مضبوط ریاست اور دہشت گردی

نصرت جاوید  جمعـء 23 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کسی بھی ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہو تو سب سے پہلے وہاں کی ریاست کو اس کے لیے مضبوط ارادہ باندھنا ہوتا ہے۔

نائن الیون کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا نے یہی کیا تھا۔ بحث برائے بحث کی خاطر آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکی ریاست بے پناہ وسائل کی مالک ہے۔ اس کا موازنہ پاکستان جیسی کمزور ریاستوں کے ساتھ کرنا زیادتی ہے۔ چلیے امریکا کو بھول جاتے ہیں۔ مگر سری لنکا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان کا حال تو ہم سے بھی کہیں پتلا رہا ہے اور وہاں تامل حقوق کے نام پر حالیہ تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑی گئی اور سب سے زیادہ خودکش حملے بھی اسی تحریک کے لوگوں نے کیے۔ مگر بندرا نائیکے کے بعد جو قیادت منتخب ہوئی، اس نے ہر صورت میں تامل دہشت گردوں کے خاتمے کی ٹھان لی۔ ساری دُنیا انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ کے نام پر چیختی چلاتی رہتی مگر وہاں کی ریاست اپنے کان بند کیے پوری شدت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف رہی اور آج کوئی تاملوں کا ذکر تک نہیں کر رہا۔

بھارت کی مثال دینا شاید میرے کچھ پڑھنے والوں کو پسند نہ آئے۔ لیکن میں پھر بھی وہاں کے پنجاب کا ذکر کرنے پر مجبور ہوں۔ میں اندرا گاندھی کے قتل کے صرف اڑھائی ماہ بعد 1984میں پہلی بار بھارت گیا تھا۔ نئی دہلی میں مجھے بہت سارے سکھ خاندان ملے۔ ان سے اکیلے میں ملتا تو یہ محسوس ہوتا کہ آیندہ چند مہینوں میں کسی بھی وقت ’’خالصتان‘‘ بننے والا ہے۔ مگر وہ اب تک نہیں بنا۔ بلکہ ’’سردار‘‘ منموہن سنگھ گزشتہ آٹھ سال سے پورے بھارت کا وزیر اعظم بنا ہوا ہے۔ میزو رام اور ناگا لینڈ کے علیحدگی پسندوں سے میری دہلی اور دُنیا کے دوسرے ملکوں میں ہونے والے سیمیناروں میں کافی ملاقاتیں رہی ہیں۔ بھارت سے شدید ترین نفرت کرنے کے باوجود خود کو بے بس سا محسوس کرتے ہیں۔ بھارتی ریاست کی طاقت سے خوفزدہ۔

پاکستان میں کئی برسوں سے جاری دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک ہماری ریاست اسے ختم کرنے کا مصمم ارادہ نہ کر لے۔ جنرل مشرف کے دور میں یہ ارادہ بنا تھا۔ مگر پھر یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑتے لڑتے ہم کہیں ان ’’اچھے طالبان‘‘ کی حمایت سے محروم نہ ہو جائیں جنہوں نے افغانستان کو بھارت سے بچانا اور ہمارے لیے اس ملک میں Strategic Depth کو قائم کرنا ہے۔ ارادہ باندھ کر توڑ دیا گیا تو مشرف کے واشنگٹن میں بیٹھے مہربان ناراض ہو گئے۔ این آر او وغیرہ ہوا۔ مگر اس معاہدے کے ذریعے جس کے لیے بساط بچھائی جا رہی تھی، وہ 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں مار دی گئیں۔ این آر او تو تھوڑا بہت چل پڑا مگر جیت بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے والوں کی ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کی وجہ سے گزشتہ ساڑھے چار سال سے اقتدار میں بیٹھے ہوئے مہمان کلا کار ہمہ وقت ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔ اپنی جان بچانے کے خوف سے جارحانہ پہل قدمی کے قابل ہی نہیں رہے۔ ان کے جو کسی زمانے کے ’’سیکولر‘‘ اتحادی ہوا کرتے تھے۔ سوات میں امن کے قیام کے لیے مولوی صوفی محمد کی خوشامدیں کرنے پر مجبور ہوئے۔

صوفی محمد کوئی مدد نہ کر پایا تو پاکستانی فوج سے رجوع کرنا پڑا۔ فوج نے بھر پور آپریشن کے ذریعے ’’ملاریڈیو‘‘ کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اسے فرار ہوئے تین برس بیت چکے ہیں۔ سوات میں آج بھی آپ کو منتخب افراد کے زیر نگرانی چلنے والی وہ انتظامیہ نظر نہیں آئی جو شہریوں کو اعتماد دے سکے۔ فوج ان پر چھتری تانے رکھنے پر مجبور ہے اور امیر حیدر ہوتی پشاور میں بیٹھے آیندہ انتخابات میں اپنی جماعت کے لوگوں کو پشاور، مردان، چارسدہ اور نوشہرہ وغیرہ سے جتوانے کے چکر میں مبتلا ہیں۔ پنجاب کے ’’گڈ گورننس‘‘ والوں کی بنیادی فکر بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے۔ لاہور میں Rapid بس سروس کو چلا کر وہ موٹر وے جیسا ایک اور ’’تاج محل‘‘ دے کر آیندہ کا الیکشن جیتنے کی کوشش کریں گے۔ سندھ اور بلوچستان کے بارے میں خاموش ہی رہنا زیادہ بہتر ہو گا۔

ایسے حالات میں محرم الحرام کے دنوں میں جب بھی کہیں بم دھماکے ہوتے ہیں تو میڈیا سوائے شور شرابے کے اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ میرے منہ میں خاک۔ شاید کچھ اور واقعات بھی ہو جائیں۔ پھر یوم عاشور گزر جائے گا۔ ہمیں حکومت کو رگیدنے کے لیے اور موضوعات مل جائیں گے اور زندگی گزرتی چلی جائے گی۔ دہشت گردی پر محض واویلا کرنے سے کہیں زیادہ مشکل کام چند بنیادی سوال اُٹھانا اور ان کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش ہونا چاہیے تھا۔ کم از کم میں وہ سوال کرنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا۔ جواب ڈھونڈنا تو بہت دور کی بات ہے۔

چند روز پہلے عبدالقادر حسن صاحب نے جنھیں میں ان لوگوں میں شمار کرتا ہوں جن سے میں نے لکھنا سیکھا ہے اپنے کالم میں انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے سنی اور شیعہ کے درمیان تفریق کو اپنے گائوں سے لاہور آ کر دریافت کیا۔ میرا دُکھ ان سے کہیں بڑھ کر اس لیے ہے کہ دلی دروازے لاہور کے حویلی الف شاہ والے محلے میں پیدا ہو کر میں، جس کا باپ لاہور کے موچی دروازے والے چوک نواب صاحب کا تھا، اس تفریق کو اسلام آباد آ کر اس وقت جان پایا جب ضیاء الحق ہمارا مائی باپ ہوا کرتا تھا۔ اس نے بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ’’امیر المومنین‘‘ بننا چاہا تو پاکستان کے دارالحکومت میں رہنے والوں کو پہلی بار پتہ چلا کہ احتجاجی تحریک کیا شے ہوا کرتی ہے اور یہ کس طرح ضیاء الحق جیسے آمر کو بھی اپنے فیصلے تبدیل کر دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کا زکوٰۃ پر فیصلہ تو بدل گیا مگر قوم تقسیم ہو گئی۔

میں جب لاہور میں پیدا ہو کر جوان ہو رہا تھا تو وہاں یوم عاشور کا مرکزی جلوس چوک نواب صاحب سے برآمد ہو کر پرانی کوتوالی کے چوک میں ’’کھلتا‘‘ تھا۔ کشمیری بازار میں داخل ہونے سے پہلے اسی چوک میں دل دہلا دینے والی زنجیر زنی ہوا کرتی تھی۔ چوک نواب صاحب سے لاہور کی قدیمی گلیوں اور بازاروں میں پورے دن کا سفر کرتے ہوئے یہ مرکزی جلوس عصر کے قریب بھاٹی گیٹ سے کربلا گامے شاہ کی طرف شام ِغریباں کے لیے جایا کرتا تھا۔ اس جلوس کے پورے راستے پر خال خال شیعہ گھر ہوا کرتے تھے۔ مگر پورے راستے پر ٹھنڈے پانی اور دودھ کی سبیلیں ہوا کرتی تھیں۔

لوگ زبردستی شربت پلایا کرتے تھے کہ ’’ثواب‘‘ کمایا کرتے تھے۔ چوک نواب صاحب سے کربلا گامے شاہ تک کا یک روزہ سفر ایک ایسے پاکستان کی حیران کن شناخت تھی جو رواداری اور دوسروں کے مسلک کا احترام کرنے والے سیدھے سادے، خدا سے خوف کھانے اور انسانوں سے محبت کرنے والے لوگوں پر مشتمل تھا۔ مگر پھر یوں ہوا کہ ہمارے ہی ملک میں پارسائوں کے گروہ پیدا ہونے شروع ہو گئے جو اسی معاشرے میں ’’راسخ العقیدہ اور ارفع‘‘ مسلمان پیدا کرنے کے جنون میں انسانوں میں سے کافر ڈھونڈ ڈھونڈ کر انھیں مارنا شروع ہو گئے۔ گیا وقت تو شاید دوبارہ ہاتھ نہیں آ سکتا مگر اپنے ہی شہریوں اور ہمسایوں سے ایک بار پھر سیدھی سادی محبتیں استوار کرنے سے ہمیں کون روک رہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔