قرآن فہمی

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 15 جون 2016
advo786@yahoo.com

[email protected]

وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت نے قرآن پاک کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل میں قرآن کریم کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے وزیر تعلیم نے بتایا کہ پہلی سے پانچویں جماعت تک تمام بچوں کو قرآن پاک ناظرہ پڑھایا جائے گا، چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے طلبا کو قرآن پاک کی ترجمے کے ساتھ تعلیم دی جائے گی۔ ساتویں سے دسویں جماعت تک قرآن مجید میں بیان کیے گئے واقعات پڑھائے جائیں گے۔ دسویں سے بارہویں جماعت تک مسلمانوں کو دیے گئے احکامات پر مشتمل سورتیں ترجمے کے ساتھ پڑھائی جائیں گی ہر جماعت میں قرآن مجید کی تعلیم سے متعلق 15 منٹ کا خصوصی پیریڈ رکھا جائے گا۔ وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تمام صوبوں سے تجاویز مانگ لی گئی ہیں جب کہ عملدرآمد کے لیے تمام صوبوں کو ہدایات بھیج دی گئی ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے وزارت تعلیم کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کونسل کی جانب سے تحقیق میں مکمل معاونت اورتعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بچہ 5 سال میں قرآن پڑھ لے گا۔اس کے والدین قرآنی تعلیم پر آنے والے اضافی خرچے سے بھی بچ جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں فائنل ڈرافٹ بنا کر اسلامی نظریاتی کونسل اور تمام صوبائی حکومتوں کو بھیج دیا گیا ہے۔

نزول قرآن کے بابرکت اور مقدس ماہ رمضان میں حکومت کی جانب سے قرآن پاک کو تعلیمی نصاب میں شامل اور ترجمے کے ساتھ اس کی لازمی تعلیم کی خبر ایک خوش آیند بات بڑا اقدام ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک مشکل ترین ہدف بھی ہے۔ آج کل بھی قلیل تعداد میں ایسے اسکول موجود ہیں جہاں تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تعلیم کا بندوبست بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے والدین بچوں کو علیحدہ سے مسجد، مدرسہ بھیجنے یا ٹیوشن لگانے کے اخراجات و درد سر سے بچ جاتے ہیں۔

حکومتی اعلان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ناظرہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ چھٹی جماعت سے طلبا کو قرآن پاک کی ترجمے کے ساتھ تعلیم دی جائے گی لیکن اس سلسلے میں اس کے پیریڈ کا دورانیہ جو 15 منٹ رکھا گیا ہے بہت کم ہے اسے بڑھانا ہو گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم معاشی تگ و دو اور رتبہ ومقام کے لیے دنیاوی تعلیم کے لیے تو نصف عمر خرچ کردیتے ہیں لیکن بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد قرآن بھی نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض ناخواندہ قرآن پاک پڑھ کر شرح خواندگی میں اضافے کا سبب ضرور بن جاتے ہیں ایک قابل غور اور افسوسناک پہلو یہ ہے قرآن پاک دنیا میں بے سوچے سمجھے پڑھی جانے والی سب سے بڑی کتاب ہے۔ اس کے متعلق ایک عام تاثر یہ قائم کرلیا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے سے نیکیاں اور ثواب ملتا ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ قرآن کریم بنا سوچے سمجھے بھی پڑھا جائے تو بھی ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ ق

رآن کریم ہدایت کی کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ہم نے قرآن کو آسان کردیا توکوئی ہے جو نصیحت اخذ کرنا چاہے‘‘ قرآن میں اس بات کی بار بار تکرار ملتی ہے کہ ’’لوگ غورکیوں نہیں کرتے یہ لوگ غورکیوں نہیں کرتے۔‘‘ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور ہر ہر پہلو غوروفکرکا متقاضی ہے، اس پر غوروفکر سے عقل کے دریچے کھلتے ہیں اور ذہن کو وسعت وجلا ملتی ہے۔ بعض دنیاوی علوم، مضامین، تحریریں بار بار پڑھے جاتے ہیں تو ہر بار سوچ کے نئے باب اور نئے زاویے کھلتے ہیں تو پھر خالق کائنات کا عطا کردہ بڑا انعام اور نسخہ کیمیا پر غوروخوص، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے کون سے فیوض وبرکات اور ثمرات ان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے ۔نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ قرآن کائنات میں انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام اور عظیم احسان ہے، جسے الطاف حسین حالی یوں بیان کرتے ہیں:

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس نسخہ کیمیا کو استعمال میں لانے اس سے استفادہ کرنے کے بجائے بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ غلاف میں لپیٹ کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے جسے خاص مواقعوں پر پڑھنے کے لیے نکالا جاتا ہے سمجھنے کے لیے نہیں، اس کو جن بھوت بھگانے، دشمن سے محفوظ رہنے اور روزگار میں برکت کے لیے گھروں، دفتروں، دکانوں میں رکھا جاتا ہے۔ حلف اٹھانے کے لیے بلاتردد استعمال میں لایا جاتا ہے۔ شادیوں میں قرآنی احکامات کی صریحا خلاف ورزی کرنے کے بعد نصف شب کو بیٹیوں کے سروں پر رکھ کر رخصت کر دیا جاتا ہے اس خواہش اور تمنا کے ساتھ کہ قرآن کی برکت اور سایے میں بیٹی سکھی اور خوش رہے گی۔

حالانکہ قرآن کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ تصرف و اسراف نہ کرو، نمود و نمائش نہ کرو، بے حیائی و بے پردگی نہ کرو، بلاوجہ رات گئے تک نہ جاگو، معاملات میں ایک دوسرے سے غلط بیان نہ کرو اور شادیوں میں عموماً ان قرآنی تعلیمات و تقاضوں سے روگردانی کرکے ڈھٹائی یا لاعلمی کے ساتھ بیٹی کے ساتھ قرآن کو رخصت کر دیا جاتا ہے۔قرآن تو ہدایت و نصیحت اور عمل کرنے کی کتاب ہے جس کا حق ہے کہ اسے مانا جائے، اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے جس کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ اے لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی اور تمہارے سینوں میں جو روگ ہیں ان کی دوا بھی آگئی۔ مسلمان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے گھر میں طبیب بھی ہے اور دوا بھی موجود ہے مگر وہ اس سے غافل و لاتعلق ہیں اسی وجہ سے ذلت، پریشانیوں اور مصائب کا شکار ہیں جس کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں جس میں قرآن پاک کا نزول ہوا ہم دن رات نمازوں و نوافل میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا مانگتے ہیں۔ اگر ہدایت کی کتاب جو ہر جگہ ہر وقت میسر ہے محض پڑھنے کی بجائے سمجھنے کی کوششیں شروع کردیں ۔ اس کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں تو ہماری زندگیوں اور معاشرے میں بڑی انقلابی تبدیلیاں اور اصلاحی عمل شروع ہوجائے۔اخبارات میں روزانہ قرآن پاک کی چند آیتیں ترجمے کے ساتھ شایع ہوتی ہیں لیکن ہم ان سے صرف نظر کرکے تمام اخبار پڑھ کر ردی کی نظر کر دیتے ہیں اگر ہم یہ عادت بنا لیں کہ اخبار میں سب سے اوپر جو قرآنی آیات تحریر ہوں اخبار بینی کی ابتدا وہیں سے کریں اس طرح ہمیں بغیر کسی اضافی محنت کے قرآن فہمی کی سہولت میسر آ سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔