ناکام ترین خارجہ پالیسی نے پاکستان کو بند گلی میں دھکیل دیا

رحمت علی رازی  ہفتہ 18 جون 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں اس وقت داخلی و خارجی سطح پر کمال طُرفہ تماشا لگا ہوا ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں معاملات خلاء و خلیج کا شکار ہیں۔ حکومتی اُمور مسلسل تعطل پذیر ہیں، خارجہ پالیسی اور سفارتی ڈھانچہ ناکامی سے بری طرح دوچار ہے۔ خطے کی ڈرامائی طور پر بدلتی صورتحال کی وجہ سے پاکستان تنہائی کے خول میں بند ہو چکا ہے۔ دو اہم ترین ہمسایہ ممالک (افغانستان و ایران) کے ساتھ بھارت اور امریکا کے تزویراتی گٹھ جوڑ نے پاک چین اقتصادی راہداری کا مستقبل بھی ناقابلِ یقین حد تک مخدوش کر کے رکھ دیا ہے۔

بھارت کی جنوبی ایشیا، سینٹرل ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ میں سفارتی کامیابیوں اور معاشی معاہدوں نے پاکستان کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ امریکا کی غیرمتوقع بے حسی اور انڈیا کی طرف ضرورت سے زیادہ جھکاؤ کے باوجود پاکستانی حکومت کی طرف سے پیہم خاموشی اور فطری ردِعمل کا عدم اظہار فہم سے بالاتر ہے۔

پاکستان کی ناکامیاب حکمت ِ عملی، مفلوج سفارتکاری اور نامناسب لابنگ کے باعث ایف 16 کی حوالگی کا باب بھی بند ہو چکا اور امریکا کی جانب سے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبہ کے جواب میں پاکستان کی طرف سے ڈبل گیم کھیلے جانے کے الزام پر کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش اور 80 کروڑ ڈالر کی نئی فوجی امداد کو 30 کروڑ ڈالر سالانہ تک محدود اور حقانی نیٹ ورک کے خاتمہ سے مشروط کرنا بھی پاکستانی حکومت کی زبردست ناکامی کا شاخسانہ ہے۔

امریکا اور بھارت کے مابین حالیہ جوہری، تجارتی، معاشی اور عسکری معاہدے اور امریکا کی طرف سے ہندوستان کی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے لیے برملا حمایت کا اعلان بھی پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ  ہے مگر اس سنجیدہ ایشو پر بھی پاکستان نے انتہائی دھیمے اور کمزور ترین ردِعمل کا اظہار کیا ہے، وہ بھی نام نہاد مشیرِ خارجہ کی طرف سے، جس کی آواز بمشکل ہی بین الاقوامی حلقوں کی سماعتوں تک رسائی حاصل کر سکی ہو گی۔

عمومی طور پر تو بھارت کی خارجہ پالیسی ہمیشہ پاکستان سینٹرک ہی رہی ہے تاہم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد انڈیا کی خارجہ پالیسی کا محورصرف پاکستان ہے۔ دُنیا کا کوئی فورم ایسا نہیں جہاں ہندوستان پاکستان کے خلاف آواز نہ اٹھاتا ہو۔ اینٹی پاکستان پروپیگنڈا بھارت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے لے کر عالمی ابلاغِ عامہ کے ہر پلیٹ فارم تک پھیلا ہوا ہے، یہی کام پاکستان کے اندر ہمارا اپنا میڈیا بھی کر رہا ہے مگر اس کا طریقۂ واردات ذرا مختلف ہے۔

انڈیا کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہے، اس کے خود کے پاس دیسی دشمنوں کی بہت بڑی کھیپ موجود ہے جو جمہوریت کی مادرپدر آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لسانی، گروہی، مذہبی، صوبائی، سیاسی اور ابلاغی شکلوں میں پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہے۔

میڈیا کے بے مہار ہو جانے کے بعد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، تہذیبی تنزلی، اخلاقی پستی، معاشرتی بے حسی اور سماجی افراتفری میں یقینی طور پر بے پایاں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہم انفرادی و اجتماعی طور پر سماجی اقدار، ادبی شغف، شوقِ فنون، اخلاقی بلندی اور انسانی مقام سے بے بہرہ ہو کر سنسنی، افواہ گیری، پرتشدد رویوں، عدم برداشت اور غیراخلاقی کلچر میں رَچ بس گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سازشی تھیوریاں ہمارا پسندیدہ مضمون بن چکا ہے۔ ہم اپنی نااہلیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کا ذمے دار ہمیشہ امریکا اور بھارت ہی کو ٹھہراتے ہیں۔

جس طرح انڈیا کا یہ فطری رجحان ہے کہ وہ ہر سازش کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تلاش کرتا ہے، بعینہٖ ہم بھی ہر کام میں ایک سازشی نظریہ ڈھونڈنے چل پڑتے ہیں جس کا براہِ راست ذمے دار امریکا اور بھارت کو ٹھہراتے ہیں، اسی طرح اندرونی طور پر بھی دھرنا ہو، دھاندلی ہو، جنگ ہو یا امن، ان سب حالات کے پیچھے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی سازش ضرور نظر آ جاتی ہے، اس کی نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ذاتی رضا و رغبت سے کیے ہوئے گناہ بھی شیطان کے ذمے لگانے کی عادت پڑ چکی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان گمراہی کا ٹھیکیدار ہے، مقتدرہ ملکی معاملات کی کرتا دھرتا ہے اور امریکا و بھارت پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کا کوئی بھی نادر موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر ہر معاملہ میں نالائقی ہماری اپنی ذات کی ہے۔ پاکستان کو مبارک ہو کہ ان ہی نالائقیوں کی وجہ سے اسے دو اور دشمن نصیب ہو گئے ہیں! بھارت کیا کم تھا کہ اب افغانستان اور ایران بھی اس کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ اگر چائنا انڈیا اور امریکا کا مخالف نہ ہوتا تو یقینا اس کی طرف ہماری چوتھی سرحد بھی محفوظ نہ ہوتی۔

ہمیں اس آئیڈیالوجی کی آج تک سمجھ نہیں آ پائی کہ مسلمان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تو ہمارے تعلقات انتہائی خراب ہیں جب کہ ایک کمیونسٹ ریاست (چین) کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر ماضی میں روس سے ناقابلِ قیاس حد تک نفرت کی کیا وجہ تھی؟ ایران کے ساتھ ہمارے مثالی تعلقات تھے لیکن ہماری ناکام خارجہ پالیسی نے ہمیں ان سے بھی دُور کر دیا اور وہ بھارت کی جھولی میں جا کر بیٹھ گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کی عداوت کو اپنے سر لینے کا جنون ہے۔

روس سے ہمیں اس لیے نفرت رہی کہ وہ ہمارے ناقابلِ اعتبار دوست امریکا کا کٹر دشمن تھا۔ افغانستان اور طالبان کو بھی ہم نے امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دیکر اپنا جانی دشمن بنا لیا۔ بھارت تو ہے ہی ہمارا ازلی اور مکار دشمن، جس کے ساتھ ہماری دو قومی نظریہ پر مبنی مذہبی دشمنی ہے، جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ اگر چین بھی ہماری طرح مخبوط الحواس ہوتا تو عداوت کے باوجود بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو فروغ نہ دیتا۔

کٹرپنتھی ذہنیت کے حامل انتہا پسند ہندو نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں ایک زیرک اور مدبر سیاسی قیادت کی ضرورت تھی مگر ہمیں نوازشریف نصیب ہوئے جنھوں نے وزارتِ عظمیٰ پر براجمان ہوتے ہی قابل ٹیم پر مشتمل ایک مثالی سفارتی اور خارجہ پالیسی مرتب کرنے کے بجائے میٹرو بسوں، اورنج ٹرینوں اور سڑکوں کی تعمیر پر ساری توانائیاں صرف کر دیں۔ نون لیگ کی حکومت کو تین سال مکمل ہو چکے ہیں، اس عرصہ کے دوران اس نے جتنی بھی سیاست کی ہے وہ ساری کی ساری انتخابی حکمت ِ عملیوں پر مبنی ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں میں نوازشریف نے زرداری حکومت کا فرینڈلی اپوزیشن بن کر خوب ساتھ دیا اور اب پیپلزپارٹی بھی جواباً یہی فریضہ نبھا رہی ہے۔ بلوچستان میں ڈرون حملے کے بعد امریکا اور پاکستان کے تعلقات تعطل کا شکار ہیں۔ بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ ملکر چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

امریکا اور بھارت کے تعلقات ایک تاریخی دور میں شامل ہو چکے ہیں، پاک چائنا راہداری کا راستہ روکنے کے لیے دنیا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، ملک میں را اور این ڈی ایس کے نیٹ ورک پکڑے جا رہے ہیں، افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے جس سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی حد تک نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، ملک کے اندر اقتصادی راہداری کے مخالف اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، پاک فوج آپریشن ضربِ عضب کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، خارجہ پالیسی کو ازسرِنو مرتب کرنے کی شدید ضرورت ہے لیکن ہمارے وزیراعظم پاناما لیکس سے فرار حاصل کر کے برطانیہ میں دل کا علاج کروا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ملک پر پڑی اُفتاد کی قطعی کوئی پرواہ نہیں، وہ ساری صورتحال سے بے نیاز ہو کر اپنے ٹی او آر پر اٹکی ہوئی ہیں۔ حکومت کے نااہل وزراء اور مشیران بھی نوازشریف کے دفاع کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو آگے نہیں بڑھنے دے رہے۔

شنید ہے کہ نوازشریف لندن میں سخت پریشانی کی حالت میں شب وروز کاٹ رہے ہیں اور انہیں کسی کا مشورہ اچھا نہیں لگ رہا۔ انھوں نے چند روز قبل اپنے ہمنوا سینئر صحافیوں کو لندن بلوا کر کچھ گہرے مشورے لیے ہیں، ان صحافیوں نے واپس آ کر ابھی تک عوام کو اندر کی کوئی خبر نہیں بتائی لیکن انھیں وزیراعظم کے ارادوں کا پتہ ضرور چل گیا ہو گا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عید کے بعد ہی وطن واپس آئینگے۔

نون لیگ کو اس اَمر کا قیاس ہو چکا ہے کہ چوتھا بجٹ پیش کر دینے کے باوجود ان کی حکومت اپنی مدت کا چوتھا سال پورا نہیں کر پائے گی۔ یوں لگتا ہے کہ عید کے فوراً بعد پیپلزپارٹی اور اے این پی کے علاوہ باقی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اسلام آباد کا رُخ کرنے جا رہی ہیں۔ طاہرالقادری کا دما دم مست قلندر کرنے کے لیے عید سے قبل پاکستان آنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اس بار ایمپائر جو بھی ہے، اس نے انہیں حتمی اشارہ دیدیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دھرنے جو عید کے بعد شروع ہونگے وہ مطلقا ً پُر امن نہیں ہونگے۔

انھوں نے جمعے کی شب پہلا بھرپور دھرنا دیکر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اب کچھ کر کے ہی دم لینگے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے پہلے شہیدوں کے حساب کے لیے مزید لاشیں دینے سے بھی اجتناب نہیں کرینگے، چنانچہ یہ کہنا برمحل ہو گا کہ اس بار حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ یہ خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت بچانے کے لیے میاں نوازشریف کی قربانی دیدی جائے، اس پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔

طورخم بارڈر پر افغان بارڈر فورسز کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان کا ایک میجر شہید جب کہ ایک افسر تشویشناک حالت میں ہے اور 20 جوان بھی بری طرح زخمی ہیں مگر پاکستان کی سیاسی صورتحال کمزور ہونے کی وجہ سے پاک فوج کو درگزر کی پالیسی اختیار کرنا پڑی ہے حالانکہ پاکستانی قوم میں افغانستان کے خلاف سخت غصہ پایا جاتا ہے اور عوام توقع کر رہے تھے کہ جنرل راحیل افغانستان کی غیرپیشہ ورانہ فوج کو ضرور سبق سکھائیں گے مگر وہ نجانے کس مصلحت کو دیکھ کر خاموش ہیں۔

افغانستان نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کر دی ہے اور اب پاکستان کو بھی محسوس ہونے لگ پڑا ہے کہ افغانستان پاکستان کے لیے انڈیا سے بھی بڑا دشمن بن کر اُبھرے گا۔ افغانستان ذہنی طور پر آج بھی پاکستان کی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتا اور وہ پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دے چکا ہے۔ جس طرح پاک انڈیا سرحد میں لائن آف کنٹرول والے حصے کو متنازعہ سمجھا جاتا ہے اور وہاں جب بھی باڑ لگانے کی کوشش کی گئی اس کی مخالفت دیکھنے کو ملی، یہی صورتحال 2500 کلومیٹر لمبی اور مشکل ترین پاک افغان سرحد کی بھی ہے کیونکہ جب فرنگی جنوبی ایشیاء سے جا رہا تھا تو اس خطے کی اکثر بین الاقوامی سرحدوں کو متنازعہ چھوڑ گیا، ان میں پاک افغان سرحد بھی شامل ہے۔

پاک افغان سرحد پر تنازعہ متعدد مرتبہ اٹھا لیکن پھر دب جاتا رہا حالانکہ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تو انھوں نے بھی افغان موقف کی حمایت کی تھی۔ امریکا کے افغانستان پر حملے اور اس کے تناظر میں پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا اور یہاں متعدد فوجی آپریشن بشمول ضربِ عضب شروع ہوئے جن کے نتیجے میں افغانستان بھاگ جانے والے دہشت گردوں نے افغانستان کو بیس کیمپ بنا کر پاک افغان سرحد کے ذریعے دہشت گرد بھیجنے شروع کیے جس کی حالیہ مثال باچاخان یونیورسٹی پر حملہ ہے، پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کی تجویز ایک بار پھر سامنے آئی اور جب اس پر عملدرآمد شروع ہوا تو تنازعہ کھڑا ہو گیا۔

اس وقت جو خطے کی صورتحال ہے اور پاک چائنا کوریڈور منصوبہ بھی قابلِ عمل ہونے کو ہے اور پاکستان تو افغانستان کے امن کو اپنی ترقی قرار دے چکا ہے، ایسی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ متنازعہ معاملات بات چیت کے ذریعے حل کر کے عملی اقدامات کی طرف بڑھا جائے۔  اگر کوئی ایک ایسا نکتہ ہے جس پر سارے افغان متحد ہیں تو وہ ڈیورنڈ لائن ہے۔ برطانیہ کی بنائی ہوئی تقریباً ایک صدی پرانی اس سرحد کو دنیا بطور عالمی سرحد کے تسلیم کر چکی ہے لیکن افغان یہ حقیقت تسلیم کرنے سے اب تک گریزاں ہیں۔ 21 اکتوبر کو مارک گراسمین نے ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکا ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد سمجھتا ہے۔

اس انٹرویو کے چند روز بعد کابل حکومت نے امریکا کے خصوصی نمایندے کے موقف کو مسترد کر دیا لیکن واشنگٹن میں محکمہ خارجہ نے فوراً ہی گراسمین کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے ایک بار پھر اس کا اعادہ کیا۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس معاملے پر اسلام آباد کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان عالمی سرحد کا تعین طے اور ختم شدہ معاملہ ہے۔ خواہ کسی بھی قبیلے، نسل یا سیاسی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، نظریاتی اختلافات کے باوجود تمام افغان ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر ایک زبان بولتے ہیں اور دہایاں گزر جانے کے باوجود اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

1947ء سے ہی افغانستان میں ایسی حکومتیں آتی رہیں جو داخلہ اور خارجہ پالیسی کے خدوخال پر مختلف سوچ کی حامل رہیں۔ ظاہر شاہ کی اپنے کزن داؤد خان کے ہاتھوں بادشاہت کے خاتمے اور جمہوریہ کے اعلان کے باوجود پاکستان کے ساتھ افغان سرحد کے معاملے پر کابل کے موقف میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ بعد میںآنے والے چار کمیونسٹ حکمران نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور محمد نجیب اللہ کا 1893ء میں طے کی جانے والی سرحد کے بارے میں موقف بھی اپنے پیشروؤں کا ہی رہا۔ چونکہ کابل کے کمیونسٹ حکمرانوں کو اْس وقت سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی لہٰذا پختونستان اور ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر ان کی سوچ کٹر ہی رہی۔

یہ سچ ہے کہ ان کے موقف کی بازگشت متعدد پختون قوم پرستوں کے نظریات کی صورت میں پاکستان میں سنائی دیتی تھی لیکن اب پختونوں کے لیے عسکریت پسندی سب سے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے لیے پریشان کن بات یہ تھی کہ افغانستان میں فتح حاصل کرنیوالے مجاہدین نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو حل یا پھر اسے بطور عالمی سرحد تسلیم کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، حتیٰ کہ طالبان، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں اسلام آباد کی اشیرباد حاصل ہے، نے پاکستان کا مشکور ہونے کے بجائے اپنے پیش رو کمیونسٹ رہنماؤں کی طرح ڈیورنڈ لائن تسلیم نہ کرنے کو ہی ترجیح دی۔

ڈیورنڈ لائن ایک مسلمہ حقیقت ہے اور آئے روز سرحد پار حملوں کا ذکر کر کے خود افغان حکومت بھی اسے ایک لحاظ سے تسلیم کرتی ہے۔ انیسویں اور پھر بیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان کی نوآبادیاتی نظریے کی مخالفت سمجھ آتی ہے لیکن اس تمام عرصے میں ناگہانی اور تباہ کن واقعات نے جہاں نئی قوتوں کو جنم دیا اور خطے کی جیوپولیٹکل شکل کو تبدیل کیا وہیں پرانے نظریات کو متروک بھی کیا۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب مسلح سیکیورٹی اہلکاروں کی چوکیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کابل دراصل اسے سرحد تسلیم کرتا ہے۔ ڈیورنڈ معاہدہ شاید دُنیا میں سب سے زیادہ مسخ کیا جانے والا اور سب سے زیادہ غلط طور پر حوالہ دیا جانے والا معاہدہ ہے۔

اس معاہدے کی نوعیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں افغانستان اور پاکستان کے عوام کی عدم واقفیت اور کچھ افراد کی جانب سے اس کے متعلق غلط معلومات کی مہم جوئی نے اس کے متعلق بہت سے غلط تصورات کو جنم دیا ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے کہ یہ معاہدہ صرف ایک صدی کے لیے قابلِ عمل تھا، معاہدے کی ساتوں شقوں میں ایسی کوئی معلومات نہیں بلکہ شق نمبر2 افغانستان کو برطانوی ہندوستان کی شمالی آزاد ریاستوں، جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہیں، میں ہمیشہ کے لیے ہر طرح کی دراندازی سے روکتی ہے۔ درحقیقت اس معاہدے کے تحت برطانوی ہند کا ایک بہت بڑا علاقہ افغانستان کے حوالے کر دیا گیا۔

1949ء میں افغان پارلیمنٹ کی جانب سے اس معاہدے کی منسوخی کا اعلان کیاگیا حالانکہ قانوناً اس کے ناقابل عمل ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی بھی معاہدہ یا میثاق یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں ملکوں پاکستان اور افغانستان کے گہرے مفاد میں ہے کہ وہ ان غلط فہمیوں سے گریز کرتے ہوئے خطے کے امن و استحکام کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں۔ بداعتمادی کے ماحول اور کچھ مخصوص لابیز نے دو برادرانہ اقوام کے درمیان طے شدہ مسائل کو دانستہ طور پر اختلاف اور نزاع کے نکات بنا دیا ہے۔ اس سارے معاملے کی جڑیں کم ازکم ڈیڑھ سو سال پرانی تاریخ میں دبی ہوئی ہیں۔

اس وقت یہاں برطانوی راج تھا، برطانیہ کو خطرہ تھا کہ روس بتدریج اسلامی ریاستوں کو ہڑپ کرتا ہوا افغانستان کی طرف آ رہا ہے اور کسی بھی وقت تاجِ برطانیہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اس خطرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا اور 1839ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ یہ پہلی اینگلو افغان جنگ تھی جس میں برطانیہ کو شکست ہوئی اور اس کی پوری فوج میں سے صرف ایک شخص زندہ واپس آیا۔ چند دہائیوں کے بعد تاجِ برطانیہ نے ان ہی خطرات کے پیشِ نظر دوبارہ افغانستان پر چڑھائی کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس وقت کی افغان حکومت گھبرا گئی اور 1893ء میں افغانستان کے شاہ عبد الرحمن خان نے تاجِ برطانیہ کے نمایندے سرہنری مورٹیمر ڈیورنڈ کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور موجودہ ڈیورنڈ لائن کے ذریعے ہندوستان کی طرف کے علاقوں سے دستبردار ہو گیا۔

ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ معاہدہ 100 سال کے لیے ہوا تھا چنانچہ اب یہ منسوخ ہو چکا ہے جب کہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ درحقیقت ابتداء میں یہ صرف شاہ کی زندگی تک محدود تھا یعنی 100 سال سے بھی کم لیکن جیسے ہی شاہ کی موت ہوئی تو وائسرائے لارڈ کرزن نے اس کے بیٹے اور افغانستان کے نئے بادشاہ حبیب اللہ خان کو ڈیورنڈ لائن پر بات چیت کرنے کے لیے انڈیا آنے کی دعوت دی۔ حبیب اللہ نے انڈیا آنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ اپنے باپ کے کیے گئے معاہدے کو جانتا ہے اور اس کی پاسداری کریگا لیکن وائسرائے جانتا تھا کہ معاہدہ ایکسپائر ہو چکا ہے اور نئے معاہدے کی ضرورت ہے، اس لیے وہ بضد رہا۔ حبیب اللہ کے انکار پر وائسرائے لارڈ کرزن نے افغانستان کی 1.8 ملین روپے کی سالانہ امداد روک دی اور افغانستان اور انڈیا کے مابین تجارتی راہداری بند کروا دی، تب حبیب اللہ خان نے خواہش ظاہر کی کہ برطانوی وزیر سرلوئس ڈبیوڈین افغانستان کا دورہ کریں۔

1904ء میں سرلوئس افغانستان آئے اور نئے معاہدے پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ اس طویل بات چیت کے نتیجے میں بالآخر 21 مارچ 1905ء کو مشہور معاہدہ ہوا جس کو ڈین حبیب اللہ ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ تاجِ برطانیہ نے پابندیاں ہٹا لیں، اس میں پہلے معاہدے کی طرح وقت کی کوئی قید نہیں تھی اور افغانستان نے پہلی بار ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کر لیا۔ 8  اگست 1919ء کو افغانستان کے وزیر داخلہ علی احمد خان نے راولپنڈی کا دورہ کیا اور پرانے معاہدے کو دوبارہ تازہ کیا جس کی شق نمبر5 کے مطابق اب ڈیورنڈ لائن افغانستان اور برصغیر کے درمیان ایک مستقل سرحد تھی لیکن اب کی بار معاہدہ صرف ایک بادشاہ نے نہیں کیا تھا بلکہ افغان حکومت نے معاہدے کی توثیق کی تھی۔ اسی معاہدے کی شق نمبر4 کے تحت سر آر سی ڈوبز نے افغانستان کا دورہ کیا تا کہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ سیاسی تعلقات کا آغاز کیا جا سکے۔

یہاں 22 نومبر 1921ء کو ایک اور معاہدہ لکھا گیا جس کی شق نمبر 2 کے تحت تیسری بار افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کر  لیا۔ 6 جولائی 1930ء کو افغانستان کے بادشاہ نادر خان نے ایک وفد انڈیا بھیجا اور ایک بار پھر تمام پرانے معاہدوں کی پاسداری کرنے کا یقین دلایا، یوں عبدالرحمن خان کے بعد حبیب اللہ خان، امان اللہ خان نے دوبار اور نادر خان نے بھی نہ صرف پرانے معاہدے کی توثیق کی بلکہ اسکو وقت کی قید سے آزاد کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کر لیا۔

1947ء سے کچھ عرصہ قبل جیسے ہی قیامِ پاکستان کی باتیں ہونے لگیں تو افغانستان میں کچھ لوگوں نے دوبارہ ڈیورنڈ لائن پر سوالات اٹھائے اور یہ کہنا شروع کیا کہ معاہدہ تو تاجِ برطانیہ کے ساتھ تھا، حکومت تبدیل ہوئی تو معاہدہ منسوخ ہو جائیگا، اسی کا نتیجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف واحد پڑنے والا ووٹ افغانستان کا تھا تاہم افغانستان نہ بین لاقوامی قوانین کے تحت یہ علاقے واپس لینے کا مجاز تھا نہ ہی اتنی طاقت رکھتا تھا کہ پاکستان سے زبردستی یہ علاقے لے سکے، تب اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغانستان 1947ء سے ہی پاکستان میں پختونستان کی تحریک اور بلوچستان میں مری قبائل اور آزاد بلوچستان کی تحریکوں کو سپورٹ کرتا رہا۔

سردار داوؤد کے دور میں پاکستان میں افغانستان کی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ پاکستان کو پہلی بار مری قبائل کے خلاف بلوچستان میں آپریشن کرنا پڑا۔ بلوچستان میں یہ آپریشن ذوالفقارعلی بھٹو کے حکم پر اور نواب اکبر بگتی کی زیرنگرانی ہوا۔ افغانستان سے بارہا یہ مداخلت بند کرنے کی اپیلیں کی گئیں لیکن ان کی طرف سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ بہت سے اسکالرز کے نزدیک 1950ء سے 80ء تک تین دہائیاں افغانستان نے پاکستان میں شورش اور بغاوتوں کی اتنی فنڈنگ کی کہ بعد میںوہ خود روس سے امداد لینے پر مجبور ہو گیا تھا جسکا نتیجہ 79ء میں افغانستان پر روسی حملے کی شکل میں نظر آیا۔

افغانستان کی ہٹ دھرمی پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی بار بالآخر پاکستان نے افغانستان کو جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے جب افغانستان کو جواب دینا شروع کیا تو افغانستان کی چیخیں نکل گئیں اور سردار داوؤد نے پاکستان کا دورہ کر کے اس وقت کی حکومت کو یقین دلایا کہ افغانستان اب پاکستان میں گڑ بڑ نہیں کریگا۔ڈیورنڈ لائن سے متعلق سوال کو افغان حکومت ہمیشہ یہ کہہ کر گول کر جاتی ہے کہ اسکا فیصلہ افغانستان کے عوام کریں گے۔ بھلا ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیے بغیر افغانستان پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات کیسے درست کر سکتا ہے؟

مشرف نے اپنے دور میں ڈیورنڈ لائن میں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کی تو افغانستان اس پرچیخ پڑا تھا، اور تو اور پاکستان میں پشتونستان کے علمبردار اسفند یار ولی نے بھی اس پر شور مچایا تھا۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ معاہدہ زبردستی کروایا گیا جب کہ یہ صحیح نہیں۔ پہلا معاہدہ ایکسپائر ہونے کے بعد باقی چاروں معاہدات افغانستان نے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے کیے تھے۔ امریکا اور برطانیہ سمیت تمام اسلامی ممالک نے ڈیورنڈ لائن کو ایک انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔

بین لاقوامی قوانین بھی افغانستان کے ڈیورنڈ لائن سے متعلق موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ ویانا کنونشن، جس پر افغانستان نے دستخط کر رکھے ہیں، اس کی شق نمبر11 کے مطابق ممالک کی تقسیم کے بعد بھی بین الاقوامی سرحدوںکے لیے اس قسم کے معاہدوں کی پاسداری کی جائے گی۔ اسی کنونشن کے مطابق اس قسم کے پرانے مسئلوں کو بھی اسی کنونشن کے مطابق حل کیا جائیگا، تب افغانستان یہ دلیل بھی نہیں دے سکتا کہ ویانا کنونشن والا معاہدہ بعد میں ہوا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں حالات کا تقاضا یہی ہے کہ افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر حالیہ سرحدی تنازعہ کا معاملہ حل کیا جائے مگر اس کے لیے نوازشریف کا پاکستان میں ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارا نوازشریف کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ فی الوقت ملک کے حالات انتہائی نازک موڑ پر ہیں چنانچہ دھرنوں اور خون خرابے سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ وہ عید سے پہلے وطن واپس آ کر بخوشی مستعفی ہو جائیں تا کہ کسی دوسرے  مدبر لیڈر کو ملک کی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو مرتب کرنیکا موقع مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔