رمضان، مہنگائی اور خرافات

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 22 جون 2016
advo786@yahoo.com

[email protected]

ایک خبر کے مطابق گورنر سندھ کے زیر سرپرستی صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل کنزیومر رائٹس کونسل نے رمضان میں پھل فروشوں کی جانب سے من مانے نرخوں پر فروخت کے خلاف انوکھے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

کونسل کے اراکین نے کمشنر کراچی سے ملاقات کی اس موقعے پر شہر میں گراں فروشوں کے خلاف کارروائیوں، گراں فروشوں کی گرفتاری اور بھاری جرمانوں سمیت دیگر آپشنز پر غور کیا گیا۔ پھلوں کی ہوش ربا قیمتوں کے خلاف احتجاجاً 3 روزہ بائیکاٹ کی تجویز پیش کی گئی جس کے تحت صارف سے اپیل کی جائے گی کہ وہ 18 جون سے 20 جون تک تین دنوں کے لیے پھلوں کی خریداری کا بائیکاٹ کریں، نتیجتاً طلب کم ہونے پر پھل فروش خود ہی مناسب قیمتوں پر پھل فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

کمشنر کراچی نے اس تجویز کی توثیق کرتے ہوئے انتظامیہ کی جانب سے مکمل معاونت اورکم آمدنی والے طبقے کو مہنگائی سے نجات دلوانے کے لیے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس خبر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گورنر اور انتظامیہ گراں فروشی ختم کرانے میں قطعی طور پر ناکام ہے اور اب اس سلسلے میں وہ کسی عوامی مہم یا عوامی  ردعمل پر آس لگائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب کنزیومر ایسوسی ایشن نے بھی مہنگے پھل فروخت کرنے والوں کے خلاف ایک ہفتے کی بائیکاٹ مہم کا آغاز کر دیا ہے اور پورے ملک کے صارفین سے مہنگی اشیا کی خریداری کا بائیکاٹ کرنے کی مہم میں ساتھ دینے کی اپیل کی ہے۔

ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ ملک میں مقررہ قیمت پر ایک فیصد صارفین کو بھی روز مرہ کی اشیا میسر نہیں ہیں۔  حکومتی ادارے مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ کراچی میں منافع خوروں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر پر حملہ کیا اس کے باوجود منافع خوروں کے خلاف کوئی باضابطہ کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی چیئرمین نے بتایا کہ کمشنر سے میٹنگ میں انھوں نے کہا تھا کہ منافع خوروں کے خلاف یا تو سخت کریک ڈاؤن کیا جائے یا پھر لگام چھوڑ دیا جائے ان سے اللہ ہی حساب لے گا۔

حقیقتاً نظر بھی یہی آتا ہے کہ حکومت نے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو بے لگام اور عوام کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے کبھی کبھار وقتی طور پر نمائشی قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کے غیر حقیقی وغیر موزوں ہونے کی وجہ سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے ہزاروں پر جرمانے ہوتے ہیں چند سو کو گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے اس عمل سے کچھ لوگوں کے ساتھ زیادتی بھی ہو جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر بے خوفی ڈھٹائی کی فضا قائم رہتی ہے۔ سرکاری اہلکار گراں فروشوں کے خلاف مہم پر نکلتے ہیں تو دیکھا گیا ہے کہ پھل فروشوں کے ٹھیلے الٹ دیتے ہیں۔

ان کے پھل مفت لٹوا دیتے ہیں۔ ٹیم کو دیکھ کر خوف سے دکانیں چھوڑ کر بھاگ جانے والوں کی دکانوں سے کیش و دیگر قیمتی سامان تحویل میں لے لیا جاتا ہے دودھ والوں کے خلاف مہم میں شکایتیں ملیں کہ اہلکار غلے سے تمام کیش لے گئے اور گاہکوں کے سامنے ایک پرچی پر رقم کی مالیت لکھ کر چھوڑ گئے کہ جب یہ دکاندار آئے گا تو متعلقہ اہلکاروں سے رقم واپس وصول کر لے گا۔ کچھ افسران قیمتیں اس طرح کنٹرول کرتے دیکھے گئے ہیں کہ وہ گوشت، مرغی یا دودھ والے کی دکان پر جاتے ہیں اسے کھڑا کر کے کلمہ پڑھوا کر حلفیہ بیان لیتے ہیں کہ وہ مذکورہ اشیا حکومتی نرخ نامے کے مطابق فروخت کر رہا ہے۔ دکاندار کے سامنے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو سچ بول کر جرمانہ اور سزا کا سامنا کرے یا پھر کلمہ پڑھ کر جھوٹا حلف دے۔ چھوٹے دکانداروں کا کہنا ہے کہ انھیں تو اشیا صرف منڈیوں اور بازاروں سے ہی مہنگی ملتی ہیں اس لیے وہ سرکاری نرخ ناموں کے مطابق اشیا فروخت نہیں کر سکتے۔ اس بات میں کوئی زیادہ مبالغہ بھی نہیں ہے۔

کسی بھی تہوار یا بجٹ وغیرہ سے پہلے ہی اشیا کی ذخیرہ اندوزی، مصنوعات، بلیک مارکیٹنگ، ملاوٹ اور جعلی و غیر معیاری اشیا کی بڑے پیمانے پر تیاری اوپر کی سطح سے منظم طور پر شروع ہوتی ہے۔ ایسے دھندوں میں خود حکومتی ارکان اور ادارے ملوث ہوتے ہیں یا ان کی ملی بھگت اور آشیرباد سے یہ دھندے بے خوف و خطر چلتے ہیں۔

غریب عوام کس طرح شب و روز بسر کر رہے ہیں اس کا احساس بے حس حکمرانوں اور سفاک منافع خور تاجروں کو ذرا بھی نہیں ہے حکمرانوں کو چکنی چپڑی باتیں کرنے والے، دروغ گوئی و مبالغہ آرائی سے حقائق کو مسخ کر کے قصیدہ گوئی کرنے والے وزرا، اراکین اسمبلی، مقررین و مبصرین اور داستان گوؤں کی فوج ظفر موج میسر ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی پارٹی میں حیثیت و رینکنگ بھی انھی خدمات کے پیش نظر بنتی ہے۔ استحصالی سرمایہ دار اور ظالم تاجروں کو بھی ایسے ماہرین کی ہمہ وقت بھرپور خدمات حاصل رہتی ہیں جو اپنی تمام مہارت اس نقطے پر مرکوز رکھتے ہیں کہ صارفین کے زیادہ سے زیادہ استحصال کے لیے کون سے طریقے وضع کیے جائیں، ملازمین کا استحصال کس کس طریقے سے کیا جائے، ٹیکسز اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے کون سے راستے تلاش کیے جائیں، وغیرہ وغیرہ۔

حکومت رمضان پیکیج کا اعلان کرتی ہے پرائس کنٹرول کمیٹیز اور انتظامیہ کو ہائی الرٹ کیا جاتا ہے اس سال بھی مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے چاروں وزرا اعلیٰ کو ہدایت نامے جاری کیے گئے تھے۔ اربوں روپوں کے رمضان پیکیج کے ثمرات بھی عوام تک نہیں پہنچ پاتے، سستی اشیا یوٹیلیٹی اسٹورز پر آنے سے پہلے ہی مک مکاؤ کا شکار ہوجاتی ہیں یا پھر بیوپاریوں اور ہوٹل والوں کو فروخت کردی جاتی ہیں۔ دھوپ میں لائن میں لگے شہریوں کے ہاتھ میں قلیل مقدار ہی آتی ہے۔ آج کل ایک میسج چل رہا ہے کہ ’’مہنگائی سے بدحال بھٹے کا ایک عیسائی مزدور اپنی بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ فکر نہ کر، مسلمانوں کا تہوار گزر جائے گا تو قیمتیں واپس اپنی سطح پر آجائیں گی۔‘‘

دنیا کے دوسرے ممالک کی حکومتیں اور تاجر تہواروں کے موقعے پر اشیا صرف کی قیمتوں میں کمی کرتے ہیں تاکہ تمام لوگوں کو خوشیوں میں شریک کیا جا سکے بعض اسلامی ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ حکومت فی شہری کے حساب سے کچھ رقم بھی تقسیم کرتی ہے۔ قیمتوں میں کمی کر کے کمپنیاں اپنا خسارہ نہیں کرتیں بلکہ بہت زیادہ آمدنی میں سے کچھ حصہ چھوڑ کر صارفین کو رعایت دے دیتی ہیں کیونکہ یہاں معاشیات کا ’’کم منافع زیادہ فروخت‘‘ کا فارمولا لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی رمضان و عید کے موقعے پر اشیا کی خریداری میں بیس گنا سے بھی زیادہ کا اضافہ ہو جاتا ہے جو تاجروں  کی آمدنی میں 20 گنا کے اضافے کا باعث بنتا ہے اگر رضاکارانہ طور پر اس میں سے نصف صارفین کو رعایت کی صورت میں واپس کر دیا جائے تو تاجروں کو نقصان بھی نہیں ہو گا اور اچھی روایت قائم ہو سکے گی۔

رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لیے ایثاروہمدردی، تقویٰ، تزکیہ نفس، خوف خدا، اطباع رسول اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کا ہے لیکن ہمارے یہاں اس کی جگہ لوٹ کھسوٹ، دھوکہ دہی، حرص و طمع، نمائش اور کھیل تماشے نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی مذہبی حیثیت سماجی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جس میں نئی نئی روایتیں ڈالی جا رہی ہیں۔ مذہب، روحانیت اور عبادت کے نام پر وہ وہ ڈھونگ رچائے جا رہے ہیں کہ الامان والحفیظ۔  میڈیا مولوی، انسانیت کے مسیحا اور تاجر مذہب و اخلاقیات کی نئی نئی تشریحات اور مجرد نسخہ پیش کر رہے ہیں۔ ایک منظم طریقے سے لوگوں کو عبودیت، اخلاقیات اور روحانیت سے دور کر کے رمضان کی روح کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس لیے حکومت، علما، دانشوروں، تاجروں اور عام مسلمانوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اصلاح احوال کریں اور رمضان کی اصل روح اور مقصد کی بحالی کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔