ضربِ عضب کا تیسرا سال اور شہید میجر چنگیزی

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 17 جون 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سرکارِ دوعالمؐ کی پسندیدہ ترین تلواروں میں سے ایک، عضب، کے نام سے شروع کیا گیا دہشت گردوں کے خلاف یہ آپریشن دو سال مکمل کرنے کے بعد اب تیسرے سال میں قدم رکھ چکا ہے۔ ضربِ عضب آپریشن کے نام ہی میں اتنی برکت تھی (اور ہے) کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک ایک قدم پر اس نے کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹی ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کار اس ملٹری آپریشن کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے لیکن دشمنانِ پاکستان کا ہر نفسیاتی ہتھکنڈہ بھی ناکام بنا دیا گیا۔ لاریب ضربِ عضب کے حوالے سے عالمی میڈیا اور نفسیاتی محاذوں پر بھی آئی ایس پی آر نے کامیاب جنگ لڑی ہے۔

اس میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑنے پر افواجِ پاکستان کے اس شعبے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور ان کے تمام رفقائے کار کو شاباش نہ دینا اور ان کی ستائش نہ کرنا انصاف نہ ہو گا۔ بھارتی ’’را‘‘ اور افغانی ’’این ڈی ایس‘‘ نے مل کر اس آپریشن کو ناکام بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی لیکن اللہ نے ان کے مقدر میں شکست اور خاک چاٹنا ہی لکھا۔ آج ٹھیک دو برس گزرنے کے بعد ہماری فورسز کی کامیابیوں کا گراف یوں سامنے آیا ہے کہ ساڑھے تین ہزار دہشت گردوں کی گردنیں قلم کر دی گئی ہیں، زیرِ آپریشن علاقے میں سات ہزار اسلحہ ساز فیکٹریاں تباہ ہو چکی ہیں اور شمالی وزیرستان میں امن کا پرچم لہرا رہا ہے۔

فتحیابی کے ان اطمینان بخش لمحات سے ہمکنار ہونے کے لیے اگرچہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے تقریباً پانچ سو افسروں اور جوانوں کو اپنی بیش قیمت جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا ہے۔ وطنِ عزیز میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ہماری سیکیورٹی فورسز کے جوان اور افسر واقعی معنوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کارزار میں اترے۔ دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ اس لیے بھی مشکل اور قدرے پیچیدہ تھی کہ دشمن ہمارے ملک کے بعض مخصوص حصوں میں اس طرح چھپ کر بیٹھ گیا تھا جیسے جنگل میں سبز سانپ چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور موقع ملتے ہی ڈس لیتا ہے۔ فاٹا کے تقریباً تمام علاقے ہی اس ’’سبز سانپ‘‘ کی آماجگاہ اور کمین گاہ بن گئے تھے۔

اس کا سر کچلنے کے لیے ہماری سیکیورٹی فورسز نے، ضربِ عضب سے قبل بھی، کئی ملٹری آپریشن کیے۔ ان میں چھ آپریشن تو بہت ہی قابلِ ذکر ہیں: آپریشن المیزان، آپریشن زلزلہ، آپریشن شیر دل، آپریشن راہ راست، آپریشن راہِ حق اور آپریشن راہِ نجات۔ ان نصف درجن ملٹری آپریشنوں کے باوجود جو خامیاں اور کمیاں رہ گئی تھیں، انھیں دور کرنے اور دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے ’’ضرب عضب‘‘ کو بروئے کار لایا گیا۔ اس کا زیادہ ہدف اور مرکز شمالی وزیرستان کو بنایا گیا جسے دہشت گردوں نے اپنی ’’جنت‘‘ بنا لیا تھا اور دنیا کو تصور دیا تھا کہ وہ ناقابلِ شکست بھی ہیں اور ناقابلِ تسخیر بھی۔ اللہ کا نام لے کر جنرل راحیل شریف کی عسکری قیادت اور وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی سیادت میں دو سال قبل ’’ضربِ عضب‘‘ کا آغاز کیا گیا تو بہت سی منافق قوتوں نے ڈرایا بھی تھا لیکن گزشتہ دو برس کی مسلسل کامیابیوں نے ثابت کیا ہے کہ افواجِ پاکستان کا فیصلہ درست تھا اور منافقوں کا پھیلایا گیا ڈر اور خوف بے بنیاد۔ ہماری سیکیورٹی فورسز نے ’’ضرب عضب‘‘ کے پرچم تلے شمالی وزیرستان میں القاعدہ کو بھی شکست دی ہے اور ٹی ٹی پی کی مختلف شاخوں کو بھی۔ چیچن اسلامک جہاد یونین کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور کیا ہے اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے خونخوار وابستگان کی بھی مکمل کمر توڑ دی گئی ہے۔

امارتِ کوہ قاف کے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بھی مکمل تباہ کر دی گئی ہیں اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے نابکاروں کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ جو بچ گئے ہیں، ضربِ عضب کے تیسرے سال کے شروع ہوتے ہی ان کا سر بھی کچل دیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف شروع کیے گئے ضرب عضب آپریشن میں ہمسایہ برادر ملک، افغانستان، بھی ہماری مدد کرتا کہ دہشت گردی ہم دونوں ممالک کا مشترکہ عذاب ہے لیکن شو مئی قسمت سے افغانستان نے اس سلسلہ میں پاکستان سے تعاون کرنے کے بجائے اس آپریشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ اس سازش میں کونسی قوتیں اور ممالک افغانستان کی اعانت کر رہی تھیں اور کر رہی ہیں۔

ضربِ عضب کی دو سالہ کامیابیوں نے ان قوتوں کو یہ مؤثر پیغام پہنچا دیا ہے کہ ان کے معاندانہ اقدامات کے باوجود پاکستان اللہ کے فضل سے آگے بڑھنے اور اپنے دشمنوں کا اکیلے ہی سر کچلنے کی صلاحیتوں سے متصف ہے۔ افغانستان اور افغان عوام پر پاکستان کے لاتعداد احسانات ہیں اور یہ احسانات اب بھی یوں جاری ہیں کہ پاکستان نے چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کر رکھا ہے۔

اس بوجھ نے ہماری معاشی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے اور ہمارا سماجی تانا بانا بھی ادھیڑ کر رکھ دیا ہے لیکن افغانستان نے پاکستان کے احسانات کا شکر گزار ہونے کے برعکس پاکستان کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کی بار بار کوشش کی ہے۔ تازہ چُھرا اس شکل میں گھونپا گیا ہے کہ طورخم سرحد پر افغان فورسز نے پاکستان کے ایک میجر علی جواد چنگیزی کو شہید اور ایک کیپٹن سمیت متعدد پاکستانی فوجیوں کو شدید زخمی کر دیا ہے۔ یہ اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس کا بدلہ لیا جانا چاہیے، جیسا کہ ہمارے وزیرِدفاع نے اعلان بھی کیا ہے۔ خدا کرے اس اعلان میں عمل کا رنگ بھی جلد ہی بھر دیا جائے۔ اس سے قبل ایل او سی اور پاک بھارت سرحد پر کئی بار فائرنگ ہوتی رہی ہے لیکن بھارتی گولیوں سے افواجِ پاکستان کا کبھی اتنا سینئر افسر شہید نہیں ہوا۔ یہ ظلم افغانستان نے کیا ہے۔ کیا اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے گا؟

یہ سانحہ عظیم ہمیں یہ سبق بھی دے گیا ہے کہ ضربِ عضب آپریشن کو ابھی رکنا نہیں، بلکہ اسے مزید آگے بڑھنا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملٹری آپریشن مطلق طور پر کامل نہیں ہوتا۔ کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں خامی رہ  جاتی ہے۔ ممکن ہے ’’ضربِ عضب‘‘ آپریشن میں بھی کوئی خامی رہ گئی ہو۔ ہمارے نقادوں اور نقص نگاروں کی ایسی ناکامیوں پر ہمہ وقت اور ہمیشہ نظر رہتی ہے۔ امریکی دارالحکومت، واشنگٹن، میں بروئے کار تھنک ٹینک (The  Jamestown  Foundation) ایسے ہی ’’لوگوں‘‘ میں شمار ہوتا ہے۔ اس ادارے نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں جہاں ’’ضربِ عضب‘‘ کی عظیم کامیابیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے، وہیں اس کی ’’ناکامیوں‘‘کی نشاندہی بھی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس شاندار آپریشن کے باوجود بعض بڑی مچھلیاں جال سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

ایسا اگر نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ تھنک ٹینک ’’دی جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن‘‘ نے ’’ضربِ عضب‘‘ سے بچ جانے والی ان دہشت گرد مچھلیوں میں سے چار کے نام بھی گنوائے ہیں۔ درست، مگر بکرے کی ماں بھلا کب تک خیر منائے گی؟ پورے ملک کے بیس کروڑ عوام کی دعائیں ہماری جری سیکیورٹی فورسز اور ’’ضربِ عضب‘‘ کی کامل کامیابیوں کے لیے جاری ہیں؛ چنانچہ امید رکھی جانی چاہیے کہ ’’ضربِ عضب‘‘ کے شروع ہونے والے اس تیسرے برس کے دوران ہی یہ بچ جانے والی مچھلیاں بھی جال میں پھنسیں گی اور ضرور پھنسیں گی۔ زندہ یا مردہ، ہر دو صورتوں میں!!

نوٹ: گزشتہ روز شایع ہونے والے کالم بعنوان ’’عظیم ادبی شخصیت کو خراجِ تحسین و عقیدت‘‘ میں پروف کی چند غلطیوں کاقارئینِ کرام نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ خصوصاً لاہور سے پروفیسر احمد خلیق اور ڈاکٹر سبحان، سیالکوٹ سے جناب عبدالخالق اور کراچی سے محبوب خان قادری صاحب نے نشاندہی کی ہے۔ ایک قاری محترم مظہر عارف نے لکھا ہے کہ کالم میں قاسمی صاحب کو ’’صاحبہ‘‘ لکھ دیا گیا ۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی دعائیہ غزل کا مصرعہ، جسے کالم میں شامل کیا گیا ہے، بھی اکثر اوقات غلط پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’خدا کرے مری ارضِ پاک پر اترے‘‘ دراصل یوں ہے: ’’خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے۔‘‘ اس میں ’’کہ‘‘ خارج کرکے مصرعے کی کمر توڑی دی جاتی ہے۔ محترم قارئین نوٹ فرمالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔