فرائض سے غفلت کی سزا

نسیم انجم  ہفتہ 18 جون 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

صاف وشفاف اور پختہ سیاہ تارکول کی سڑک کے ساتھ ہی ایک راستہ نادرا کے دفتر کی طرف جاتا ہے۔ اس راستے پر چلنا تو دور کی بات ہے صرف دیکھ کر ہی اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہم کسی گوٹھ یا گاؤں میں داخل ہونے والے ہیں، ناہموار راہ ساتھ میں کچرا کنڈی، اصطبل، ایک نہیں دس، بیس گائیں اور دوسرے جانور بندھے نظر آئیں گے کوڑے کرکٹ اور غلاظت کے ڈھیر اور اس میں سے اٹھتی ہوئی بدبو، رکشہ یا گاڑی وغیرہ میں ہوں تو خیر ہے کہ 5 منٹ کا راستہ پل بھر میں گزر جاتا ہے اور رہے پیدل چلنے والے انھیں ذہنی وجسمانی تکلیف زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، جونہی یہ راستہ ختم ہوگا نادرا کا دفتر آجائے گا۔ یہ گلستان جوہر انکم ٹیکس کے دفترکے نزدیک ہے۔

اندر کا حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، ٹوٹی پھوٹی عمارت کچا فرش پرانے زمانے کے دروازے اور کھڑکیاں اور کھڑکیوں کے سامنے مرد و زن کی لمبی قطاریں،کبھی ختم نہ ہونے والی لائنیں، اس کی وجہ ہر دس منٹ بعد سسٹم کا خراب ہوجانا، کام کیسے آگے بڑھے؟ گرمیوں کے تپش زدہ دن، چلچلاتی دھوپ، پانی سرے سے غائب، کینٹین کا کوئی وجود نہیں، نہ جانے لوگ کہاں کہاں سے آئے تھے شناختی کارڈ بنوانے، اسی علاقے کے پرانے رہائشی تھے لیکن گھر تبدیل ہوجانے کے بعد اسی پتے پر ضروری امور انجام دیتے تھے، ویسے تو قوانین کی نہ کوئی پاسداری کرتا ہے اور نہ ہی عمل کیا جاتا ہے، قانون شکنی کا کھیل سالہا سال سے جاری و ساری ہے۔ جب یہ حال ہے اس قانون کا جو زخمی پرندے کی مانند ہے، تو پھر ان لوگوں کو اس بات کی بھی اجازت دی جائے یا چھوٹا سا قانون بنا دیا جائے کہ جو لوگ ایک علاقے سے دوسرے محلوں اور مختلف جگہوں پر کوچ کرگئے ہیں تو انھیں اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھروں سے قریب ترین نادرا کے دفتر میں شناختی کارڈ بنوالیں یا تاریخ تبدیل کروانے کے سلسلے میں دور دراز کا سفر نہ کریں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ نادرا کے دفتر میں تمام معلومات کے بورڈ آویزاں کردیے جاتے تاکہ لوگ دھکے نہ کھائیں،کھڑکی پر جاکر پوچھ گچھ کرلیں کہ کب آنا ہے اورکون سی کھڑکی پر کھڑا ہونا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ہم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک 90 سالہ خاتون کو دفتر آنے کا حکم دیا گیا ۔ وہ عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ بیمار بھی تھی اس کے لواحقین بضد تھے کہ اس کا کام کیا جائے، سب ضروری دستاویزات ان کے پاس ہیں لیکن ’’میں نہ مانوں‘‘ والا معاملہ چل رہا تھا ان مواقعوں اور ایسے حالات میں نادرا کے منتظمین کو چاہیے کہ انگوٹھا لگوانے، دستخط لینے اور تصویر کشی کے لیے ان کے گھر جائیں اور مکمل کارروائی کریں تاکہ بیمار یا معذور اشخاص کو سہولت حاصل ہو اور وہ تکلیف دہ سفر سے بچ سکیں ۔ ہم نے بھی وہاں کی کسی خاص شخصیت سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی اس کی وجہ منتظم اعلیٰ یا افسران شاید کوئی موجود نہ تھا۔ اپنے فرائض سے غفلت کی مثال ہمارے سامنے تھی، البتہ نادرا میں ذمے دار شخص بھی تھے وہاں کے لوگوں نے ہی نشاندہی کی تھی کہ آپ ان سے بات کرلیں، ہم نے کچھ سوالات کیے اور کچھ باتوں کی وضاحت چاہی لیکن وہ جوابات دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شاید لوگوں کو مطمئن کرنا ان کی ذمے داری نہ ہو۔

سخت گرمی میں دور دراز سے لوگ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ بچے، بوڑھے سب ہی موجود تھے لیکن اس دفتر میں نہ پانی کا معقول انتظام تھا اور نہ ہی کینٹین تھی اور نہ بیٹھنے کے لیے سیٹیں تھیں کہ عمر رسیدہ حضرات دم بھر کے لیے سکھ کا سانس لے لیں۔ ویسے تو سرکاری اداروں کا ایسا ہی بدتر حال ہوتا ہے، نہ جانے اپنے اداروں کی ترقی کے لیے حاصل کرنے والی رقم کہاں جاتی ہے؟ فرنیچر، درودیوار، فرش، پنکھے، دفتری سامان، سب چیزیں غربت کی داستان سنا رہی ہوتی ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ پیسہ افسران بالا کی جیبوں میں جاتا ہے۔ کام کرنے اور کام کرانے والے دہری مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں۔

نادرا کے دفتر میں ہم نے ایک اعجاز نامی شخص کو بھی دیکھا جو بڑی پھرتی کے ساتھ اپنے کام انجام دے رہے تھے، تھوڑی ہی دیر بعد جو اچانک ہماری نگاہ وہیل چیئر پر پڑی تو دیکھا وہی حضرت وہیل چلاتے ہوئے ہمارے قریب سے گزر گئے اف یہ معذور تھے، دونوں پیروں سے، انھیں دیکھ کر ہمارے ذہن میں وہ پیشہ ور بھکاری نوجوان آگئے جو مسواک کی ڈنڈیاں، قلم ، رسالے، کھلونے ہاتھوں میں پکڑ کر بھیک مانگتے ہیں وہ ان چیزوں کی آڑ لے کر گداگری کا منافع بخش دھندا اپنائے ہوئے ہیں۔ اعجاز جیسے لوگ ان لوگوں کے لیے شاندار مثال ہیں۔

ان جیسے لوگوں کی عظمت کو سلام پیش کرنے کا جی چاہتا ہے کہ یہ لوگ اسی قابل ہیں انھوں نے اپنی معذوری کو مجبوری یا بہانہ بناکر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل نہیں کیں بلکہ معاشرے کے لیے روشن مثال بن گئے، تعلیم حاصل کی، ملازمت کی اور اپنا بوجھ بھی اٹھایا اور اپنے بیوی بچوں کا بھی، اعجاز صاحب تعلیم یافتہ ہیں ان کی تعلیم و تربیت ان کے والدین کے مرہون منت ہے۔ جنھوں نے اپنی اولاد کو معاشرے کا مفید شہری بنایا۔ ان کے تین بچے ہیں، بیٹی حافظ قرآن ہے۔ ایک بیٹا میٹرک میں ہے۔ ان لمحات میں مجھے ان کی اہلیہ کے خوبصورت دل و نظر کا بھی احساس ہوا۔

عظیم ہیں وہ خاتون، جنھوں نے ایک معذور لیکن بے حد خوددار اور نیک شخص سے شادی کی، بچوں کی پرورش تعلیم، گھر کا نظام چلانا، ایسے حالات میں آسان نہیں ہوتا۔ ایسی خواتین ان عورتوں کے لیے مثال ہیں، جو اپنے شوہروں کے لیے نت نئی فرمائشیں کرکے عذاب بن گئی ہیں اور انھوں نے اپنی کاوشوں سے اور عمل سے جہنم کا سودا کرلیا ہے۔ ایسی خواتین تعلیم و تربیت اور اچھی صحبت سے یقینا محروم ہوتی ہیں۔ اعجاز صاحب اور ان کی منکوحہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو صبروتحمل، ایثار و قربانی کی مثال بن گئے ہیں۔

اس موقعے پر ہمیں اردو ادب کے ایک اہم شاعر قابل اجمیری کی زندگی کی کچھ جھلکیاں نظر آرہی ہیں وہ تپ دق کے مریض تھے اور اسپتال میں داخل موت کو قریب سے دیکھ رہے تھے کہ اللہ کی کرم نوازی کے ان کی تیمار داری کرنے والی نرس کے دل میں ایک بیمار اور چراغ سحری کی مانند شخص کے لیے لطیف جذبات جاگے اور خلوص کا بے کراں جذبہ ابھرا اور انھوں نے اس بڑے شاعر پر اپنی زندگی دان کردی اور ان کی زوجیت میں آگئیں۔ شاعر کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی اور جینے کی امنگ پیدا ہوئی اور زندگی کا بجھتا ہوا چراغ جل اٹھا اور وہ کئی سال تک جیے۔ وہ عظیم خاتون ماشا اللہ حیات ہیں۔

بات سے بات نکلتی ہے تو دور تک جاتی ہے۔ ذکر تھا نادرا کا۔ یہ ملک کا ایک اہم ادارہ ہے ،لائق تحسین بھی ہے تاہم نادرا کا یہ دفتر جو گلستان جوہر کے بلاک نمبر14 میں واقع ہے، اس دفتر میں جاکر ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، غریب اور کمزور انسان کی روداد سننے والا کوئی نہیں وہ بے چارے صبح سے نکلتے ہیں اور دفتر کے بند ہونے تک قطاروں کو بھگت رہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ دفتر کے عملے کا غیر منصفانہ رویہ ہے، انسانی ہمدردی، ایمانداری اور خلوص نیت کے فقدان نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ اپنے فرائض سے غفلت کی سزا شہریوں کو نہ ملے۔امید ہے نادرا کے انسان دوست ارباب اختیار ان معروضات پر توجہ دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔