سوشل میڈیا پر سائبر دہشت گردی

عابد محمود عزام  بدھ 22 جون 2016

آج انٹرنیٹ سے تعلق رکھنے والا تقریباً ہر شخص سوشل میڈیا سے جڑی دنیا کا باشندہ بن چکا ہے اور سوشل سائٹس نوجوانوں کی دلچسپی کا محور و مرکز ہیں، جن میں فیس بک سرفہرست ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کی بدولت پوری دنیا گلوبل گاؤں کی شکل اختیارکر چکی ہے، اب ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ کسی بھی معاملے میں اپنے خیالات کا تبادلہ اور پیغام کی ترسیل با آسانی کرتے ہیں۔ فیس بک سوشل نیٹ ورک کی دنیا پر راج کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، لیکن یہاں ہر یوزر کو ملنے والی مکمل آزادی اور اس کا منفی استعمال بہت سے مفاسد کا سبب بن رہا ہے۔ 1996ء میں امریکی مضمون نگار، جان پیری مارلو نے انٹرنیٹ کی آزادی کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انٹرنیٹ پر ایک ایسی آزاد دنیا قائم کرنے جا رہے ہیں، جہاں ہر شخص کو مکمل اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو گی۔ انٹرنیٹ کے اس ابتدائی دور میں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ بعد ازاں لوگ دوسروں کی عزت و ناموس کی دھجیاں اڑانے اور اس کے منفی استعمال کو مکمل آزادی سمجھنے لگیں گے۔

فیس بک کے استعمال سے اسٹوڈنٹس کے تعلیمی معیار میں کمی، حقیقی تعلقات میں کمزوری اور محبت کے رشتوں میں نفرتوں اور دوریوں کا جنم لینا تو رہا ایک طرف، اس کے ساتھ یہ ممکنہ طور پر سائبرغنڈہ گردی اور سماجی رقابت کا ایک ذریعہ بن چکی ہے اور آزادی کا مطلب شاید من گھڑت معلومات پھیلانے، شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے، مخالفین کی عزتوں کو تار تارکرنے اور اپنے نظریات و خیالات کے فروغ کے نام پر انتشار و تصادم برپا کرنے کو سمجھ لیا گیا ہے اور شرپسند عناصر سیاست، معاشرت اور دین و مذہب سمیت کسی بھی معاملے میں انتہاپسندانہ اور نیچ سوچ کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ مختلف جماعتوں، فرقوں اورگروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جن کا کام صرف مخالفین پر طعن وتشنیع کے نشتر چلانا ہوتا ہے۔

یہ لوگ مخالفین کے لیے ناقابل برداشت زبان اورکلمات استعمال کر کے ان کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں، جب کہ مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کے ورکرز سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک کو عام طور پر پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور ججز کے نام سے آئی ڈیز سماجی رابطے کی سائٹس پر موجود ہیں، لیکن وہ شخصیات بار بار اس کی تردید کر چکی ہیں، مگر ان آئی ڈیز سے ایسی پوسٹس کی جاتی ہیں، جو ان کی بدنامی کا سبب بنیں۔

سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں، جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔

پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاسے اگرچہ لوگوں کوبہت سی شکایات ہوں گی، لیکن وہاں تدارک کا امکان موجود ہے،کیونکہ وہاں لکھنے اورکلام کرنے والوں کو لوگوں کی اکثریت جانتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پرحتمی طورپر شاید ہی کوئی کسی کو جانتا ہو اور اگر روک تھام کا کوئی موثر قانون بھی موجود نہ ہو تو اس صورتحال کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص مذہب و ملک کے خلاف کچھ بھی لکھ سکتا ہے اور بلا روک ٹوک کسی بھی محترم شخصیت اور نظریات پرکیچڑ اچھا ل سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر پہلے معاملہ صرف مخالف جماعت اور مخالف فرقے کے لوگوں کی توہین تک محدود تھا، لیکن اب بات کائنات کی سب سے محترم و معزز ہستی سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے بارے میں توہین تک پہنچ چکی ہے۔ کچھ روز قبل دشمنان اسلام نے فیس بک پر معروف اسلامسٹ بلاگر اسکندر حیات بابا سمیت متعدد بلاگرز کے جعلی اکاؤنٹ اور پیجز بنا کر نعوذباللہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ، شعائر اسلام اور اہانت رسول کا ارتکاب کیا، جس سے ایک طرف ان بلاگرز کی جان کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں، کیونکہ اس سے پہلے بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہوئی ہیں، جب کہ متعدد ایسے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے لوگ قتل ہوئے یا پھر انھیں دھمکیوں کے باعث روپوش ہونا پڑا، جب کہ دوسری جانب نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ مواد دیکھ کر فیس بک پر موجود ہر مسلمان انتہائی کرب و تکلیف کا شکار ہے، کیونکہ مسلمان چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو، خدا کے بعد اس کے پاس سب سے مضبوط سہارا شفیع المذنبین کی ذات اطہرکا ہی ہوتا ہے جو ہر مسلمان کے نزدیک اپنی جان، مال، دولت اور تمام رشتے داروں سے بھی عزیزہیں۔

ایسے حالات میں سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی روک تھام ضروری ہوگئی ہے، ورنہ کوئی بھی شخص کسی کے بھی نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کراس سے مذہب، ملک اورکسی کے خلاف جو چاہے پوسٹ کر سکتا ہے۔ سائبر وار فیئر، سائبرکرائم اور سائبر ٹیررازم جیسی اصطلاحات دنیا میں رائج ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے ہمارے یہاں کوئی جامع بات دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں قومی اسمبلی سے اگرچہ سائبرکرائم کی روک تھام کے لیے بل منظورکیا جا چکا ہے۔

جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہو گی اور اس کے تحت تین ماہ سے 14 سال قید اور پچاس ہزار سے لے کر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شایع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑ تک جرمانہ اور 14 سال کے لیے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔ اس قانون سازی کے اجرا سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں سائبرکرائم میں خاطر خواہ کمی آتی، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں قوانین بن تو جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات مل جل کر سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی روک تھام کے لیے کوشش کریں۔ اس معاملے میں رجحان ساز افراد اور اداروں کو اپنی ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔ سیاسی ومذہبی قیادت، علمی وفکری رہنما، میڈیا، منبر و محراب اور اساتذہ، سب کو اپنے اپنے دائرے میں لوگوں کی تربیت کر نی چاہیے، جب کہ مذہبی معاملات میں توہین آمیز کیسز میں حکومت کو از خود ایکشن لے کر ذمے داران کوکیفرکردار تک پہنچانا چاہیے، بصورت دیگر ایسے واقعات معاشرے میں انتشارکا سبب بن سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔