مولانا روم اور سفید تعصب

غلام محی الدین  اتوار 26 جون 2016
ہالی وڈ کی نئی فلم بننے سے پہلے ہی گورے کے نسلی تعصب کا شکار ہوگئی ۔  فوٹو : فائل

ہالی وڈ کی نئی فلم بننے سے پہلے ہی گورے کے نسلی تعصب کا شکار ہوگئی ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  تیرہویں صدی کے عظیم مسلمان شاعر اور مفکر حضرت محمد جلال الدین رومی المعروف مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی پر بننے والی ہالی وڈ کی نئی فلم شروع ہونے سے پہلے ہی نسلی تعصب کا شکار ہو چکی ہے۔ فلم کی شوٹنگ سال2017 میں متوقع ہے ۔ اس فلم کے لیے ابھی اسکرپٹ رائیٹر ڈیوڈ فرانزونی کا انتخاب ہوا ہے، جس نے چند روز قبل ترکی کے شہر قوُنیہ میں مولانا روم کے مزار پر حاضری دی اور فلم کے لیے لوکیشنز دیکھیں ۔

اس فلم کا اسکرپٹ مولانا کی شہرہ آفاق مثنوی سے مستعار لیا جائے گا۔ ترکی آنے سے پہلے (David Franzoni) ڈیوڈ فرانزونی نے میڈیا کو ایک انٹرویو دیا ہے، جس میں اس نے خواہش ظاہر کی کہ اگر تیرہویں صدی کے عظیم فارسی شاعر کی زندگی پر بننے والی فلم میں مرکزی کردار ہالی وڈ کا معروف اداکارلیونارڈو ڈی کیپریو ادا کرے تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔

جب یہ بیان شائع ہوا تو اس بیان کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر’’رومی واز ناٹ وائیٹ‘‘ کے ٹیگ سے ایک مہم چل پڑی۔ اس مہم میں سفید چمڑی والوں نے ہالی وڈ فلم انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ مولانا روم سفید فام نسل سے نہیں تھے، تو فلم میں یہ کردار ادا کرنے کے لیے ایک سفید فام اداکارکا نام کیوں لیا جارہا ہے؟ سفید فام اداکار سے یہ کردار ادا کرانا، سفید فام نسل کے ساتھ صریحاً زیادتی ہے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ فلم گلیڈی ایٹر کے اسکرپٹ رائیٹر ڈیوڈ فرانزونی کے اس بیان نے جون2016 کے شروع میں دنیا بھر کے فلم شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، اُس کا شاید ڈیوڈ فرانزونی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ اس انٹرویو میں ڈیوڈ فرانزونی نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ مولانا روم کے نام سے بننے والی یہ فلم مغرب میں مسلمانوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے غلط تاثرات کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا روم امریکا سمیت دنیا بھر میں ایک مقبول اور صاحبِ دانش لافانی کردار ہے، جس نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی فکر سے متاثر کیا، اس لیے ان کی زندگی پر فلم بنانا بہت آسان کام ہوگا۔

ڈیوڈ اور اسٹیفن براؤن کے اعلان کے بعد ایران میں بھی مولانا جلال الدین رومی کے بارے میں ایک بار پھر بحث شروع ہوئی ہے کیوں کہ ہالی وڈ سے قبل اسی طرح کے ایک منصوبے پر ایرانی فلم ساز داریوش محروجی اور مجتبٰی رئیس بھی کام کر رہے تھے، انہوں نے اپنا کام سال 2014 میں شروع کیا تھا لیکن ان کی مولانا جلال الدین رومی پر فلم اس لیے مکمل نہ ہوسکی کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد تھیں اور یوں فنڈز کی شدیدکمی کے باعث یہ فلم مکمل ہونے میں ناکام رہی۔ دونوں نے اپنی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی تھی کہ اسکرین پلے ایک بڑے بجٹ کا متقاضی تھا اور ہم اس کو قزاقستان کی لوکیشز پربنانا چاہتے تھے، مگراس کے لیے کوئی بھی ایرانی سرمایہ کارراغب نہ ہوا۔ اس فلم کا اسکرین پلے زیادہ تر رومی کے ادبی اور فلسفیانہ کام کے حوالے سے تھا۔

اب ہالی وڈ نے فارسی زبان کے شہرۂ آفاق شاعر محمد جلال الدین رومی المعروف مولانا روم کی زندگی پر فلم بنانے کی تیاریاں تو شروع کر دی ہیں لیکن اس فلم کو ’نسلی امتیاز‘ کے حوالے سے متنازعہ بنانا دنیا بھر کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس بارے میں کچھ لوگو ں کا خیال ہے کہ اس فلم کو بننے سے پہلے ہی ایک دل چسپ اختلافی بحث میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ جب یہ فلم مکمل ہو تو باکس آفس پر اس کو ایک تگڑا بزنس مل سکے لیکن مولانا روم سے عقیدت رکھنے والے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس فلم کے باکس آفس بزنس سے ہر گز دل چسپی نہیں۔ وہ تو اس فلم پر اٹھنے والے خواہ مخواہ کے اعتراٖضات کے پیچھے چھُپی ہوئی اُس بدنیتی کو دیکھ رہے ہیں، جو مکمل طور پر رنگ ونسل میں ڈوبی ہوئی ہے، جس میں نائن الیون کے بعد مزید تیزی آچکی ہے۔ یہ سوال اٹھانے والوں نے نہایت غیر محسوس طریقے سے یہ بھی باور کرایا ہے کہ صوفی شاعر مولانا روم ، منطق اور فلسفے کے میدان کے عظیم مفکر تھے لیکن نسلی سطح پروہ ہرگزعظیم نہیں تھے۔

ڈیوڈ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی فلم کی کاسٹ کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ متوقع اداکاروں میں Leonardo DiCaprio کا نام مولانا روم کے لیے لیا جارہا ہے۔ اسی طرح اس مہم میں مولانا روم کے مُرشد حضرت شاہ شمس تبریزی رحمتہ اللہ علیہ کا کردار ادا کرنے والے اداکار کے بارے میں بھی یہ عذر پیش کیا گیا کہ شمس تبریزی کا روحانی مرتبہ بہت بلند تھا لیکن اس کردار کو ادا کرنے والا اداکار ہالی وڈ کی فلموں میں ولن کے کرداروں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اداکار کی شہرت شاہ شمس تبریزی کے روحانی اثر کو زائل کر دے گی۔ اس لیے ان دونوں اداکاروں کی جگہ دوسرے اداکاروں کو کاسٹ کرنا چاہیے۔

اس ٹیگ مہم کے بعد سوشل میڈیا پر پہلی مرتبہ سفید نسل کے خلاف رنگ دار نسلوں نے آواز اٹھائی ہے اور ہالی وڈ کی ایسی درجنوں فلموں کے حوالے دیے گئے ہیں، جن میں رنگ دار نسل سے تعلق رکھنے والے کرداروںکو فلموں میں سفید چمڑی والے اداکاروں نے ادا کیا ہے۔ اس مہم کے بعد یہ محسوس ہو رہا ہے کہ مولانا روم کی ذات پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات سے مولانا روم کے کردار، روحانی مرتبے اور افکار کو تو دھندلایا نہیں جا سکا لیکن نسلی تعصب کو ہوا دے کر گوروں نے یہ ثابت کردیا کہ مولانا روم نے جن افکار کی تعلیم دی ہے، وہ لوگ اُن افکار کو بیچ کر مال کمانے کو تو جائز سمجھتے ہیں لیکن اُس کو ماننا ضروری نہیںسمجھتے۔اسی طرح کی صورت حال کے لیے مولانا روم کا ارشاد ہے’’اپنی آواز کے بجائے اپنی دلائل کو بلند کیجیے، کیوں کہ پھول بادل کے گرجنے سے نہیں، برسنے سے اُگتے ہیں‘‘۔

مولانا جلال الدین رومی : حالات زندگی
مولانا جلال الدین رومی1207 میں بلخ شہر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بہاء الدین اپنے دور کے مشہور علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔ حتیٰ کے ان حلقہ درس میں حاکم وقت خوارزم شاہ بھی شرکت کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کہا اور پناہ کی تلاش میں انا طویہ کی راہ لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جہاں مشہور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافہ شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ آگے چل کر یہ بچہ عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچائے گا۔ چنانچہ انہوں نے بہاء الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے بہاء الدین اناطولیہ پہنچے ،جہاں کے سلجوتی حاکم علاء الدین نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیہ میں بہاء الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بہت جلد مشہور ہوگئے۔

ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے اپنے والد کی گدی سنبھال لی۔ مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزررہی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وہ حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رہے تھے، ایک خوانچہ فروش حلوہ بیچتا ہوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواہ اور بے خبر اس جگہ جا کر کھڑا ھواگیا جہاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔

خوانچہ فروش نے تعجب سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے، کیا ہورہا ہے۔ مولانا نے بڑے تحمل سے کہا یہ تم نہیں جانتے، جاؤ، اپنا کام کرو۔ وہ آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے ہاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کہا یہ تم نے کیا کیا؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، یہ کہہ کر اس نے حوض میں ہاتھ ڈال کے خشک کتاب نکال کر رومی کو پکڑا دی۔ تب رومی نے حیرت سے پوچھا، یہ کیا ہے؟ جواب ملا یہ تم نہیں جانتے۔ یہ کہہ کے اُس شخص نے اپنا خوانچہ اٹھایا اور صدا لگاتا ھوا باہر چلا گیا۔ یہ شاہ حضرت شمس تبریز تھے۔

جو مولانا رومی، کو ورطہ حیرت میں چھوڑ آئے تھے،انہوں نے علم کی انتہائی اعلیٰ منازل طے کررکھی تھیں۔ تب رومی نے کتابی علم کو خیر باد کہا اور شاہ شمس تبریزی کو اپنا مرشد تسلیم کیا۔اب عشق الہٰی و معرفت کے سفر کا آغاز ہوا جس میں قدم قدم پر انہیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راہ نمائی حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفتہ رفتہ اپنا رابطہ اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وہ تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔یہ صورت حال رومی کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہ تھی۔ چنانچہ شمس تبریز ان کے نزدیک متنازع شخصیت بن گئے۔ شاگردوں اور عقیدت مندوں کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ہوگئے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں شہید کردیا گیا تھا۔

شمس تبریز کی جدائی مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انہوں نے فی البدیہہ شعر کہنا شروع کردیے۔ یوں انہوں نے عرفان و آگہی کی مضبوط ترین دستاویز ’’مثنوی‘‘ تخلیق کی۔ اس مثنوی کے علاوہ مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام ہے۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیہ، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیںہیں جو ان کے نام کو صوفیانہ ادب میں ہمیشہ روشن اور تابندہ رکھیں گی۔ہر سال سترہ دسمبر کو مولانا کا عرس (شب عروس) کے نام سے ترکی کے شہر قونیہ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ سن دوہزار سات کو مولانا روم کی ولادت کی آٹھ سو سالہ تقریبات کے طور پر منایا گیا۔

مثنوی مولانا روم
مثنوی مولانا روم، مولانا جلال الدین رومی کی گراں بہار فارسی تصنیف ہے۔ اس کی چھے جلدیں ہیں اور ان میں تصوف کے رموز ونکات، قرآنی علوم اور معرفت خداوندی کے مسائل کو تشبیہوں اور تمثیلوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے ۔ یہ مختلف ممالک میں کئی بار طبع ہوچکی ہے اور اب تک مسلسل شائع ہورہی ہے۔ دنیا بھر میںاس کی متعدد بار تلخیص ہوئی اور شرحیں لکھی گئیں۔ برصغیر کے مشائخ کی خانقاہوں میں یہ کتاب بہت مقبول رہی اور آج بھی ہے ۔یہ مولانا روم کے وصال کے وقت 1272ء تک لکھی جاتی رہی اور آخری حکایت ناتمام رہ گئی۔مثنوی مولانا روم روحانی تعلیم و تربیت کی ایک بنیادی کتاب ہے اور برسوں سے فارسی کا ہر شاعر، ادیب اس کتاب کے دائرہ اثر میں ہے۔

اس کتاب میں مولانا نے عرفان و معنویت کے دقیق اسرار کو استدلال کے ذریعہ سے نہیں بل کہ استعارہ وکنایہ اور تشبیہ وتمثیل کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے دل چسپ حکایات اورامثال سے کام لیا۔ درحقیقت حدیث دیگراں کے پردے میں انھوں نے سِردلبراں کو پیش کیا ۔ اس ضمن میں بعض ناروا حکایتیں بھی سامنے آتی ہیں لیکن مولانا کا مقصد حقیقت تک رہنمائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ علامہ اقبال، مولانا روم کو ہی اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں۔ مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کلام دونوں ہی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 26,666 اشعار پر مبنی ان کی مشہور زمانہ مثنوی تصوف اور عشق الہٰی کے جملہ موضوعات کو انتہائی سادگی روحانی اور عام فہم انداز مین بیان کرتی ہے۔

عشق الہٰی اور معرفت کے انتہائی مشکل و پیچیدہ نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کہانیوں سے مدد لی ہے جو بھی لکھا ہے، قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی ہے اس لیے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اہمیت و افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔