مفتی قندیل اور ماڈل عبدالقوی!

ندیم جاوید عثمانی  بدھ 22 جون 2016
مفتی قوی ہوں یا کوئی دوسرا، آئندہ ایسی کسی بھی تربیت کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے نام اور اُس سے زیادہ اپنے مرتبے کا خیال رکھنے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔

مفتی قوی ہوں یا کوئی دوسرا، آئندہ ایسی کسی بھی تربیت کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے نام اور اُس سے زیادہ اپنے مرتبے کا خیال رکھنے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔

سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی ناریل کے متلاشی لوگوں کے ہاتھ ایک بار پھر جو ناریل لگا ہے وہ قندیل بلوچ اور مفتی قوی کے ناموں کی صورت میں ہے۔ اب اگر ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہو تو قندیل بلوچ کے ساتھ صاحبہ اور مفتی قوی کے ساتھ صاحب لگانا ایک الگ الجھن میں مبتلا کردیتا ہے۔

بحثیت ایک انسان دیکھا جائے تو یہ مفتی قوی کا ذاتی فعل ہے، لہذا اس پر کسی بھی قسم کی بحث کرتے وقت لوگوں کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیئے کہ اس ملاقات کا کہیں سے بھی کوئی بھی سرا اسلام سے نہیں ملتا، اور اس کو ایسے رنگ میں پیش کرنے والوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہئیے کہ اس طرح کے لوگوں کے ذاتی فعل کو مرتبہ سے منسوب کرنا ایک بحث کا دروازہ کھول دیتا ہے، اور وہ بھی ایسی بحث کا دروازہ جس کے دوسری جانب کچھ بھی نہیں۔

قندیل بلوچ جس شعبہ سے تعلق رکھتی ہیں اُس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس بحث میں ان کا کردار  ویسے ہی خارج کردینا چاہییے کہ سستی شہرت کے ایسے واقعات اکثر و بیشتر ہمارے معاشرے میں خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

رہی بات مفتی قوی صاحب کی تو اُن کو اپنے نفس کے ساتھ اپنے عہدے اور مرتبے کا ضرور خیال رکھنا چاہئیے تھا۔ جیسا کہ اب مفتی صاحب کی جانب سے وضاحت میں یہ بیان دیا جارہا ہے کہ یہ ملاقات خالص و خالصتاَ مذہبی تربیت کے تحت تھی مگر اس تربیت کو جس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وہ خود صوفے پر بیٹھے ہیں اور قندیل بلوچ اُسی صوفے کے ہتھے پر کیمرہ پکڑے بڑے ناز و انداز سے ملاقات شوٹ کرنے میں مصروف ہیں تو ایک لمحے کو کوئی مجھے اس کی وضاحت کردے کہ اپنی دینی تربیت کے خواہشمند کسی بھی شخص میں ایسے ناز و انداز کب ہوتے ہیں؟ اس ملاقات میں دین کو سمجھنے کا نہ وہ شوق دکھائی دیتا ہے نہ جذبہ، اوپر سے اس خصوصی تربیتی نشست کے لئے قندیل بلوچ جو لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں اس سے یہی سمجھ آتا ہے کہ وہ پردے کی نہیں رہا سہا پردہ بھی اُٹھانے کی آرزو مند ہیں۔

بدقسمتی سے یہ معاملہ صرف مفتی قوی تک محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے کچھ دیگر مفتی صاحبان اور دینی علماء کے قندیل بلوچ اور دیگر شوبز سے وابستہ ماڈل یا اداکاراؤں کی ایسی تربیتی نشستوں کے واقعات اور ان سے کشید کی گئی خبریں پڑھنے، سننے، دیکھنے کو ملتی ہیں۔ تو آپ سے میرا ایک سوال ہے کیا مذہب کی تبلیغ اب ایسی ماڈلز اور اداکاراؤں تک رہ گئی ہے؟ جن کے بارے میں یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس تربیتی نشست کے بعد کس حد تک اور کتنے عرصے تک وہ اس راہ پر چلیں گی؟

دین کے پیروکار اور مبلغ بھلے وہ مفتی قوی ہوں یا کوئی دوسرا، آئندہ ایسی کسی بھی تربیت کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے نام اور اُس سے زیادہ اپنے مرتبے کا خیال رکھنے کی کوشش کیجئے گا، ورنہ یہی صورتحال ہوگی جو ابھی قندیل بلوچ اور مفتی قوی کی خبروں کی صورت میں سب پر عیاں ہے۔

لیکن جب ہم یہ سطریں لکھ رہے تھے تو اُسی وقت ایک اچھی خبر یہ موصول ہوئی کہ حکومت نے مفتی قوی کی رویت ہلال کمیٹی اور علماء مشائخ کونسل کی رکنیت معطل کردی ہے۔ چلیں اِس فیصلے کو بہرحال سراہنا چاہیے۔ اب جب کہ وہ سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہے اس لیے چاہیں ایک شادی کے ساتھ ساتھ جتنے بھی نکاح کرنا چاہیں کرلیں کہ وہ اِس عمل کو بالکل حلال جو سمجھتے ہیں۔ اِس فیصلے سے کم از کم حکومتی ذمہ داروں کو یہ احساس تو ضرور ہوگا کہ وہ مادر پدر آزاد نہیں ہے کہ جب جو دل کیا کرلیا، بلکہ کچھ احساس ذمہ داری بھی ہونی چاہیے آپ کے کسی ایک عمل سے کس کس کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے۔

پورے معاملے میں قصور وار کون ہے؟

نتائج ملاحظہ کریں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور500 الفاظ پرمشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویراورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔