عمران خان پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک چکے ہیں، جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد

اقبال خورشید / اشرف میمن  اتوار 19 جون 2016
عدلیہ اور سیاست میں اصول پسندی کی علامت، جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد سے خصوصی ملاقات ۔ فوٹو : فائل

عدلیہ اور سیاست میں اصول پسندی کی علامت، جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد سے خصوصی ملاقات ۔ فوٹو : فائل

راست گوئی، اصول پسندی، جرأت و بے باکی؛ یہ خصوصیات کم یاب ہوئیں کہ یہ شاہ راہ بڑی دشوار۔ کم ہی لوگ اس کا رخ کرتے ہیں۔ بڑی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مگر سچ کے کچھ متوالے، کچھ انصاف پرست ایسے بھی ہوتے ہیں، جو کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اور اطمینان کی بات یہ کہ ہمیشہ اپنی جہد کا صلہ پاتے ہیں، خود سچائی اور اصول پسندی کی علامت بن جاتے ہیں۔

یہی معاملہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا۔ جنوری 2000 میں پی سی او کی صورت ایک کڑا امتحان درپیش تھا، آمر اپنے جاہ وجلال کے ساتھ سامنے کھڑا تھا۔ اُنھوں نے کلمۂ حق کہا، اور سرخ رو ہوئے۔ پی سی او پر حلف نہ لینے کی ’’پاداش‘‘ میں عہدے سے محروم ہونا پڑا، مگر ان کے اپنے الفاظ میں وہ سرشاری کی ایک ایسی کیفیت تھی، جس کا نعم البدل کچھ نہیں۔ انسان زمین پر پاؤں رکھتا ہے، تو اپنے وجود کو خوشی سے لبریز محسوس کرتا ہے۔‘‘

وجیہہ الدین احمد عدلیہ میں اصول پسند کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ معزز اور قابل احترام شخصیات کی فہرست بنے، تو ان کے بغیر نامکمل ٹھہرے۔ وکلا تحریک میں شامل ہو کر اُسے وقار بخشا۔ پرویزمشرف کے خلاف بڑی شان سے صدارتی الیکشن لڑا۔ ایمرجینسی لگی، تو اس کے پیچھے بھی اُن کی دائر کردہ پٹیشن تھی۔

سیاست بڑے بڑوں کو بدل دیتی ہے، مگر جسٹس صاحب کا معاملہ دیگر۔ تحریک انصاف میں شامل ضرور ہوئے، مگر اپنی شرائط پر۔ ہمیشہ اصولوں کو مقدم جانا۔ پارٹی کے الیکشن ٹریبونل کے سربراہ ہوئے، تو کڑی جانچ کی۔ بلاخوف و خطر اُن افراد کی نشان دہی کی، جنھیں وہ انٹرا پارٹی الیکشن میں کرپشن کا ذمے دار پاتے تھے۔ پارٹی قیادت نے جب ان افراد سے جان نہیں چھڑائی، تو خود ہی کنارہ کش ہوگئے۔ کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر اس تناظر میں ایک طویل گفت گو ہوئی، جس میں کئی اہم معاملات زیربحث آئے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

ایکسپریس: فخر الدین جی ابراہیم ایک غیرمتنازع آدمی تھے، 2013 کے انتخابات میں کون سے سقم تھے، جنھوں نے انھیں متنازع بنا دیا؟
جواب: فخر الدین جی ابراہیم ہوں یا اُس دور کے دیگر ججز، وہ انتہائی باصلاحیت لوگ تھے۔ ان کی Honesty کا معیار بلند تھا۔ فخر الدین صاحب کے بارے میں نہیں کہہ رہا، اس دور کے کچھ لوگوں میں مجھے جو کم زوری نظر آئی، وہ یہ تھی کہ کبھی کبھار ان کے فیصلوں میں طاقت کے مراکز کی جانب جھکاؤ محسوس ہوتا تھا۔ جیسے مولوی تمیزالدین کیس ہے یا بیگم نصرت بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کیس۔ جہاں اس دور کے ججز میں یہ خوبیاں دیکھیں، وہیں یہ خامی بھی نظر آئی، جس کے بہت خطرناک نتائج نکلے۔ جہاں تک تعلق ہے، گذشتہ انتخابات کا۔ جو کچھ ہوا، اس کی ذمے داری صرف فخر الدین جی ابراہیم پر نہیں، الیکشن کمیشن کے دیگر ممبران پر بھی عاید ہوتی ہے۔

آپ نے اس طرح کے اقدامات کیوں نہیں کیے، جو فل پروف ہوتے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انھوں نے گول خالی چھوڑ دیا تھا۔ اقدامات کیے، مگر فل پروف نہیں کیے۔ اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن کے اسٹاف اور بیوروکریسی پر آتی ہے۔ مجھے الیکشن انتظامات کا بڑا محدود تجربہ ہے۔ جب تارڑ صاحب کا صدارتی انتخاب تھا، تو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو صوبائی اسمبلی میں ریٹرننگ آفیسر تعینات کیا گیا، میں اس زمانے میں سندھ میں چیف جسٹس تھا، تو یہ ذمے داری میں نے بھی سنبھالی۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ یہ بہت بڑا کام ہے۔

حقیقت میں یہ کوئی کام تھا ہی نہیں۔ سارا کام صوبائی الیکشن کمیشن کے اسٹاف نے سنبھال لیا۔ میرے پاس کاغذات آجاتے تھے، دست خط کرنے کے لیے۔ الیکشن والے دن سندھ، اسمبلی چلا گیا۔ بڑا اعزاز ہے کہ اس کرسی پر بیٹھا، جس پر کبھی قائداعظم بیٹھے تھے۔ الیکشن کا عمل دیکھا، اسپیکر کے چیمبر سے مانیٹرنگ کی۔ مگر یہ جنرل الیکشن سے بالکل الگ تجربہ تھا۔ الیکشن کمیشن پر بھاری ذمے داری ہوتی ہے، خاص طور پر جب ملک میں الیکشن ہونے جارہے ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک Official conduct ہوتا ہے، جس کے بہاؤ میں الیکشن کمیشن کا اعلیٰ اسٹاف بہ سکتا ہے۔ اور شاید یہی ہوا۔

ایکسپریس: اگر ذمے داروں کا تعین کرنے کا اختیار آپ کے پاس ہو۔۔۔؟
جواب: الیکشن سے پہلے جو کچھ ہورہا تھا، اس کی میں Minimal ذمے داری فخرالدین جی ابراہیم اور ان کے اسٹاف کو دوں گا۔ ان پر بڑی ذمے داری اس وقت آئی، جب 11 مئی 2013 کے بعد بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات سامنے آئے۔ جو پارٹیاں کام یاب نہیں ہوسکیں، سب ہی نے سوال اٹھایا۔ یہ وہ وقت تھا، جب پوری مستعدی کے ساتھ دیکھنا تھا کہ کیا غلط ہوا ہے۔ انتظار کی ضرورت نہیں تھی کہ پٹیشن دائر ہو، ٹریبونل بنے، No! جب اس طرح کے الزامات ہوں، آپ فوراً مستعدی سے کھڑے ہوجائیں۔

یہ نہیں ہوا۔ فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دینا چاہیے تھا، ایسا استعفیٰ راہ فرار سمجھا جاتا ہے۔ میں اس طرح کے استعفے کی بات نہیں کررہا، جو انھوں نے ضیاء دور میں دیا، یا ہم نے مشرف دور میں دیا، وہ الگ چیز تھی۔ وہ تو یہ تھا کہ اگر آپ عدالت میں بیٹھے، تو آپ کو مجبور کیا جائے گا، وہ کام کرنے کے لیے، جو انصاف کے خلاف ہے۔ یہاں معاملہ الگ تھا۔ استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ شاید اپنی عمر کی وجہ سے انھوں نے محسوس کیا ہو کہ میں اس تنازع میں کیا پڑوں۔

ایکسپریس: افتخار چوہدری صاحب نے بھی اپنی پارٹی بنالی ہے، اس کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
جواب: دیکھیں، پارٹی بنانا آسان ہے۔ جب ہم ازخود ریٹائرمینٹ لے کر آئے تھے، پی سی او پر حلف نہیں لیا تھا، تو اس طرح کے خیالات ہمارے ذہن میں بھی آئے۔ لوگ بھی کہتے تھے۔ وہ شعر ہے:

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانا بنا دیتے ہیں

مگر میں نے سوچا، سیاسی جماعت بنانا، اسے چلانا، ایک عرصہ چاہیے۔ کوئی سیاسی شدھ بد بھی ہونی چاہیے۔ ہمارا وہ تجربہ نہیں ہے۔ مگر one way or the other سیاست سے Interact کرنے کا موقع ملا۔ پرویزمشرف کے خلاف کمپین چلی۔ وکلا نے ہمیں صدارتی امیدوار نام زد کیا۔ ملک کے طول و عرض میں وکلا کو address کرنا پڑا۔ دیگر اہم طبقات سے رابطہ ہوا، تو محسوس یہ ہوا کہ کوئی نہ کوئی پارٹی تو جوائن کرنی چاہیے۔ مجھے تو تمام جماعتوں کی جانب سے پیش کش ہوئی تھی۔ مجھے نظر آیا کہ تحریک انصاف کا ایک وژن ہے، یہ اصولوں کی سیاست کی بات کر رہے ہیں، مگر میں نے تحریک انصاف کی اپروچ کو بھی دیر تک Resist کیا۔ معراج محمد خان میرے پاس تشریف لائے۔ اشارتاً بات ہوئی۔

بعد میں علوی صاحب اور نعیم الحق سے رابطہ ہوا۔ خیر، پارٹی میں شامل ہوا، مگر (زور دیتے ہوئے) میرا وہ تجربہ بھی کام یاب نہیں ہوا۔ جو حالات دیکھے، ان پر تعجب زیادہ افسوس کم ہوا۔ میں توقع نہیں کررہا تھا۔ اب (توقف کرتے ہوئے) میں پارٹی میں تو ہوں، مگر کنارہ کش ہوں۔ تو اب کم و بیش یہی صورت حال افتخار چوہدری صاحب کی ہے۔ ان کی تو عمر بھی اُس سے زیادہ ہے، جس عمر میں مَیں واپس آیا تھا۔ تو مشکل کام ہے، لیکن انھوں نے ایک کام شروع کیا ہے۔ اگر ان کے ساتھ اچھے لوگ شامل ہوجائیں، تو شاید حال میں اچھے نتائج نہ ہوں، آگے اچھے نتائج کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے، جب کوئی جج سیاسی جماعت کو Presid کر رہا ہوتا ہے، اسے سمجھ لینا چاہیے یہ کسی عدالت کو Presid کرنے سے یک سر مختلف ہے۔

ایکسپریس: لوگ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنا مزاج کچھ تبدیل کیا ہے، آپ اُن سے ملے ہیں اِس عرصے میں؟
جواب: نہیں، میں ان سے ابھی تو نہیں ملا۔ مزاج میں تبدیلی فوری نہیں آتی، مگر دھیرے دھیرے آ جائے گی۔ عدالت کا ماحول اور ہوتا ہے۔ آپ سول جج بھی ہوں، جس وقت آپ عدالت میں داخل ہوتے ہیں حوالدار آمد کا اعلان کرتا ہے، ڈائس پر پہنچتا ہے، کرسی کھینچتا ہے، پانی پہلے ہی رکھا ہوتا ہے، ہر شخص آپ کے سامنے جھک رہا ہوتا ہے، وہ بالکل الگ معاملہ ہوتا ہے۔

ایکسپریس: ایک زمانے میں افتخار چوہدری کو ’’ایجنٹ آف چینج‘‘ کہا جاتا تھا، عوام ان کے ساتھ تھے، مگر آج علی احمد کرد اور حامد خان جیسے وکلا کے نمایندوں کی عدم موجودی، آپ جیسی معزز شخصیات اور سول سوسائٹی کا نہ ہونا۔۔۔ یوں لگتا ہے، ان کی پارٹی اسٹڈی سرکل بن کر رہ جائے گی!
جواب: آپ بات کر رہے ہیں اس دور کی، جب 9 مارچ 2007 کو پرویز مشرف نے افتخار چوہدری صاحب کو معطل کردیا تھا۔ اس تحریک میں ہم بھی شامل تھے۔ پھر وہ ایک اور تحریک میں ڈھل گئی، جب 3 نومبر 2007 کو پرویزمشرف نے ایمرجینسی لگا دی۔ اور اِس لیے لگائی کہ میں نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ یہ تو وردی میں ہیں، الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔

انھیں (پرویزمشرف) خدشہ تھا کہ فیصلہ آئینی طور پر ان کے خلاف جائے گا۔ آئین میں اس کی گنجائش نہیں کہ کوئی شخص آرمی چیف بھی ہو، اور الیکشن بھی لڑے۔ تو میری پٹیشن کے خوف سے ایمرجینسی لگاکر تمام ججز کو فارغ کردیا۔ اب دوسری تحریک شروع ہوئی۔ وہ ایک الگ موضوع ہے، اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی، میں یہ کہوں گا کہ وہ مختلف وقت تھا۔ عدلیہ اور وکلا ایک طرف تھے، سول سوسائٹی ان کے پیچھے تھی، ایک آمر ان کے مدمقابل تھا۔ پوری قوم کا موقف تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، غلط ہورہا ہے۔ آخرکار ایک جم غفیر لاہور سے اسلام آباد کی سمت نکلا۔ اس وقت کے آرمی چیف نے یہ کہہ کر ایوان صدر کوDefend کرنے سے انکار کردیا کہ ہمارا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، عوام سے لڑنا نہیں۔ نتیجے کے طور پر ججز بحال ہوئے۔ تو وہ الگ زمانہ تھا، اب الگ زمانہ ہے۔

ایکسپریس: افتخار چوہدری نے آپ سے رابطہ کیا؟
جواب: نہیں، مجھ سے براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔ ان کی ریٹائرمینٹ کے بعد میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ میں ان سے تحریک کے دوران ہی ملا تھا۔

ایکسپریس: 2013 میں تحریک انصاف کو کراچی میں آٹھ لاکھ ووٹ پڑے، جو غیرمتوقع تھا، مگر پھر اس شہر میں ان کی مقبولیت کے گراف میں خاصی گراوٹ نظر آئی؟
جواب: ہمارے ہاں چیزوں کا سطحی انداز میں جائزہ لیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف 2011 کے اوائل تک تانگا پارٹی تھی۔ 10 جنوری 2011 کو میں نے پارٹی جوائن کی، اور اس کا گراف اچانک سے بڑھا۔ میری شمولیت کے بعد جب عمران خان کراچی سے واپس جارہے تھے، انھوں نے ایئرپورٹ کے راستے سے فون کیا کہ جسٹس صاحب، ماشااللہ آپ کے جوائن کرنے کا زبردست ری ایکشن آیا ہے۔

ہماری ویب سائٹ پر ہزاروں کے حساب سے ہٹز آئے ہیں، پہلے کبھی اتنے ہٹز نہیں آئے۔ پی ٹی آئی کے نارتھ امریکا کے ایک اہم لیڈر حال ہی میں مجھ سے ملے۔ کہنے لگے: مجھے عمران خان نے اسی اثناء میں فون کیا، اور کہا: ’’آپ کو پتا ہے کیا ہوا ہے؟ جسٹس صاحب نے ہمیں جوائن کرلیا۔‘‘ لوگ مجھ سے ملتے، تو کہتے تھے کہ جس پارٹی کو آپ نے جوائن کر لیا، وہ یقیناً اچھی پارٹی ہوگی۔ 30اکتوبر 2011 کو لاہور میں جو جلسہ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جیسے لوگ اس میں شامل ہوئے۔ لیکن اندازہ لگائیے (وقفہ لیتے ہوئے) مجھے انھوں نے لاہور کے جلسے کی دعوت تک نہیں دی۔ جب انھیں Push مل گیا، واہ واہ ہورہی تھی، انھوں نے مجھے بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اس کے بعد چین اور ترکی گئے، مجھے خبر تک نہیں دی۔ تو میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ میں ذاتی مفاد کے لیے تو گیا نہیں تھا۔ میں نے دیکھا، جنھوں نے پاکستان کی سیاست کو گندا کیا، جن کی وجہ سے مختلف ادوار میں مارشل لا لگتے رہے، وہی وہاں چلے آئے۔ ہر طرح کی کارروائی اپنی دست رس میں لے لی۔ بے شک اُنھوں نے بڑے بڑے جلسے کیے، مگر جلسے جلوس میں ووٹر نہیں، تماش بین آتے ہیں۔ پھر میری وجہ سے اور بھی لوگوں نے جوائن کیا۔ میرے علم میں نہیں تھا، لیکن جب جاوید ہاشمی ن لیگ چھوڑ کر آئے، انھوں نے کہا کہ میں نے تو پی ٹی آئی کو اس لیے جوائن کیا کہ وہاں جسٹس وجیہہ الدین جیسے لوگ تھے۔

ایکسپریس: اوائل میں کوئی عہدہ پیش کیا گیا تھا؟
جواب: میں نے کوئی عہدہ مانگا ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر علوی اور نعیم الحق کے ذریعے مجھے جو پیغامات آرہے تھے، وہ یہ تھے کہ آپ جو عہدہ چاہیں لے لیں، اور صحیح معنوں میں ہمارے پاس کوئی ایسا عہدہ ہے ہی نہیں، جو ہم آپ کو دے سکیں۔ میں نے کہا، میں کوئی عہدہ نہیں چاہتا، بس کہ آپ کی پالیسی میکنگ میں میرا کوئی حصہ ہو، اور آپ اصولوں کی سیاست کرتے رہیں، یہی کافی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے منشور میں ترامیم کیں۔ اس میں یہ نکتہ شامل کیا کہ اگر کوئی قومی سطح کا لیڈر پارٹی میں شامل ہو، تو Automatically سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اور کور کمیٹی کا ممبر ہوجائے گا۔ میرا رول تو اتنا ہی تھا۔

ایکسپریس: کیا سبب ہے کہ جس شخص کی شمولیت پر عمران خان، پارٹی کے دیگر ارکان خوش تھے، وہ اب غیرفعال ہے؟
جواب: غالباً وہاں یہ سوچ پیدا ہوگئی ہے کہ power آنی ہے، تو ان ہی power brokersکے ذریعے آئے گی۔ اور میں وہاں رہوں گا، تو ان کے پر کاٹوں گا۔ غلط لوگوں کی مخالفت کروں گا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حکومت بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ضروری ہے، مگر پارٹی میں کچھ اپنا دم خم بھی تو ہونا چاہیے، جیسے مجیب الرحمان اور زیڈ اے بھٹو میں تھا۔

ایکسپریس: یہ power brokers کون ہیں؟
جواب: میں پی ٹی آئی کا الیکشن ٹریبونل چلا رہا تھا۔ کچھ کو ہم نے نکالا تھا۔ بہت سے ایسے لوگ تھے، جنھیں پی ٹی آئی چھوڑیں، سیاست میں نہیں ہونا چاہیے۔

ایکسپریس: یہ عجیب معاملہ کہ جن افراد کو آپ نے کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرایا، وہی اس وقت پی ٹی آئی میں نمایاں ہیں؟
جواب: یہ حقیقت ہے۔ اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ میرے جوائن کرنے سے پہلے پی ٹی آئی تانگا پارٹی تھی۔ پھر اس کا گراف بڑھا۔ ایک سال میں یہاں تک پہنچ گیا کہ لاہور کا تاریخی جلسہ ہوا۔ کراچی میں، جیسا کہ آپ نے فرمایا، آٹھ لاکھ ووٹ بنا کسی کوشش کے پڑگئے۔

ایکسپریس: آپ نے جنھیں کرپٹ ٹھہرایا، انھیں دائیں بائیں کھڑا کرکے کیا عمران خان کسی اور کی کرپشن پر انگلی اٹھا سکتے ہیں؟
جواب: یہی تو تضاد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا پتھر وہ مارے، جس کا کردار درست ہو، وہ نہیں ہے۔

ایکسپریس: کراچی میں پی ٹی آئی کو معراج محمد خاں اور جسٹس وجیہہ الدین احمد جیسے لوگ ملے، مگر آج اس کا انحصار علی زیدی اور فیصل واڈوا پر ہے؟
جواب: میں کسی کا نام نہیں لینا چاہوں گا، مگر یہ افسوس کی بات ہے۔ خان صاحب سے متعلق میری ایک اوورسیز پاکستانی سے بات ہورہی تھی، جو کبھی پارٹی میں بہت متحرک تھے۔ وہ بتانے لگے۔۔۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب میں نے پارٹی جوائن نہیں کی تھی، تو کہنے لگے؛ ایک روز خان صاحب سے بات ہورہی تھی کہ فلاں شخص کو پارٹی میں لے لیا جائے۔ نام یاد نہیں، پنجاب کے کوئی معروف سیاسی لیڈر تھے۔ تو خان صاحب نے فوراً کہا: ’’نہیں، وہ تو لوٹا ہے۔ ایسے آدمیوں کو ہم پارٹی میں نہیں لے سکتے۔‘‘ یہ اس وقت ان کی سوچ تھی۔ مگر 30 اکتوبر کے بعد ان کی سوچ بدل گئی۔ اور اس سوچ کے نتائج نہ تو پہلے کبھی اچھے نکلے ہیں، نہ ہی نکل سکتے ہیں۔

ایکسپریس: کچھ لوگ استہزائیہ طور پر جہانگیر ترین اور علیم خان کو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہتے ہیں!
جواب: وہ اے ٹی ایم مشین تو ہیں، اِس میں کوئی شک نہیں۔ البتہ پیسہ انھیں پارٹی کے دیگر ذرایع سے بھی آسکتا ہے، اس سے زیادہ آسکتا ہے، اور اس کے لیے اتنی خواری نہیں ہوگی۔ گو پارٹی لیڈر کو ذاتی ہوائی جہاز کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے باوجود ہم یہاں تک کہتے رہے کہ ہم کوشش کرکے، فنڈز اکٹھا کرکے جہاز لے کر دے دیں گے۔ دیگر مسائل بھی حل کرلیں گے، مگر کرپٹ لوگوں کو فارغ کر یں، مگر جب اے ٹی ایم Convenient ہو، تو اس طرح کی باتیں بھلا کون مانتا ہے۔

ایکسپریس: عمران خان کی سب سے بڑی خوبی کیا دیکھی؟
جواب: دیکھیں، مجھے لگتا ہے کہ ان کی سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ جو کچھ 2011 کے اوائل میں تھے، وہ اب نہیں ہیں، اسی لیے ان کے پیغام میں وہ قوت نہیں ہے، جو ایک سچے پیغام میں ہوتی ہے۔ جیسا آپ نے بھی کہا، اگر آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے لوگ کرپٹ ہیں، اور آپ دوسروں کی کرپشن پر تنقید کر رہے ہیں، تو بھلا کون آپ کی بات سنے گا۔ اب عمران خان ایک تبدیل شدہ آدمی ہیں۔

اس وقت جو خوبی تھی، اب پتا نہیں ہے یا نہیں کہ جب کور کمیٹی میں کوئی بات ڈسکس کرتے تھے، تو فلور اوپن ہوتا تھا۔ سب کی بات سنی جاتی تھی۔ یعنی اتفاق رائے کی کوشش کرتے۔ یہ اچھی بات تھی۔ لیکن آخر میں اِس اتفاق رائے کا کیا ہوا؟ 2013 کے الیکشن میں جو پارلیمانی بورڈ بنا، اس میں مَیں بھی تھا، مگر پنجاب کی نام زدگیوں میں میرا کوئی رول تھا ہی نہیں۔ اعجاز چوہدری پنجاب کے صدر تھے۔ میں نے کسی صاحب کے بارے میں بات کی، تو کہنے لگے: نہیں جی اس سے متعلق تو بات ہی نہیں ہوسکتی۔ (زور دیتے ہوئے) پارلیمانی بورڈ ہے بھائی، وہ بھی سینٹرل۔ کیوں نہیں ہوسکتی؟ جواب ملا: ہم نے پنجاب میں بیٹھ کر ان چیزوں کا فیصلہ کرلیا۔ اور وہ یہ سب کے سامنے کہہ رہے ہیں۔ عمران موجود ہیں۔ اب آپ مجھے بتائیں، اگر پنجاب کے بارے میں وہ لاہور سے فیصلہ کرکے آجائیں گے، تو ہم بیوقوف ہیں، جو پارلیمانی بورڈ میں بیٹھے ہیں۔ پھر کس چیز کا پارلیمانی بورڈ ہے؟

ایکسپریس: آپ نے کہا: ’’میں پارٹی میں غیرفعال ہوں۔‘‘ لیکن عمران اسماعیل نے چند ماہ پہلے ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں اب پارٹی میں جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کوئی رول نظر نہیں آتا؟
جواب: یہ انھوں نے کب کہا؟

ایکسپریس: بلدیاتی انتخابات سے پہلے کہا تھا!
جواب: انھوں نے اس لیے کہا کہ اب عمران خان کو پارٹی میں مختلف قسم کے لوگ چاہییں۔ ہم جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کے لوگوں نے پارٹی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اور آگے جانے کہاں لے کر جائیں گے۔ اگر یہی حالات رہے، تو میں پی ٹی آئی کا مستقبل تاریک دیکھ رہا ہوں۔

ایکسپریس: کراچی میں پاک سر زمین پارٹی ابھر رہی ہے۔ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: مثل مشہور ہے، تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہاں، ایک بات قابل تشویش ہے کہ اس پارٹی میں ایم کیو ایم کے منفی شہرت رکھنے والے لوگ شامل ہورہے ہیں، جنھوں نے بدنام زمانہ کردار ادا کیا تھا۔ اگر اس طرح کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، تو اچھائی کی امید مشکل ہے۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم کو آپ ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں، اس کا مستقبل کیا نظر آتا ہے؟
جواب: مجھے لگتا ہے کہ یا تو ایم کیو ایم کو اپنی ریت بدلنی ہوگی، یا پھر نئی سیاسی پارٹی درست راہ پر آجائے، یا ایم کیوایم حقیقی راہ پر آجائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا، تو سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست ایسی ہی رہے گی۔

ایکسپریس: ایک زمانے میں سوموٹو ایکشن کا چرچا تھا، آپ کی اس پر کیا رائے ہے؟
جواب: پہلے بہت زیادہ تھے، اب بہت کم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، میانہ روی اچھی چیز ہے۔ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ آج ملکی حالات دیکھ کر مجھے سوموٹو ایکشن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ گذشتہ دنوں موجودہ چیف جسٹس نے سندھ میں ہونے والی بھرتیوں پر اپنی تقریر میں جو باتیں کیں، یہ تقریر کرنے والی نہیں، سوموٹو لینے والی باتیں ہیں۔ جہاں حکم رانوں کو عوام کی پروا نہ ہو، وہاں جوڈیشل ایکٹوازم مثبت چیز ہے، مگر پہلے اس میں اعتدال کا پہلو نہیں رہا تھا۔ اعتدال ضروری ہے۔

ایکسپریس: کسی زمانے میں آپ نے تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا!
جواب: وہ تو ختم کر دیا۔ کلاس میں طلبا کی ذہنی اور علمی سطح کی وجہ سے صورت حال بہت خراب تھی، تو میں نے معذرت کرلی۔ باقی میں صبح گیارہ بجے کام شروع کرتا ہوں۔ چار پانچ بج جاتے ہیں۔ رات میں پڑھتا ہوں۔ کتابیں کم، مضامین اور رپورٹس زیادہ۔ خبریں دیکھتا ہوں۔ ای میل چین ہے بہت لمبی۔ تو خاصی مصروفیات ہیں۔ لوگ میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ ابھی کچھ روز پہلے واک کرتے ہوئے ہمارے ایک دوست نے کہا: ’’اگر پرویزمشرف کے خلاف صدارتی الیکشن میں عوام براہ راست منتخب کرتے، تو یقینی طور پر آپ ہی جیتتے۔‘‘ تو اللہ کا شکر ہے، اس نے عزت اور محبت دی۔

ایکسپریس: کیا یہ آپ بیتی لکھنے کے لیے صحیح وقت نہیں؟
جواب: ایک بار مارگریٹ تھیچر سے کسی نے یہی سوال کیا۔ اس نے کہا، ابھی تو بہت کام کرنا ہے۔ (ہنستے ہوئے) اس کے بعد اسے نکال دیا گیا۔ دیکھیں، اﷲ مالک ہے۔ خواہش تو ہے، عدالتوں اور سیاست میں جو دیکھا، اس کے بارے میں لکھوں۔ یہ بھی خواہش ہے کہ مستقبل میں کوئی نہ کوئی ایسا کردار چنوں، جس سے ملک کو فائدہ ہو۔

ایکسپریس: آپ کے پی ٹی آئی جوائن کرنے سے پی ٹی آئی کا قد بڑھا، تو مستقبل میں ہم کس پارٹی کا قد بڑھتے ہوئے دیکھیں گے؟
جواب: میں تو ملک کا قد بڑھانا چاہتا ہوں۔ آپ نے کہا، تو یاد آیا۔ وائس آف امریکا کے اسدجعفری صاحب سے کچھ روز پہلے بات ہورہی تھی۔ انھوں نے پوچھا: جج صاحب! آپ پی ٹی آئی میں ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا: میں ہوں، مگر اتنا فعال نہیں ہوں۔ انھوں نے پوچھا، کیوں فعال نہیں؟ میں نے کہا: وہاں جو حالات دیکھے، تو محسوس ہوا، وہاں کام کرنا بہت مشکل ہے۔ اسد جعفری نے کہا، اور لوگ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں تو کوئی پارٹی ایسی نہیں، جہاں آپ کام کرسکیں۔

دہلی کے فسادات، وکالت اور پہلا کیس
(کچھ جھلکیاں جیون کی)
وجیہہ صاحب ممتاز قانون داں، جسٹس وحید الدین احمد کے بیٹے ہیں، جو مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج رہے۔ صوبۂ سندھ سے سپریم کورٹ کے لیے منتخب ہونے والے پہلے وہ جج تھے۔ یکم دسمبر 1938 کو وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد دہلی مسلم لیگ کے صدر تھے۔ رہائش نئی سڑک کے علاقے میں۔ فسادات کے دنوں میں خاندان مسلم اکثریتی علاقے ’’چوڑی والاں‘‘ منتقل ہوجاتا۔ فسادات ہی نے ہجرت کی راہ سجھائی۔ کراچی میں جمشید روڈ پر سکونت اختیار کی۔

ایک بہن، پانچ بھائیوں میں وہ سب سے بڑے۔ شمار قابل طلبا میں ہوتا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام سے 55ء میں میٹرک کیا۔ اسی زمانے میں وکیل بننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسکول کی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے۔ سینٹ پیٹرک کالج سے انٹر کیا۔ تعلیمی سلسلے میں کچھ عرصے لاہور میں بھی رہے۔ سندھ مسلم کالج سے 62ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ پھر وہیں مدرس ہوگئے۔ پریکٹس بھی شروع کر دی۔ یاد ہے، پہلے کیس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا تھا کہ وہ دوست کے والد کا کیس تھا۔ نوجوانی میں بھی اصول پسندی کے باعث وکلاء میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ 77ء اور 78ء میں وہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بلا مقابلہ سیکریٹری منتخب ہوئے۔ دونوں مرتبہ جسٹس سعید الزمان صدیقی نے اُن کے خلاف کاغذات جمع کروائے تھے، تاہم ساتھی وکلاء کے کہنے پر کاغذات واپس لے لیے۔ 79ء میں وہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر منتخب ہوئے، 81ء میں کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر ہوگئے۔

84ء میں اسٹینڈنگ کونسل کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالیں۔ ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے۔ 88ء میں ہائی کورٹ کے جج ہوئے، 97ء میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ذمے داری سنبھالی۔ پھر سیریم کورٹ کا رخ کیا۔ 2000ء میں جب پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا، اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کے بے حد نزدیک تھے، تاہم انھوں نے اپنے ضمیر کی آواز سنی۔ یوں شان دار کیریئر کا اختتام ہوا۔ 26 جنوری 2000 کو وہ اپنے چیمبر سے یوں نکلے کہ اس دن سے آج تک سپریم کورٹ کی بلڈنگ کے اس حصے میں نہ تو قدم رکھا، نہ ہم ججز کالونی کی اس سڑک سے گزرے جہاں کبھی رہائش تھی۔

64ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ ایک صاحب زادی ہیں، جن کی شادی ہوچکی ہے۔ تقدیر کے قائل ہیں، اور اسے محنت، دعا اور نیک اعمال سے جوڑتے ہیں۔
اُن کا قصیدہ پیش کیا گیا جنھیں ہم نے قصور وار ٹھہرایا تھا
(تذکرہ عمران خان سے آخری ملاقات کا)
دوران گفت گو عمران خان سے ہونے والی آخری ملاقات کا بھی تذکرہ ہوا۔ کہنے لگے،’’بہ نفس نفیس آخری ملاقات بنی گالا میں ہوئی۔ اور ان کی خواہش پر ہوئی۔ جو مسائل چل رہے تھے، ان پر بات ہوئی۔ تمام باتوں پر اتفاق ہوگیا، بات آئی ان چار لوگوں پر۔ یعنی جہانگیر ترین، پرویز خٹک، علیم خان اور نادر لغاری۔ میں نے کہا: خان صاحب اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ وہ مجھے جسٹس صاحب کہا کرتے تھے۔ کہنے لگے: جسٹس صاحب بڑا مشکل ہوجائے گا، میرے لیے اکیلے پارٹی چلانا مشکل ہے، یہ لوگ چلا رہے ہیں۔

میں نے کہا: ایسا قطعی نہیں ہے، لیکن چلیں، ہم باقی باتوں پر متفق ہیں، اس بات کو ہم آج کی میٹنگ میں Unfinished Agenda تصور کریں گے۔ اس روز انھوں نے کہا: جسٹس صاحب ہم نے پارٹی کی سینئر لیڈر شپ کو دو اگست 2015 کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں بلایا ہے، آپ بھی ضرور آئیں۔ ایک سے زاید مرتبہ کہا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پی ٹی آئی میں ہمارے نظریاتی ساتھی اور سپورٹر ہیں، جن کی بڑی تعداد ہے، اُنھوں نے کہا: جسٹس صاحب، جب ہوٹل میں خان صاحب آجائیں، اس کے بعد آپ آئیے گا، تاکہ آپ کی موجودی کا احساس ہو۔ انھوں نے میرے لیے اسی ہوٹل میں ایک کمرے کا اہتمام کر دیا۔ ہال میں داخل ہونے کے لیے جس راستے سے میں گزرا، وہاں سارے لوگ کھڑے تھے۔

عمران خان سامنے بیٹھے تھے۔ لوگ کہتے ہیں: خان جب گزرے، انھیں ایسا reception نہیں ملا، جیسا آپ کو ملا۔ خیر، میں سوچ رہا تھا کہ یہ اپنی تقریر میں معاملات کو بہتری کی طرف لائیں گے۔ انھوں نے تقریر کی، اور سمجھیں پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ان ہی تین آدمیوں کی شان میں قصیدے پیش کیے، جنھیں ہم نے قصور وار ٹھہرایا تھا۔ وہ بھی سامنے بیٹھے تھے، ہم بھی۔ ان کا مطلب تھا کہ آپ لوگ جو بات کرتے ہیں، وہ بکواس ہے۔ یہ اصل لوگ ہیں۔ یہی پارٹی کو آگے لے کر چلیں گے۔ وہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ ہاں، مجھے مختلف ذرایع سے پیغامات آتے ہیں کہ آپ اپنے معاملات درست کرلیجیے، پارٹی میں دوبارہ فعال ہوجائیں۔ میں کہتا ہوں، میرا آپ سے کوئی اختلاف نہیں، مگر میں ایسے عناصر کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اور اگر میں نے ایسا کیا، تو قوم کو یہ غلط میسج جائے گا کہ یہ لوگ صحیح ہیں۔ جب کہ یہ غلط ہیں۔‘‘

عمران خان سے کہا، ’’کے پی کے اسمبلی کے استعفوں کو چھوڑدیں‘‘
(زمانہ دھرنوں کا)
ہم نے پوچھا: جاوید ہاشمی نے الگ ہونے کے بعد جو پریس کانفرنس کی، اس میں وہ کاندھوں کی جانب اشارہ کیا کرتے تھے، یہ بات درست تھی؟ کہنے لگے،’’میں اس کے متعلق زیادہ کچھ نہیں کہہ پاؤں گا، دھرنے میں میرا رول بہت محدود تھا۔ جب فیصلہ کیا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا ہے، تو بنی گالا میں کور کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔ میں اس میں موجود تھا۔ پرویزخٹک نے مجھ سے کہا: کم از کم کے پی کے اسمبلی کے استعفیٰ نہ دلوائیں۔ میں نے کہا: آپ وزیر اعلیٰ ہیں، آپ کہیں۔ کہنے لگے: نہیں وہ آپ کی بات مانتے ہیں۔ تو میں نے ان سے کہا: کے پی کے اسمبلی کو چھوڑ دیں، باقی جیسا چاہیں کریں۔ میرے کہنے پر انھوں نے پرویز خٹک کی طرف دیکھ کر کہا: کے پی کے کو چھوڑ دیتے ہیں۔

خیر، دھرنے کے دنوں میں مَیں کراچی میں تھا، مجھے یوں بلوایا گیا تھا کہ اب مذاکرات ہونے ہیں، قانونی پہلو بھی ہوں گے، تو آپ کی شرکت ضروری ہے۔ اب آپ دیکھیے، میں اسلام آباد ایک ہفتے سے ٹھہرا ہوا ہوں، مجھ سے کوئی بات ہی نہیں ہورہی۔ ایک دن کنٹینر میں گیا۔ عمران اوپر تھے۔ میں ان سے میٹنگ کے بعد نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے نعیم الحق سے کہا: بھائی، اگر میری ضرورت ہے، تو میں ٹھہروں، ورنہ انڈیا میں میرے رشتے دار کی بیٹی کی شادی ہے۔ نعیم الحق اوپر گئے، اُن سے پوچھنے کے لیے۔ وہ آ کر کہنے لگے: جج صاحب، آپ جانا چاہتے ہیں، تو چلے جائیں۔ اس کے بعد دھرنے میں بہت کچھ ہوا، مگر میں یہاں تھا ہی نہیں، تو کیا کہوں۔

ہم نے سوال کیا: ’’آج دھرنے کو کیسے دیکھتے ہیں؟‘‘ جواب ملا: ’’دھرنے کے Mixed نتائج آئے۔ بہتر نتائج بھی ہوسکتے تھے، مگر صحیح طور پر ہینڈل نہیں کیا گیا۔ جو ٹرمز آف ریفرنس بنی تھیں، وہ غلط تھیں۔ جس جوڈیشل کمیشن پر انھوں نے بھروسا کیا، وہ غلط تھا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔