سالانہ فوڈ فیسٹیول

رئیس فاطمہ  ہفتہ 18 جون 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارے دیس میں رمضان ایک سالانہ فوڈ فیسٹیول بن کر رہ گیا ہے۔ سارا زور اس پر کہ سحری میں کیا کھایا جائے گا؟ سحری کہاں کرنی ہے؟ سمندر کے کنارے، ہائی وے پہ بنے ہوئے رت جگا ہوٹلوں میں یا کسی فوڈ اسٹریٹ پر؟ یہی حال افطاری کا بھی ہے۔ پکوڑے، فروٹ چاٹ، دہی بڑے، چھولے تو لازمی ہیں کہ فیسٹیول سال میں ایک بار آتا ہے۔ معاف کیجیے گا، میڈیا نے اس کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ ’’سب سے پہلے میں‘‘ کی دوڑ نے مضحکہ خیز حد تک احمقانہ پروگرام اور رپورٹس ناظرین پہ مسلط کر دی ہیں۔

دوسری طرف رمضان المبارک کے حوالے سے سجنے والے انعام گھروں کی یلغار۔ اللہ کی پناہ! جیسے سارا شہر بھکاری بن گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کئی کئی ہاتھ بلند ہو جاتے ہیں کہ:

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

جن کی طرف اچھل کود کرتے میزبان توجہ نہیں فرماتے، ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لمبے لمبے ہاتھ لہرائے جاتے ہیں کہ یہ شکوہ ہوتا ہے۔

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

لیکن مائیک ہاتھ میں لیے میزبان کے کان میں لگا مائیک مسلسل اسے ہدایات دیتا رہتا ہے کہ کس کو انعام دینا ہے اور کس سے سوال پوچھنا ہے۔ اسی لیے بعض اوقات اشارے بھی دے دیے جاتے ہیں کہ وہ صحیح جواب دے دیں۔ مثلاً ’’ایرانی سیب کس پھل کو کہا جاتا تھا؟‘‘ خاتون نے کہا ’’اتنا تو ہنٹ دے دیں کہ اس میں ایک بیج ہوتا ہے یا ایک سے زیادہ؟‘‘ وہ مسکرا کر اور لہرا کر بولے ’’صرف ایک بیج‘‘ جواب تھا آڑو۔ انعام خاتون کو مل گیا۔

پروگرام کے شرکا میں اسپانسرز کے علاوہ پروگرام پروڈیوسر، کیمرہ مین اور دیگر کارکنان کے اہل خانہ کی شرکت لازمی ہے۔ بعض سادہ دل ناظرین پروگرام کی اشتہاری مہم اور انداز میزبانی سے سمجھتے ہیں کہ وہ بھی قسمت آزمائی کر سکتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو مل ہی جائے گا۔ لیکن ہزار ناکام کوششوں کے بعد ان پر انکشاف ہوتا ہے کہ:

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

ان نام نہاد رمضان فیسٹیول اور دیگر انعامی پروگراموں میں ہر کوئی ’’قدم رنجہ‘‘ نہیں فرما سکتا۔ نہ ہی ان پروگراموں کو فلاح و خیر کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ سارا دھوم دھڑکا صرف مال بیچنے پر ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ آنکھوں پہ پٹی باندھے بغیر ریوڑیاں صرف انھیں دی جائیں جن کے نام اور نمبر میزبان کے کانوں میں پہلے سے فیڈ کر دیے گئے ہیں۔

اب آئیے دوسری طرف۔ صرف الیکٹرانک میڈیا کے رمضانی پروگراموں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پاکستان ایک بہت امیر ترین ملک ہے۔ جہاں لوگ رمضان فیسٹیول شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی غریب نہیں، کوئی مہنگائی نہیں۔ یہ سحر اور افطار کا کومبی نیشن ہے۔ سحری میں دودھ، جلیبی، پراٹھے، انڈے، قیمہ، کھجلہ اور پھینی سے معدہ بھرلو۔ دن بھر ڈکاریں لیتے رہو، کوئی کام نہ کرو کہ رمضان ہے۔ خیالوں میں افطارکے وقت کی اشیا خورونوش کا سوچ سوچ کر منہ میں پانی لاتے رہو۔

سوال یہ ہے کہ کبھی کسی نجی چینل کے رپورٹر کو یہ خیال آیا کہ چلو کبھی ان غریب بستیوں کا رخ بھی کر لیں جہاں سارے سال بھوک بسیرا کیے رہتی ہے کہ ان کے رمضان کیسے گزرتے ہیں، ان کی سحری اور افطار کیسا ہوتا ہے۔ وہ جو رات کی باسی روٹی اور دال بھجیا سے سحری کرتے ہیں کیا انھوں نے کبھی کھجلا اورکبھی پھینی کا مزہ چکھا ہے؟ شامی کباب، قیمہ اور پراٹھوں کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟

افطار میں جو نمک سے روزہ کھول کر جو میسر ہو اس سے پیٹ کا دوزخ بجھاتے ہیں۔ کیا انھوں نے ٹیلی ویژن اسکرین اور بازاروں میں سجے پھل، دہی بڑے، سموسے، رول اور دیگر اشیا میں سے کبھی کسی کا حقیقی ذائقہ چکھا ہے؟ بھلا ان غریب بستیوں میں کون جائے جہاں بھوک، افلاس، بیروزگاری،  مہنگائی اور غربت کا ڈیرہ ہو۔ ان بدنصیبوں کے مرجھائے چہروں کے لیے ٹی وی اسکرین پر کوئی جگہ نہیں کہ میڈیا کی ضرورت میک اپ سے لتھڑے لپ اسٹک سے آلودہ چہرے ہوتے ہیں۔ فوڈ اسٹریٹ ہوتی ہیں، شاپنگ مال ہوتے ہیں نہ کہ پژمردہ چہرے اور میلے کچیلے لباس والے، کوڑے کے ڈھیر سے غذائی اشیا چن کر کھانے والے کسی چینل پہ کیونکر جلوہ گر ہو سکتے ہیں؟

رہا رمضان فیسٹیول کے انعامی پروگراموں کا تو کیا کبھی کسی چینل نے انھیں بھی بلایا جو نہ کسی خیراتی ادارے سے مدد مانگ سکتے ہیں نہ کسی دسترخوان پہ جا کر پیٹ کی آگ بجھا سکتے ہیں، نہ ہی انعام گھروں کا ٹکٹ خرید کر قسمت آزمائی کر سکتے ہیں۔ ہر طرف اندھے ریوڑیاں بانٹ رہے ہیں۔ خواہ حکومتی سطح پر ہوں یا نجی چینلز کے بڑے بڑے رمضانی  گھروں میں اور تو اور ایک نئی وبا چلی ہے وہ یہ کہ کسی مقبول اینکر پرسن یا شو کے میزبان کا ہم شکل تلاش کیا جائے۔ اسے تراش خراش کر ہو بہو کاربن کاپی بنوا دیا جائے۔ پھر اسے حکم ہو کہ ’’فلاں کی اچھل کود، نعرے بازی اور شعبدے بازی کی بھرپور نقل کرو‘‘ لیکن نقل کبھی اصل نہیں ہوتا۔ بجائے اس کے کہ اپنا منفرد انداز اپنایا جائے۔ ہر معاملے میں نقل مافیا سرگرم ہے، خواہ نعت خوانی ہو، میزبانی ہو یا گلوکاری۔ میدان میں بہت سے بندر نقل میں مصروف ہیں۔

کہنے کو تو ہمارے علمائے کرام اس مبارک ماہ میں لمبی لمبی تقریریں فرماتے ہیں۔ لوگوں کو مبارک طاق راتوں کی فضیلت سے آگاہ بھی کرتے ہیں۔ شیطان مردود کے قید ہونے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ لیکن کبھی لوگوں کو حقوق العباد کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے۔ روزہ محض فاقہ نہیں ہے۔ نہ ہی سحر و افطار کے چٹخارے دار کھانوں کا مہینہ۔ لیکن ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ مسجدوں میں آنے والی افطاری میں سے پسندیدہ اشیا الگ کر لی جاتی ہیں اور بقیہ مسجد کے دسترخوان پہ سجادی جاتی ہیں؟ سوال یہ ہے کہ جب رمضان کے مبارک مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے تو پھر یہ ذخیرہ اندوز کون ہیں؟ ہر شے کو چارگنا زیادہ قیمت پہ بیچ کر منافع کمانے والے کون ہیں؟ کھجور جیسی عام اور ضروری چیز کو کئی گنا مہنگا کرنے والے کون ہیں؟

جو علمائے کرام ایک دوسروں کی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے احتراز کریں، جو رمضان اور عید کے چاند پہ اپنی اپنی چوہدراہٹ کے مظاہروں میں مصروف ہوں ان سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ میں حیران ہوتی ہوں اکثر یہ دیکھ کر کہ کبھی بھی کسی دینی، مذہبی جماعت نے مہنگائی اور غربت کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا۔ حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے ان سے مختلف ڈیلز کرنے میں وقت صرف کیا، کبھی اپوزیشن کی کشتی میں بیٹھ کر اورکبھی باقاعدہ حکومت کے حلیف بن کر کہ مہنگائی اور غربت ان کا کبھی مسئلہ نہیں رہے۔ اس لیے چینلزکا پیٹ بھرنے کے لیے تندرست و توانا مولوی حضرات عموماً ٹی وی اسکرین پہ بھی قابض رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔