکوز کر دیں اپنے وقت، بزنس، خاندان، احباب وغیرہ کسی کے بارے میں بھی فکر مند نہ ہوں اور اپنے ذہن کو حقیقتاً کھلا رکھیں۔

اب آپ اپنے ذہن کی آنکھ سے اپنے آپ کو اپنے کسی پیارے کے جنازے پر جاتا دیکھیں، خود کو جنازے کی جگہ پر پہنچتا دیکھیں اور اپنی کار سے باہر آتا دیکھیں۔ آپ جب عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو پھول دیکھتے ہیں آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں آپ کا احساس زیاں وہاں موجود ہر شخص کے دل سے بہہ رہا ہے اور شنا سائی کے مہ وسال کی خوش کن یادوں سے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ احساس آپ کے دل میں بھر جاتا ہے جب آپ اس کمرے کے آخر میں پہنچتے ہیں اور تابوت میں جھانکتے ہیں تو اچانک آپ خود کو اپنے مقابل پاتے ہیں۔

یہ آپ کی اپنی میت ہے اور آخری رسومات کی تقریب ہے اور یہ تمام لوگ آپ کے لیے اپنی عزت کا اظہار کرنے اپنی محبت نچھاور کرنے اور آپ کی بھرپور زندگی کی یاد میں یہاں اکھٹے ہوئے ہیں آپ رسومات کے شروع ہونے کے انتظار میں جب اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو آپ کی نظر اپنے ہاتھ میں رسومات کے پروگرام کی کاپی پر پڑتی ہے تقریب میں چار مقرر ہونگے۔ پہلا آپ کے خاندان سے قریبی یا دور کا بچوں، بھائیوں، بہنوں، بھانجے، بھتیجوں ، چچاؤں، خالاؤں، کزنز اور بزرگوں میں سے کوئی جو سارے ملک کے طول و عرض سے آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں دوسرا مقرر آپ کے دوستوں میں سے کوئی ہو گا جو کہ آپ کی شخصیت پر روشنی ڈال سکے۔

تیسرا مقرر آپ کے پیشے سے متعلق ہو گا اور چوتھا آپ کی عبادتگاہ یا پھر کسی ایسے فلاحی ادارے سے کہ جہاں آپ اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ اب ذرا گہرائی سے سوچئے آ پ ان تمام مقررین کے منہ سے اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں کیسی باتیں سننا پسند کرینگے۔ آپ بحیثیت خاوند، بیوی، باپ اور ماں کے ان لوگوں سے کس قسم کے الفاظ کی توقع کرینگے کہ آپ کس قسم کے بیٹے یا بیٹی یا کزن تھے کیسے دوست تھے اور کس قسم کے ساتھی تھے۔ آپ کیا چاہیں گے کہ یہ لوگ آپ کے کردار کے کن او صاف کو دیکھتے؟ آ پ کے خیال میں انھیں آپ کے حوالے سے کیسی خدمات اور کامیابیاں یاد ہونی چاہیں، اپنے گرد جمع لوگوں کو ذرا بغور دیکھیں آپ نے ان کی زندگیوں میں کس قسم کا فرق پیدا کیا ہے اگر آپ سنجیدگی سے اوپر بیان کردہ تجربے سے گزرے ہیں تو آپ نے چند لمحوں کے لیے اپنی بنیادی اور گہری اقدار کو چھوا ہے۔

جوزف ایڈیسن کے ادا کردہ الفاظ پڑھتے ہیں ’’میں جب عظیم لوگوں کے مزاروں کو دیکھتا ہوں تو میرے اندر حسد کے تمام جذبات مر جاتے ہیں جب میں حسین لوگوں کے کتبے پڑھتا ہوں تو میری تمام نامناسب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں، جب میں قبروں پر والدین کو غم سے روتے دیکھتا ہوں تو میرا دل فرط جذبات سے پگھل جاتا ہے اور جب میں والدین کی اپنی قبریں دیکھتا ہوں تو میں ان لوگوں کے دکھ اور انا کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہم نے بھی چلے جانا ہے، جب میں بادشاہوں کو ان کے سازشیوں کے ساتھ قبروں میں لیٹے دیکھتا ہوں۔ فریقین کو زمین بوس دیکھتا ہوں اور یا پھر ان مذہبی جنونیوں کی قبریں ملاحظہ کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے دنیا کو کار زار بنا دیا تھا تو میں حیرانی اور غم کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں، مقابلوں، فرقوں اور انسانیت کے بارے میں بحثوں کے بارے میں سوچتا ہوں جب میں کتبوں پر لکھی تاریخیں پڑھتا ہوں جن میں سے کچھ کل فوت ہوئے تھے اور کچھ چھ سو سال پہلے، تو میں اس عظیم دن کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جب ہم سب ہمعصر بن کر اکھٹے زندہ کیے جائینگے‘‘۔

ہم زندگی کی گو ناگوں مصروفیات میں الجھے رہتے ہیں اور کامیابی کی سیڑھی پر بڑی محنت سے زینہ بہ زینہ اوپر چڑھنے میں لگے رہتے ہیں اور آخرکار ہم دریافت کرتے ہیں کہ ہماری سیڑھی ایک غلط دیوار کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی اکثر ہم اپنی حاصل کردہ کامیابیوں کو اندر سے کھوکھلا پاتے ہیں ہمیں اچانک احساس ہوتا ہے کہ یہ تمام کامیابیاں ان چیزوں سے کہیں چھوٹی ہیں جن کی قیمت پر انھیں حاصل کیا گیا ہے اگر آپ غور کرینگے کہ آپ حقیقتاً اپنی آخری رسومات کے دوران لوگوں کے منہ سے اپنے بارے میں کیا سننا چاہیں گے تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو اور آپ کی تمام جدوجہد کے مطمع ہائے نظر یعنی شہرت، عہدے، کامیابی، دولت اور ایسی دوسری چیزیں اس تعریف میں موجود ہی نہ ہوں۔

کرشن چندر نے لکھا تھا ’’حیرت ہے کہ ہم لوگ ہرچیزکو اس زاویہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں‘‘ اس میں فائدہ ہے، کوئی فائدہ ہے، کتنا فائدہ ہے، کیونکر فائدہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس فائدے کے چکر میں خوشی گنوا بیٹھے ہیں اس لیے کہ آخر خوش رہنے میں فائدہ ہی کیا ہے جب کہ سیموئیل جانسن کہتا ہے کہ ’’اطمینان کے سوتے ذہن سے پھوٹتے ہیں اور انسان فطرت کے بارے میں وہ کم علم جو اپنی بجائے دوسری چیزوں کو تبدیل کر کے خو شیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں وہ نہ صرف اپنی تمام کوششوں کو ضایع کرتے ہیں بلکہ ان ہی غموں کو اپنے لیے بڑھا لیتے ہیں کہ جن کو ختم کرنے کے لیے وہ ساری جدو جہد کر رہے ہوتے ہیں‘‘ یاد رکھیں خواہشات اندھا کنواں ہوتی ہے۔ ایک دفعہ جب آپ اندھے کنویں میں اتر جاتے ہیں تو پھر واپسی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں اور پھرآپ ساری زندگی اسی اندھے کنویں کی دیواروں سے اپنا سر پھوڑتے رہتے ہیں اور آخر میں آپ کو زخموں کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہو پاتا ہے اور پھر آپ کے جنازے پر آپ کا ایک دوست دوسرے سے پوچھتا ہے ’’اس نے کیا چھوڑا ہے‘‘ تو پہلا دوست جواب میں کہتا ہے ’’اس نے سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔