اسحاق ڈار صاحب کی جناب میں ایک عرضی!

محمد سعید گھمن  پير 20 جون 2016
ایک غریب آدمی جس کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ آپ نے 14 ہزار مقرر کی ہے، اس کے پاس تو کھانے کو دال روٹی ہی بچتی ہے اور وہ بھی پانی والی۔ وہ مرغی کہاں سے کھائے گا؟

ایک غریب آدمی جس کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ آپ نے 14 ہزار مقرر کی ہے، اس کے پاس تو کھانے کو دال روٹی ہی بچتی ہے اور وہ بھی پانی والی۔ وہ مرغی کہاں سے کھائے گا؟

جناب وزیر اعظم نواز شریف کے سمبدھی اور عصرِ حاضر کے سب سے ہوشیار کہلائے جانے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو واقف نہ ہو۔ کوئی بھی حکومتی کمیٹی چاہے وہ دھاندلی پر بنائی گئی ہو یا پاناما لیکس پر، موصوف ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ویسے تو دیکھنے میں آپ محترم انتہائی سنجیدہ نظر آتے ہیں، مگر بعض اوقات اِدھر اُدھر کے چٹکلے بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ 

یہ حقیقت ہے کہ آپ حضور جو بجٹ ہر سال پیش کرتے ہیں اس کا غریب عوام کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہوتا ہے۔ اگر مہنگائی کی چکی میں پستی ہوئی عوام آپ سے آسمان کو ہاتھ لگاتی ہوئی دالوں کی قیمتوں کے بارے میں سوال کرتی ہے تو کون سا غیر عقلی سوال پوچھ لیا ہے؟ جس پر آپ جواب کے طور پر عوام کو دال کے بجائے مرغی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں؟ گویا آپ کا یہ مشورہ دینا غریبوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ جیسے ن لیگ نے وزیروں کے بجائے جگت بازوں کی ٹیم بھرتی کرلی ہے۔

ایک غریب آدمی جس کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ آپ نے 14 ہزار مقرر کی ہے، اس کے پاس تو کھانے کو دال روٹی ہی بچتی ہے اور وہ بھی پانی والی۔ وہ مرغی کہاں سے کھائے گا؟ ویسے بھی ٹیکسوں کے ذریعے جس طرح آپ نے عام آدمی کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے اس کے لئے زندگی گزارنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ معیاری تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولت عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اسحاق ڈار کے اس مشورے نے فرانس کے انقلاب کے دوران ملکہ فرانس کی یاد تازہ کردی جنہوں نے عوام کو بریڈ کے بجائے کیک کھانے کا مشورہ دے دیا تھا۔

ایک حکمران جماعت کے نمائندے اور بحیثیت سیاستدان اسحاق ڈار صٓحب کا یہ غیر سنجیدہ رویہ انتہائی نامناسب اور قابل مذمت ہے۔ جس میں وہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مرغی کھانے کے مشورے دے رہے ہیں۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی ضرویات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ کبھی اس ملک میں آٹے کا بحران آجاتا ہے تو کبھی چینی کا، اور کبھی آلو اور پیاز کی شدید قلت ہوجاتی ہے۔ اس میں ناکامی ملکی پیداوار کی نہیں بلکہ ان نااہل حکمرانوں کی ہے جو ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے اوپر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں۔

غیر مسلم ممالک جہاں رمضان کے مقدس مہینے میں اشیاء خوردونوش سستی ہوجایا کرتی ہیں لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا اور اسی مقدس مہینے میں معرض وجود میں آیا، مگر یہاں پر گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ یہاں پرعام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں دگنی ہوجاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انسان کے اندر سے اس کے خالق کا خوف ہی ختم ہوگیا ہے۔

ایسا ملک جہاں کاروباری حضرات ہی حکمران ہوں وہاں غریب عوام کو کون پوچھنے والا ہے؟ جہاں پر ہر چیز بدعنوان لوگوں کے رحم و کرم پر چلتی ہو اور جہاں حکمران کرپشن کے خلاف تحقیقات کرنے سے ڈرتے ہوں توں ایسے میں اسحاق ڈار صاحب کا بیان زیادہ تعجب کا باعث نہیں۔ عوام کا مذاق یہ لوگ نہیں اڑائیں گے تو کون اڑائے گا؟ اس میں قصور ان مذاق اڑانے والوں کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا جنہوں نے ووٹ دے کر اپنا حکمران چنا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور500 الفاظ پرمشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصرمگرجامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویراورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔