کراچی کی دلدل

طلعت حسین  جمعـء 23 نومبر 2012
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

کراچی میں فوجی آپریشن نہیں ہو گا۔ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس بیان کے بعد اُن تمام قیاس آرائیوں کو ختم ہو جانا چاہیے جو پچھلے چند ہفتوں سے سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔

لیکن یہ ختم نہیں ہوں گی۔ فوج کو کراچی کے معاملے میں ملوث کرنا محض بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ایک قدم ہی نہیں ہے اِس کے پیچھے وہ خطرناک سوچ بھی موجود ہے جو چاہتی ہے کہ اندرونی طور پر ایسا فساد کھڑا ہو جائے جس میں تمام ادارے بھسم ہو جائیں اور جس کے ذریعے بین الاقوامی طور پر پاکستان میں خلفشار کو بنیاد بنا کر بیرونی مدد طلب کی جائے۔ ہو سکتا ہے اِس تجزیے سے مبالغے کی بو آتی ہو۔ عین ممکن ہے کہ فوج کو کراچی میں خون خرابے کو روکنے کے نام پر دی جانے والی درخواست نیک نیتی پر مبنی ہو لیکن نیتوں کا حال تو خدا بہتر جانتا ہے۔ سیاسی طور پر بہرحال حالات کسی معصوم سوچ کی عکاسی نہیں کرتے۔

ہمیں کراچی میں سویلین حکومت کی ناکامی کے معاملے کو غور سے دیکھنا ہو گا۔ تا کہ ہم سمجھ پائیں کہ یہ ناکامی حقیقی ہے اور کسی جعل سازی کا نتیجہ نہیں ہے۔ عموماََ ایسی ناکامی سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ موجودہ ادارے اور لیڈر اپنی سر توڑ کوششوں کے باوجود حالات پر قابو نہیں پا سکے اور تمام تر گُر آزمانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فوج کی مدد طلب کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کراچی میں حیرت انگیز طور پر آپ کو ایسی سنجیدہ کوشش کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ سویلین حکومت نے اپنی طرف سے حتمی تو کیا واجبی کاوش بھی نہیں کی۔

مثلاً سب کو معلوم ہے کہ کراچی میں پچھلے چند برسوں میں آٹھ ہزار کے قریب پولیس کی سیاسی بھرتیوں کے بعد اِس ادارے کا بھرکس نکل گیا ہے۔ پانچ ہزار بھرتیاں ایک سیاسی جماعت اور تقریباََ تین ہزار دوسری سیاسی جماعت نے کرائی ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنے سیاسی نا خدائوں کے تابع ہیں۔ ان کے ذریعے تھانے خریدے جا چکے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کے عسکریت پسند یا جاسوسی کرنے والے یونٹس کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے لیے معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ بھتے کی وصولی میں معاونت کرتے ہیں اور کسی افسر کو خاطر میں نہیں لاتے۔

اِن حالات میں اعلیٰ پولیس افسران تبدیل کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ جب پولیس کی بنیاد ہی کھوکھلی کر دی گئی ہے تو نئی ٹوپی گھمانے سے کیا فرق پڑے گا۔ کیا پچھلے تمام سالوں میں جب کراچی کربلا میں تبدیل ہو رہا تھا صوبائی حکومت نے یرغمال بنی ہوئی پولیس کو آزاد کرانے کی کوئی کوشش کی؟ بالکل نہیں کی۔ وہ تو یرغمال بنانے والوں کا حصہ بنی رہی۔ کیا کوئی ذی شعور شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اِس مثال سے صوبائی حکومت کی سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔

اِسی طرح کا معاملہ اس قانون سازی کا ہے جس کے ذریعے پکڑے ہوئے ملزموں کو مجرم ثابت کر کے قرار واقعی سزا دی جا سکتی ہے۔ سیکڑوں بلکہ بعض رپورٹس کے مطابق ہزاروں خطرناک مجرم جیلوں میں سے ایسے نکل گئے جیسے مکھن میں سے بال نکلتا ہے۔ سو ڈیڑھ سو قتل کرنے والے دو مہینے پولیس کے پاس اور پھر ملک سے باہر عیاشی کی زندگی گزارنے کے لیے انتہائی اطمینان کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ قانون سازی کرنا صوبائی اور وفاقی حکومت کا کام ہے۔ عدالتوں کو موثر بنانا انتظامیہ، مقننہ اور اعلیٰ عدلیہ کا کام ہے۔

مگر اِس کے باوجود اِس ضمن میں کچھ پیش رفت نہیں ہوئی۔ صوبہ سندھ دوسرے صوبوں کی طرح بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے سامنے کوئی موثر قانونی اور انتظامی دیوار کھڑ ی نہیں کر سکا۔ اِن حالات میں موجودہ قوانین سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ وہ بھی نہیں کیا گیا۔ رینجرز کے پاس صرف اتنا اختیار ہے کہ وہ ملزمان کو پکڑے جس کے بعد پکڑے جانے والے اسی نظام میں واپس بھیج دیے جاتے ہیں جہاں پر اُن کو پروان چڑھانے والے اپنے تمام تر اثر و رسوخ کے ساتھ موجود ہیں اور اُن کی رکھوالی اور ضمانتِ زندگی و فلاح بعد از گرفتاری دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ دیکھنے کو تو رینجرز سڑکوں پر تمام رُعب و دبدے کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

اِس ادارے کی کمان جن ہاتھوں میں ہے انھوں نے فاٹا کے بدترین حالات دیکھے ہوئے ہیں لیکن انتظامی اجازت اور قانونی مدد کے بغیر رینجرز غیر موثر ہو چکی ہے۔ اِس کو موثر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کراچی میں موجود تمام سیاسی جماعتیں صوبائی کابینہ اور وزیر اعلیٰ کو معلوم ہے کہ وہ اگر چاہیں تو رینجرز کراچی میں دیر پا امن کا باعث بن سکتی ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ بنیادی قدم اٹھانے سے ہچکچا رہی ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ ایک سفاک اور سیاسی تعصبات سے بالا آپریشن اُن کی طاقت اور بھتہ خوری کے نظام کو تہس نہس کر دے گا۔ لہٰذا وہ اپنے اس اختیار کو استعمال نہیں کر رہے مگر روزانہ ٹیلی وژن پر بیٹھ کر کفِ افسوس ضرور ملتے ہیں کہ حالات ہمارے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آرمی آپریشن کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کو علم نہ ہو کہ اُن کے پاس کتنے اختیارات موجود ہیں جن کے ذریعے وہ فوج کو بروئے کار لائے بغیر معاملات کو سدھار سکتے ہیں مگر اِس کے باوجود فوج کو بلانے پر اصرار اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ کراچی میں امن و امان کو قابو کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ فساد کو بڑھانا اور بحیرہ عرب پر واقعہ اِس اہم ساحلی شہر میں ایک ایسا مسئلہ کھڑا کرنا ہے جس میں بیرونی طاقتیں بھی ملوث ہو جائیں۔

فوج کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اُس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا اور محدود پیمانے پر بدترین اندرونی صورتحال کو درست کرنے میں کردار ادا کرنا ہے۔ ایسے مسائل جن کی جڑیں سیاسی سازشوں، طاقت میں بیٹھے ہوئے مافیا کے گھنائونے کردار اور قابلِ حل انتظامی چیلنجز میں موجود ہوں فوج کے حوالے نہیں کیے جا سکتے۔ فوج کو طلب کر کے اور اُن کے ہاتھوں سے شہری علاقوں میں ملزموں کو پکڑوا کر پاکستان کا وہ نقشہ سامنے لایا جائے گا جس سے بین الاقوامی خبریں بنیں گی اور پھر جب گہرے مقامی جرائم پیشہ مفادات پر ضرب لگے گی تو کوئی گروپ یہ پریس کانفرنس کر دے گا کہ خدا را اقوام متحدہ ہماری مدد کرے کیونکہ ہم بے موت مارے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ عدالتیں موثر ہوں گی، نہ جرائم میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قانون سازی ہو گی یعنی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔ کراچی کے شہریوں نے فوج کو ووٹ نہیں دیے، انھوں نے سیاستدانوں کو اپنی زندگیاں سنوارنے کے لیے طاقت دی ہے۔ کراچی کا گند اِنہی نمایندگان نے صاف کرنا ہے۔ فوج اگر اِس طرف قدم بڑھائے گی تو دلدل میں پھنس جائے گی۔ ایسی دلدل جو احتیاط اور منصوبے سے تیار کی جا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔