’’پراڈکٹ‘‘

اوریا مقبول جان  جمعرات 23 جون 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

اسکرپٹ میں کس طرح کردار تخلیق کیے جاتے ہیں، ان کے منہ میں کیسے اپنی مرضی کے فقرے ڈالے جاتے ہیں، کیسے خاندان، اقدار اور روایت سے بغاوت کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے ایک ’’ڈرامائی سیچویشن‘‘ تخلیق کی جاتی ہے، کس طرح معاشرے میں ایک منفی کردار کو کامیابی کے زینے پر چڑھا کر اسے ہیرو بنایا جاتا ہے، مجھے ان تمام تکنیکوں کا بخوبی علم ہے۔

اس لیے کہ میں نے زندگی کے بیس سال پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامہ لکھا ہے۔ پانچ سیریل اور لاتعداد ڈرامے۔ مجھے ان تمام بحثوں سے بھی آشنائی حاصل ہے جو پروڈیوسر اور رائٹر کے درمیان اسکرپٹ پر ہوتی ہے۔ اگر پروڈیوسر ذرا روشن خیال ہو تو مطالبہ ضرور کرے گا کہ ہیروئن کو باپ سے ایسے طریقے سے لڑاؤ کہ باپ بالاخر غلط ثابت ہو جائے، یا اگر وہ کہیں ایک معاملے میں جھگڑ رہا ہے تو اس کے لیے ڈائیلاگ کمزور دلیل والے تحریر کیے جائیں۔ اسے غصے میں پاگل پن کی حد تک دکھایا جائے تا کہ لوگوں کی ہمدردریاں بیٹی کے ساتھ ہو جائیں۔

وہ جس نے کل کو پسند کی شادی کرنا ہے۔ کھیل کے میدان کی شہسوار بننا ہے یا پھر اپنے کیریئر میں اس قدر کامیاب ہو جانا ہے کہ ساری دنیا اسے رشک سے دیکھے اور ڈرامہ دیکھنے والے اس باپ سے نفرت کریں جو اس کے راستے کی دیوار بن رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ڈرامہ نگار یا ہدایت کار دونوں روشن خیال ہیں اور وہ لوگوں کے سامنے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ہم دراصل معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ یا پھر ہم تو حقیقت دکھا رہے ہیں۔ انھیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ خاندانی زندگی میں بغاوت کا بیج بو رہے ہوتے ہیں۔

اس لڑکی کے کردار کو پرکشش، یعنی شوبز کی زبان میں گلیمرایز Glamourise کر رہے ہیں جو باپ یا ماں سے بغاوت کر کے شادی کرے، کیریئر اختیار کرے، کھیل کے میدان میں کودے، یا ان کی مرضی کے خلاف برے دوستوں کی صحبت اختیار کرے۔ یہ رائٹر اور پروڈیوسر دونوں اس قدر ظالم بن جاتے ہیں کہ اکثر اس باپ یا ماں کو زندگی کے ایک مرحلے میں محتاج دکھائیں گے، ان کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا، پھر یا تو اس باغی اولاد کے وہ دوست ہی مدد کریں گے جو آوارہ قسم کے تھے جن سے ماں باپ دوستی کرنے کو روکتے تھے یا پھر جو اولاد باغی ہو کر گھر چھوڑ دیتی ہے وہ ان کی دیکھ بھال کو آئے گی اور جس اولاد کو انھوں نے سینے سے لگا کر پالا ہوگا  وہ ساتھ چھوڑ جائے گی۔ یہ تو خیر بھلے زمانوں کی بات تھی۔

اب تو جو ٹیلی ویژن ڈراموں میں طوفان بدتمیزی برپا ہے اس کی جانب ایک اچٹتی نظر ڈالی جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شادی شدہ عورت ایک مزید عشق لڑا رہی ہوتی ہے اور ہر شادی شدہ مرد بے شمار لڑکیاں پھانس رہا ہوتا ہے۔ دماغوں کے گوشوں میں چھپی اس معاشرتی اقدار سے دشمنی ان ڈرامہ نگاروں سے ایسے افسانوی کردار تخلیق کرواتی ہے کہ جن کا اول تو وجود نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہ اتنے کامیاب کبھی نہیں ہوتے کہ مثال بنا دیے جائیں۔ یہ افسانوی کرداروں کی تخلیق ہی تو تھی کہ ہماری فلموں کے ہیرو موٹر مکینک ہو کر سیٹھ کی بیٹی سے عشق لڑا رہے ہوتے تھے اور سیٹھ کا بیٹا سیر پر جاتا ہے تو ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار کی بیٹی کو دل دے بیٹھتا ہے۔

میں اکثر ان سے سوال کرتا تھا کہ اگر تمہاری بیٹی جسے تم اتنے ناز و نعم سے پالتے ہو ‘وہ اگر کسی موٹر مکینک کے پاس گاڑی ٹھیک کروانے جائے اور اس کے عشق میں گرفتار ہو جائے، تمہیں گھر چھوڑنے کی دھمکی دے تو کیا پھر بھی تم اسے ایک ایسی ہیروئن کا مقام دو گے جیسا تم اس لڑکی کو دے رہے ہوتے ہو جس کے منہ میں تم نے بغاوت کے ڈائیلاگ ڈالے ہوتے ہیں۔ لڑکی تو دور کی بات ہے میں پاکستان کی حقوق نسواں کی ایک  علمبردار کو جانتا ہوں جس کے بیٹے نے پسند کی شادی کر لی تھی تو وہ دوستوں میں کہتی پھرتی تھیں کہ میں بھی چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اس ’’لاڈلی‘‘ کو طلاق نہ دلوا دوں اور پھر اس نے طلاق دلوا دی۔ لیکن آپ اس خاتون کی تحریریں پڑھ لیں، تقریریں سن لیں آپ کو کیا جذباتی بغاوت کے نغمے سنائی دیں گے۔ یہ کردار جان بوجھ کر تخلیق کیے جاتے ہیں اور انھیں عظیم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

دوسری بات اکثر کیمرہ مینوں کی بدمعاش نظریں ہیں جو سین کو ایک خاص ضرورت کے ساتھ فحش کیسے بناتی ہیں۔ اس کے لیے کیسے ایک ہیروئن کو مخصوص انداز میں بٹھایا، چلایا، دوڑایا یا بستر  پر لٹایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ’’لائٹ اینڈ شیڈ‘‘ کا خصوصی استعمال کیا جاتا ہے۔ گفتگو کرتے کرتے اس کے دوپٹے کو ڈھلکایا جاتا ہے۔ پھر ایک خاص طریقے سے ڈوپٹے کو ایسے سیدھا کروایا جاتا ہے تا کہ اس دوران کیمرہ مین جسم کے جن حصوں کو نمایاں طور پر دکھانا چاہتا ہے دکھا لے۔ فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی جب لاہور میں پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر کی جنرل منیجر تھیں تو انھوں نے کیمرہ مینوں پر خواتین کے چلتے ہوئے پیچھے سے کیمرے میں دکھانے سے پابندی لگائی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ میں اکثر کیمرہ مینوں اور پروڈیوسروں کی  ذہنیتوں کو جانتی ہوں، یہ جو کچھ دکھانا چاہتے ہیں وہ سین کی مجبوری نہیں، عورت کے جسم کے ساتھ کیمروں سے کھیلنا ہے۔

اپنے ڈرامہ نویسی کے کیرئیر کے دوران مدتوں میں نے ان کیمرہ مینوں، پروڈیوسروں اور ایڈیٹنگ ٹیبل پر بیٹھ کر سین ایڈیٹ کرنے والوں کے منہ سے نکلنے والے فقرے سنے ہیں اور پھر ساتھ یہ بھی کہ اس طرح کیمرہ گھماؤ تو زیادہ سیکسی لگے گی، تھوڑا سلو موشن کر دو، سائیڈ سے کیمرہ پروفائل لو، پتہ تو چلے اس کا جسم کیسا ہے۔ ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مصنف ایسے سین بھی تحریر کرتے ہیں تا کہ ان کے ذہن میں چھپی فحاشی اور غلاظت کُھل کر سامنے آئے۔

خود خواتین جو آسان راستے سے مقبولیت حاصل کرنا چاہتی ہیں، اپنی نشست و برخاست، لباس کی تراش خراش اور بعض اوقات مخصوص انداز سے چلنے کے بارے میں باقاعدہ کیمرہ مینوں سے مشورہ کرتی ہیں اور وہ ان کو جسمانی نمائش کے تمام فحش گر سکھاتے ہیں۔ ان میں بعض اس قدر کریہہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں کہ بچے کی موت پر روتی ہوئی ماں کے جسمانی خطوط دکھانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ ایک ماں اپنے بچے کی لاش پر بین کرتی ہوئی گرتی ہے، کیمرہ مین نے اس اداکارہ کو تین مرتبہ گرا دیا ‘کیونکہ اس کے مطلب کی جسمانی نمائش کیمرے میں نہیں آ رہی تھی۔

اسطرح کے دونوں اسکرپٹ رائٹر اور کیمرہ مینوں کا گٹھ جوڑ آج کل ٹیلی ویژن پر چلائے جانے والے ایک اشتہار میں نظر آ رہا ہے۔ ایک لڑکی باپ کو ناراض کر کے کرکٹ کھیلنے جاتی ہے، ماں اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر اسے اجازت دیتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس لڑکی کو ایک کامیاب ترین کھلاڑی بنایا جانا ہے جو کپتان بن جاتی ہے۔ اس وقت کسی رائٹر کو کرکٹ کی سلیکشن میں سفارش، رشوت، اقربا پروری وغیرہ یاد نہیں آتی۔ چونکہ باپ کی نافرمان اولاد کو کامیاب دکھانا ہے تو ایسا کیا گیا۔ اب معاملہ کیمرہ مین کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور اسکرپٹ والا اس کی مرضی کے سین لکھتا جا رہا ہے۔

اسے سامنے دوڑاتے ہوئے باؤلنگ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے تا کہ اس کے جسم کے تمام خدوخال نمایاں کیے جائیں۔ کیمرہ مین کی بدمعاشی یہاں رکتی نہیں‘ بلکہ وہ اسے پانچ مرتبہ مختلف انداز سے نمایاں کرتا ہے۔ کبھی خوشی میں زور زور سے اچھلنے کا کہہ کر، کبھی ساتھی کھلاڑیوں کے کندھوں پر گھماتے ہوئے۔ آخر میں باپ کے سارے اصولوں کو اس نافرمان لڑکی کی کامیابی کے سامنے ریزہ ریزہ ہوتے دکھایا جاتا ہے۔ گویا کامیابی اصول پر غالب آ جاتی ہے۔ ان اسکرپٹ لکھنے والوں کو وہ ہزاروں بچیاں کیوں یاد نہیں آتیں جو باپ کو ناراض کر کے ناکامیوں کی دلدل میں غرق ہو جاتی ہیں۔

یہ کارپوریٹ کلچر اور اس پر پلنے والا میڈیا ہے۔ اگر عورت کو بازار میں لا کر نہ کھڑا کرے تو اس کا مال نہیں بکتا۔ ان کے نزدیک عورت ایک جنس بازاری ہے۔ جسے بیس سال تک یہ کہا جاتا ہے کہ تم سائز زیرو رکھو تو خوبصورت لگو گی اور عالمی ملکہ حسن بنو گی اور اگلے بیس سال اسے مناسب گوشت بدن پر لانے کو کہا جاتا ہے‘اس لیے کہ اب ان کی غلیظ نظروں میں حسن کا معیار بدل گیا ہے۔

پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک عورت ایک ’’پراڈکٹ‘‘ ہے جس سے ڈیڑھ سو بلین ڈالر کا صرف فیشن کا کاروبار چلتا ہے۔ جو لوگ ٹینس کی کھلاڑیوں کے جسمانی زاویوں کو کیمرہ آرٹ بناتے ہوں اور اس سے اپنی مصنوعات بیچنے کا اہتمام کرتے ہوں، ان کے ہاں اخلاقیات کیا ہوگی۔ ان کا مال بکنا چاہیے خواہ اس کے لیے عورت کو اپنے جسم کی برہنگی کی قیمت چکانا پڑے۔کیا دنیا کے کسی بھی گھر میں کوئی لڑکی باتھ روم سے نکل کر اپنے بہن بھائیوں کے سامنے تولیے میں سے ٹانگیں نکال کر بتاتی ہے کہ فلاں کریم سے میری ٹانگیں کس قدر نرم اور ملائم ہوگئیں۔ لیکن ٹیلی ویژن اشتہار دکھاتا ہے اور ماں باپ بھائی بہن سب مل کر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اگر کوئی اعتراض کرے تو سارے لبرل سیکولر اچھل پڑتے ہیں کہ دیکھو ان کے دماغ میں فحاشی ہے۔ لیکن کوئی ان کیمرہ مینوں اور اسکرپٹ رائٹروں کی آپس کی گفتگو سرعام لے آئے تو انسانیت کا سر شرم سے جھکا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔