ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!

تنویر قیصر شاہد  پير 20 جون 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اگر یہ شاندار اور قابلِ فخر کارنامہ کسی غیر مسلم نے امریکا یا مغربی ممالک میں انجام دیا ہوتا تو ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس کی تعریف و تحسین میں آسمان سر پر اٹھا لینا تھا لیکن ہمارے ایک استادِ گرامی نے یہ عظیم الشان اقدام کیا ہے تو میڈیا میں کسی کو توفیق نہیں ہو سکی ہے کہ ان کی ستائش کر سکے تا کہ خیر کی قوتوں کو اور زیادہ تعداد میں آگے بڑھنے کی انگیخت مل سکتی۔ ڈاکٹر ظہیر صاحب نے اپنی مادرِ علمی اور مستحق غریب طلباء و طالبات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے کہ ہمارے سماج میں ایسی مثالیں کم کم ہی ملتی ہیں۔

ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی صاحب کی عمر اس وقت بیاسی برس ہے۔ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں فارسی علم و ادب کے معزز استاد رہے ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور چار درجن سے زائد وقیع کتابوں کے مصنف بھی۔ چند روز قبل اس 82 سالہ بزرگ استاد، جناب ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی، نے اپنی عمر بھر کی حلال کی ساری کمائی اور جمع پونجی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو عطیہ فرما دی۔ اور پچاس لاکھ روپے کی نقد رقم جی سی یو کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ صاحب، کے سپرد کی ہے۔ اس دلکشا اور ایمان افروز خبر کو شایع ہوئے کئی روز گزر گئے ہیں لیکن ہمارے میڈیا میں اس کی باز گشت سنائی نہیں دی گئی ہے۔ شاید ہم نیکی اور خیر کی اشاعت ہی نہیں چاہتے۔ زیادہ مسرت انگیز اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یہ عظیم عطیہ کرنے والے شخص کی ساری اولاد بھی اس کارِخیر میں اپنے والدِ گرامی کی ہمنوا اور ہم قدم ہے۔

ڈاکٹر ظہیر صدیقی صاحب کے ایک صاحبزادے امریکی ارب پتی اور عالمی شہرت یافتہ مخیر (فلنتھروپسٹ) بِل گیٹس کے ادارے (مائیکرو سوفٹ) کے مشیر ہیں۔ ان کی ایک صاحبزادی لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات کی استاد ہیں اور ان کے سب سے چھوٹے صاحبزادے پاکستان ہی میں بروئے کار ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے وابستہ بہت اچھے عہدے پر فائز ہیں۔

جی سی یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر حسن شاہ صاحب نے یہ انکشاف کر کے ہمیں مزید ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی صاحب جب اس مادرِ علمی سے باقاعدہ وابستہ تھے، تب بھی اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ اسی یونیورسٹی کے غریب اور مستحق طلباء کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے پر صَرف کر دیا کرتے تھے۔ اس تعلیمی ادارے کی طرف سے ہر سال مستحق اور لائق طلباء کو دو کروڑ روپے کے وظائف جاری کیے جاتے ہیں۔ جی سی یو انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ کے سیکریٹری ڈاکٹر خالد منظور بٹ صاحب بھی ایک بیان میں اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر صاحب کا یہ اقدام اس امر کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں خیر کی قوتوں میں کوئی کمی نہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی صاحب کا عمل بھی لائقِ صد ستائش و تقلید ہے اور جی سی یو کا انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ بھی۔ رمضان شریف میں بہت سے مسلمان صاحبانِ نصاب اور اہلِ ثروت مستحقین میں زکوٰۃ و صدقات تقسیم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے بھی لاتعداد مخیر حضرات موجود ہیں جو خصوصاً اسی ماہِ مبارک میں یتیموں اور مسکینوں کے ایسے اداروں کو بھاری رقوم عطیات کرتے ہیں جہاں ان بے یارومددگار افراد کی کفالت کی جاتی ہے۔ وطنِ عزیز میں خیرات اور صدقات پر چلنے والے بہت سے اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی رمضان المبارک کے دوران ہی زیادہ امداد و اعانت وصول کرتے ہیں۔

اہلِ دل، دل کھول کر اللہ اور اللہ کے آخری نبی ؐ کی خوشنودی اور رحمت کے حصول میں رفاہِ عامہ کا کام کرنے والوں کی دستگیری کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے کئی اداروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان کا شوکت خانم کینسر اسپتال، جناب عبدالشکور کی زیرِ قیادت الخدمت فاؤنڈیشن، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی نگرانی میں بروئے کار کاروانِ علم فاؤنڈیشن، تہی دستوں کا ہاتھ تھامنے والے ڈاکٹر امجد ثاقب کا ادارہ ’’اخوت فاؤنڈیشن‘‘، جناب لختِ حسنین کے زیرِ انتظام خدمات انجام دینے والا ’’مسلم ہینڈز‘‘ اور ملکی و غیر ملکی سطح پر بنی نوعِ انسان کی سیوا میں جُٹے جناب عبدالرزاق ساجد کا ادارہ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی‘‘ کا وجود ہم سب کے لیے غنیمت بھی ہیں اور قابلِ فخر بھی۔ جناب عبدالشکور نے ایک مدت امریکا میں رہ کر اب جب سے ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کو اپنی خدمات پیش کی ہیں، اس ادارے کی متنوع خدمات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

اس حوالے سے جناب خالد ارشاد صوفی کی مرتب کردہ کتاب (جوہرِ قابل) کا مطالعہ کیا جائے تو حیرانیوں کے کئی باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے ’’اخوت‘‘ کی کامیاب کہانی کا شہرہ چہار دانگ عالم میں ہے۔ اس سلسلے میں ’’سٹین فورڈ سوشل اِنوویشن ریویو‘‘ کی تحقیقی رپورٹ تو خاصی چشم کشا ہے اور اس ادارے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی شو بھا میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ’’مسلم ہینڈز‘‘ اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ تو برطانیہ میں رہ کر فنڈز اکٹھا کرتے ہیں لیکن ان کے اکٹھے کیے گئے  عطیات سے پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کے کئی ممالک کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تہی دست مستحقین استفادہ کر رہے ہیں۔ یوں لخت حسنین صاحب ہوں یا عبدالرزاق ساجد صاحب، برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان، بنگلہ دیش، صومالیہ، کینیا، سری لنکا، برما، بوسنیا وغیرہ کے غریب مسلمانوں کی دعائیں سمیٹ کر اپنے دامن بھر رہے ہیں۔

مجھے لندن کے چند معتبر پاکستانی اخبار نویسوں نے بتایا کہ رمضان المبارک کے آغاز میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے سربراہ عبدالرزاق ساجد صاحب نے لندن میں ایک ’’ڈونر ڈِنر‘‘ کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی نژاد برطانوی مسلمانوں کے علاوہ کئی دیگر ممالک کے لوگوں نے بھی جوق در جوق شرکت کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی شام ایک لاکھ پونڈ سے زائد رقم بطور عطیہ اکٹھی ہو گئی۔ اس بھاری رقم کا اکٹھا ہونا دراصل ’’المصطفیٰ ٹرسٹ‘‘ پر ٹرسٹ کا عملی اظہار تھا۔ راقم نے عبدالرزاق ساجد صاحب کو فون کر کے اس رقم کی تصدیق چاہی تو انھوں نے بھی اثبات میں جواب دیا۔ اب اس قافلۂ نیکو کاراں میں ہمارے دوست محمد ضیاء الحق نقشبندی بھی شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں ہی اس میدان میں پہلا قدم رکھا ہے اور کئی مخیر حضرات اور اہلِ دل نے امداد و اعانت کے لیے ان کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ اللہ ان کی نیتوں کا ثمر عطا فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔