کچھ سیاسی باتیں…

ایس ایس مرزا  جمعـء 23 نومبر 2012

یوں تو دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی شعبے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے شہرت حاصل کر لیتا ہے لیکن ’’سیاست‘‘ نہیں؟

کیوں کہ سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس میں اچھی کارکردگی، اچھی گفتگو، آداب، انداز فکر، اچھے خیالات بھی بعض اوقات دشمنی مول لینے کے مترادف ہوا کرتے ہیں، کیوں کہ اس شعبے میں ’’کارکردگی‘‘ کے حامل لوگ اصول پرست نہیں ہوتے ’’کبھی کچھ، کبھی کچھ‘‘ یہی وجہ ہے کہ سیاست دانوں پرکیچڑ بھی اسی قدر اچھالی جاتی ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں کہ فلاں اچھا کام انجام دے رہا ہے مگر اس شخص کے تمام اچھے کام دوسروںکو برے لگتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کرنے والی اچھائی،انداز فکر و سوچ ان کی ’’ساکھ‘‘ کو مجروح کر رہی ہوتی ہے۔

کیونکہ اس شخص کے مقابلے میں برسوں سے سیاست کرنے والوں کے لیے چیلنج بن جاتا ہے جس کی وجہ سے عناد دلوں میں پیدا ہوجاتا ہے کہ ’وہ‘ اتنا اچھا کام انجام دے رہا ہے اور ’ہم‘ نہیں کرسکے۔ نتیجتاً اس شخص کے خلاف آوازیں بلند ہوتی ہیں،مختلف زاویے سے پریشان کیا جاتا ہے، جو زمینی دباؤ کے مترادف ہے تاکہ ’وہ‘ اچھائی ملک کی بقا وسلامتی کے لیے سود مند نہ ثابت ہوسکے۔

سیاست کے تمام پہلوئوں پر تمام حلقوں کو دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا اس ’فعل‘ میں کارکردگی کے حامل لوگ ایسا تو نہیں کہ کوئی ’ریا‘ کا پہلو چمک اٹھا ہو، جو دوسروں کو متوجہ کررہا ہو، جو اس سبجیکٹ (سیاست) میں نئی نویلی دلہن کی طرح اپنانے کی جستجو میں میدان مارنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے وہ سیاست جانیں یا نہ جانیں، سمجھیں نہ سمجھیں ۔ اگر یہی طریقہ وسعت اختیارکرگیا تو انتشار اور افراتفری کے سوا اس معاشرے کا کیا مقدر ہوگا؟ توڑ پھوڑ، جلاؤگھیراؤ، خون خرابہ!

پاکستان کی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو سیاست کے افق پر چمکنے والی ہستیاں صرف تین ہی نظر آئیں گی۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو ، ویسے تو مرحوم نواب زادہ نصراﷲ خان، غلام مصطفیٰ جتوئی، پروفیسر غفور، نواز شریف اور محترمہ شہید بے نظیر یہ سب حقیقی سیاست دان تھے اور ہیں ان کی سیاست کا جذبہ بے لوث رہا ہے، ان شخصیتوں نے اپنی سیاست میں مفاد کو شامل نہ رکھا، ملک و قوم کے لیے سیاست کی۔ ماضی کے ان سیاست دانوں کی زندگی پر نظر دوڑائیے۔ مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی، حسین شہید سہروردی، ان لوگوں کی سیاست بے لوث تھی۔

اپنا کھاتے کماتے پھر سیاست کرتے، سیاست کا جذبہ تھا وطن عزیز کے لیے۔ انتہائی سادگی پسند طرز عمل، فطری انداز پاک و پاکیزہ و روشن شعور کے حامل تھے، یہ تھی ان سیاست دانوں کی عملی بصیرت ۔ اور آج کی سیاست مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ بھٹو شہید عوام کی ضرورتوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے، انھوں نے عوام میں سیاسی شعور کو بیدار کیا ۔ کہاوت کے مطابق جب تک غصہ و تکبر باقی ہے خود کو ’’اہل علم‘‘ میں شمار نہ کرو۔ انسانی فطرت بھی ہر ایک کی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ سوچ و فکر، اخلاق و آداب، ہر شخص کی جدا جدا ہوا کرتی ہے، اچھائی اور برائی، یہ برابر کے شریک ہیں۔

درحقیقت ’’سیاست ایک ہنر ہے‘‘۔ جو بات دل سے نکلتی ہے، وہ دلوں پر اثرکرکے ہی رہتی ہے، اگر ہم اپنے الفاظ سے ان باتوں کو (جو سدھار کا راستہ ہے) ظاہر کرنا بھی چاہیں تو ان کا ان لوگوں کے دلوں تک پہنچانا نہایت ہی مشکل ہے، اس لیے کہ نہ دل میں درد ہو اور نہ سوزجگر نہ ذوق طلب اور نہ ہی شوق قبول، تو تاثیر کیسے ہو؟ دل ودماغ تو ’مفاد‘ کی طرف جھک چکا ہے۔ ہماری سیاست بالکل مختلف ہے ہماری سیاست کے پس پردہ نفسانی خواہشات کا بڑا عمل دخل ہے۔ خواہشات انسان کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہیں جنھیں لاکھ چاہیں تو بھی کوئی ذہن کے گوشے سے جھٹک نہیں سکتا۔

نفس انسانیت جیتے جاگتے انسان کو خواہشات کے بندھن میں اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ پھر ان تمام نفسیاتی خواہشات کو عمل میں لائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں رہتا، اب چاہے وہ ’’اقتدار‘‘ کی ہو یا ’’دولت‘‘ کی ۔ سیاست گزار ایسے اصول پرکاربند رہتے ہوئے وقت کے ساتھ خود کو بدل لیتے ہیں۔ ’’کبھی کچھ تو کبھی کچھ‘‘ سیاست کے پہلو پر تھوڑا سا غور کیجیے… ایک بزرگ سیاست داں (مرحوم) نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ صدر پرویز وردی اتارکر صدر نہیں رہ سکتے‘‘ جب کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کا کہنا تھا کہ اگر جنرل مشرف وردی اتاردیں تو حکومت سے تعاون کریں گے۔

دیکھیے سیاست کیا ہے، سمجھ میں آیا بھائی ۔ وردی تو ہماری پہچان ہے، ہمارا وقار، ہماری ضمانت، ہماری اور ملک کی، یہ تو فوج کی میراث ہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق، بھی برسوں تک اسی وردی میں ہی اقتدار پر قابض رہے۔ یہ سیاست بازی کا انداز درست نہیں بلکہ درگزر کریں۔ کیوں کہ ایسی باتیں فکری انداز کے نقطہ نظر سے ہٹ کر تھیں۔ موجودہ صورت حال پر ہر شخص سیاست دان بن بیٹھا ہے جدھر نگاہ دوڑایئے بس ایک ہی چرچا ہے ’’سیاست‘‘۔ فلاں نے ایسا کہا ، فلاں نے ایسا کیا ، فلاں ایسا کر رہا ہے ، وغیرہ وغیرہ گویا ہر سمت سیاست ہی سیاست ہے آپ کا ہر قدم ہر مرحلہ ، آپ کا جینا مرنا ہنسنا بولنا آپ کی ملازمت ، آپ کا کاروبار سیرو تفریح، یہ سب وابستہ ہے سیاست سے ۔

لہٰذا اگر ’’آپ‘‘ (ایک عام آدمی) دوسروں کے ساتھ قدم ملا کر نہ چل سکے تو زندگی کا ہر پہلو ادھورا رہ جائے گا۔ ’’درحقیقت زندگی کے تمام ادھورے پہلوئوں کو حسب منشا کامیاب بنانے کے لیے سیاست سے بہتر اور کچھ نہیں ۔ آپ نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں ہاتھ پیر ہلا کر دو چار جذباتی باتیں ادا کرنی ہیں ۔ بس پھر دیکھیے عوام کا ہجوم آپ کے ساتھ گویا اپنے مفاد کے لیے دوسروں پر دباؤ ڈال کر آپ اپنی برتری قائم رکھ سکتے ہیں تاکہ آپ کا بول بالا برقرار رہے پھر آپ ایک اچھے مقرر اور بہترین سیاست داں کہلائیں گے ۔ملک کے بدترین حالات پر صاحبان اقتدار وحزب اختلاف ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ۔

ملکی حالت زار سے لاپرواہی پاکستان کی سلامتی و بقاء پر گہرا اثر مرتب ہوگا ، اگر قبل از وقت تمام مسائل کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل نہ کیا گیا تو ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھنا مشکل ہوگا ۔ تمام سیاسی رہنماؤں اور موجودہ حکومتی قیادت کی اولین ذمے داری ہے کہ آپس کی رسہ کشی اور نااتفاقی و ناچاقی کو بالائے طاق رکھ کر ملک بچانے کے لیے مخلصانہ کوششیں کی جائیں ۔ ’’ہم‘‘ انسان یوں تو کہنے کو اشرف المخلوقات ہیں ،جسے پروردگار عالم نے اس اعزاز سے نوازا ہے کیا ’’ہم‘‘ اﷲ اور اس کے حبیبﷺ کے احکام کی پاسداری کا خیال رکھ کر اپنا فرض ادا کرتے ہیں؟ جواب نہیں میں ہے ۔

ہمارا ہر فعل غیر فطری عمل پر مبنی ہے سیاست یہ نہیں کہ بیرونی طاقتوں کے زیر اثر رہ کر اپنا الو سیدھا کیا جاتا رہے سیاست پاک و پاکیزہ عمل ہے ۔ موجودہ صورت حال میں پورا ملک شدید بحران سے دوچار ہے بالخصوص توانائی کے بحران نے تو 18کروڑ عوام کی خوشیاںہی چھین لیں۔ کیا یہی جمہوریت کہلاتی ہے؟ عوام ایسی جمہوریت سے کوسوں دور ہے جہاں عوامی حق برائے نام ہو جمہوریت کے تقاضے تویہ بتاتے ہیں کہ عوام کی شراکت ہی جمہوری نظام کا ستون ہوا کرتا ہے یہاں تو ایسا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ یہ روشنی کے شہر پر کالے بادلوں کا راج ہے کب’’سحر‘‘ ہو اور جگمگاتی جھلملاتی کرن نمودار ہوگی یہی عوام ’’لو‘‘ لگائے بیٹھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔