انسانوں کو پالا حیوانوں نے ؛  بچے جو جانوروں کے ساتھ پلے بڑھے

سید بابر علی  اتوار 26 جون 2016
میڈینا کیلے یہ کتے ہی سب کچھ تھے، وہ ان کے ساتھ رہتی، انکے ساتھ سوتی،انکے ساتھ کھیلتی اور ان کی طرح چار پیروں پر چلتی۔:فوٹو : فائل

میڈینا کیلے یہ کتے ہی سب کچھ تھے، وہ ان کے ساتھ رہتی، انکے ساتھ سوتی،انکے ساتھ کھیلتی اور ان کی طرح چار پیروں پر چلتی۔:فوٹو : فائل

ہم اپنے بچپن سے ہی ٹارزن کی کہانیاں سنتے آرہے ہیں جس میں ایک بچہ جنگل میں ہی پرورش پاتا ہے، بندروں کی طرح ایک درخت سے دوسرے پر گھومتا رہتا ہے، بھیڑیوں کی طرح خون پیتا ہے۔ لیکن دنیا میں ایسے کئی بچے موجود ہیں جنہیں حقیقی زندگی کا ٹارزن کہنا غلط نہ ہوگا۔ دنیا بھر میں موجود ایسے بچوں کے لیے ’فیرل چائلڈ‘ (جنگلی بچے) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے’ایسے بچے جن کا بچپن انسانوں سے الگ تھلگ جنگل میں یا ایسی جگہ گزرے جہاں جانوروں کے ریوڑ رہتے ہوں۔

جنگلوں سے بازیاب ہونے والے زیادہ تر فیرل چائلڈ رہنے سہنے، کھانے پینے یہاں تک کہ سونے کے لیے بھی ان ہی جانوروں جیسا برتاؤ کرتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے وقت بتایا ہو۔‘ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں میں ایسی خداداد صلاحیت ہے کہ وہ اپنے اطراف کے ماحول سے مطابقت پیدا کرلیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جنگلوں میں رہنے والے بچے جانوروں کی بولی اور ان کے جیسا رہن سہن سیکھ لیتے ہیں۔ تاریخ ِمیں ایسے کئی بچوں کا ذکر ہے جو جنگلوں میں کتوں، بھیڑیوں، بندروں اور دوسرے جانوروں کے ساتھ پلے بڑھے۔

فیرل چائلڈ کا ذکر ہمیں قدیم مصری تہذیب میں بھی ملتا ہے۔425 قبل مسیح کا مشہور یونانی مور خ Herodotus لکھتا ہے’مصر کے ایک فرعوں پیسمیٹیکوس اول ( Psammetichus I ) نے جانوروں کے انسانی بچوں کی پرورش کے عمل کو جانچنے کے لیے ایک انوکھا تجربہ کیا۔ اس نے دو نوزائیدہ بچے ایک چرواہے کو دیے۔ فرعوں نے گڈریے کو تاکید کی کہ وہ وہ ان بچوں کی دیکھ بھال کرے اور انہیں بھیڑ بکریوں کے نزدیک رکھے۔ چرواہے نے فرعون کی ہدایت پر عمل درآمد کیا اور بچوں کو بھیڑوں کے ریوڑ کے پاس رکھ دیا۔

کچھ عرصے بعد ایک بچے نے روتے ہوئے بھیڑ کی آواز سے ملتی جلتی آواز نکالی۔ اس واقعے کے بعد چرواہے نے دونوں بچوں کو فرعون کے پاس واپس چھوڑ دیا۔ سائنس دانوں کے لیے جنگلی بچے بہت اہمیت رکھتے ہیں، کیوںکہ ان پر تحقیق کرکے انہیں جنگلی جانوروں کے حوالے سے قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ فیرل چائلڈ پر تحقیق کرنے والے بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے بہت سے واقعات دھوکے بازوں کی جانب سے گھڑے بھی جاتے ہیں جن کا مقصد عطیات کی مد میں پیسوں اور دیگر مراعات کا حصول ہوتا ہے، لیکن کچھ بچے حقیقتاً ایسے ہیں جنہیں جنگلی جانوروں ہی نے پالا ہے۔

کچھ بچے حادثاتی طور پر والدین سے بچھڑ کر جنگل میں کھو جاتے ہیں تو کچھ شقی القلب والدین ایسے بھی ہیں جنہوں نے کسی بات پر ناراض ہوکر، نشے میں دُھت ہوکر اپنے معصوم بچوں کو کسی پالتو جانور کے ساتھ بند کردیا یا مرنے کے لیے انہیں جنگل میں چھوڑ دیا۔ فیرل چائلڈ کی بحالی ناممکن نہ سہی تو بہت آسان بھی نہیں۔ بہت سے بچے زندگی بھر نارمل انسانوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر پاتے تو بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جنہوں نے بھیڑیوں، کتوں ، بندروں کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے کے بعد عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کی۔ ایسے کچھ بچے شادی کے بعد اپنی گھریلو ذمے داریاں بھی نبھا رہے ہیں تو کچھ فوج میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

فیرل چائلڈ اپنا بچپن تو کھو ہی چکے ہوتے ہیں لیکن انسانوں میں آکر باقی ماندہ زندگی گزارنا بھی ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ انہیں انسانوں کی طرح گفت گو کرنے، ان کی طرح چلنے، کھانے پینے سے لے کر حوائج ضروریہ سے فراغت تک کے طریقے سیکھنے پڑتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ایسے ہی کچھ بچوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

٭پیٹر دی وائلڈ بوائے
1725میں شمالی جرمنی کے شہر ہیملین کے قریبی جنگل میں برطانوی شکاریوں کو ایک بارہ سالہ بچہ ملا۔ یہ بچہ چوپائے کی طرح چلتا تھا، جنگلی پھل اور پتے کھاتا اور پانی کو جانوروں کی طرح چاٹ کر پیتا تھا۔ یہ شکاری اسے عجوبہ سمجھ کر فرانس کے دورے پر آئے برطانوی بادشاہ جارج اول کے پاس لے گئے، جو اس لڑکے کو اپنے ساتھ برطانیہ لے گیا اور ’پیٹردی وائلڈ بوائے‘ کا نام دیا۔ جارج اول نے پیٹر کی بحالی کے بجائے اسے اپنے بچوں کے لیے کھلونا بنادیا اور گلے میں پٹاّ ڈال کر محل میں باندھ دیا۔ بعدازاں جارج اول نے پیٹر کو انسانی رہن سہن سکھانے کے لیے کچھ ملازمین مختص کیے جن کی کوششوں سے پیٹر نے کئی حیوانی عادات کو ترک کردیا لیکن وہ تمام عمر بولنے سے قاصر رہا۔ پیٹر 1785 میں دنیا سے رخصت ہوا۔

٭میری انجلیق میمی (جنگلی لڑکی)
میری 1712میں امریکی شہرویسکونسن میں پیدا ہوئی۔ نو سال کی عمر میں ایک فرانسیسی تاجر کی بیوی اسے اپنی خادمہ بنا کر فرانس لے گئی۔ فرانس جانے کے کچھ عرصے بعد ہی طاعون کی وبا نے اس کی مالکن کو بھی موت سے ہم کنار کردیا۔ اس وقت سب اپنی اپنی جان بچانے کے چکر میں تھے تو بھوک کی شدت سے نڈھال میری نے قریبی جنگل کا رخ کرلیا، جہاں وہ دس سال تک رہی۔

طویل عرصے تک جنگل میں رہنے کی وجہ سے میری میں حیوانی عادتیں پروان چڑھیں اور وہ جانوروں کی طرح کھانے پینے، چلنے اور رہنے لگی۔ 1731میں جب دیہاتیوں نے میری کو جنگل سے بازیاب کیا تو اس کے ناخن بڑھے ہوئے تھے، وہ بلی کی طرح ہونٹ سُکڑ کر پانی پی رہی تھی۔ اسے اناج کی جگہ کچا گوشت، مینڈک، سانپ، درختوں کے پتے، شاخیں کھانا پسند تھا۔ وہ نہایت پھرتی سے خرگوش اور دوسرے چھوٹے جانوروں کا شکار کرنے اور اپنے لمبے ناخنوں سے ان کی کھال اتارنے میں مہارت رکھتی تھی۔ میری 1775میں چل بسی۔

٭اوکزینا ملایا (ڈاگ گرل)
یوکرائن کی اوکزیناملایا نے چھے سال کا عرصہ شکاری اور جنگلی کتوں کے ساتھ گزارا۔ ملایا کے شرابی والدین دو سالہ او کزینا کو ایک متروک فارم ہاؤس کے باہر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ سردی کی شدت سے نڈھال بچی رینگ کر فارم ہاؤس میں بنے کینیل (کتوں کے رہنے کے لیے بنائی گئی جگہ) میں چلی گئی۔ 1991میں جب اوکزینا کو بازیاب کرایا گیا تو اس وقت اس کی عمر محض ساڑھے آٹھ سال تھی۔ اوکزینا کا طرز عمل ہوبہو کتوں کی طرح تھا، وہ چاروں پیروں پر کتوں کی طرح بھاگنے، کتوں کی طرح دانت اور زبان باہر نکال کر بھونکنے، فرش پر لوٹ لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی ہائیجین کا خیال بھی کتوں کی طرح رکھ رہی تھی۔ بازیابی کے بعد اسے کینیل سے نکال کر بچوں کے ایک مقامی نفسیاتی ہسپتال میں منتقل کیا گیا، جہاں کئی سال تک اسے سماجی اقدار سکھانے، تعلیم دینے اور طرز عمل کی تبدیلی کے لیے خصوصی تھراپی کی گئی۔

کئی سالوں کی تربیت کے بعد اوکزینا نے اپنے کتوں جیسے طرز عمل پر کافی حد تک قابو پالیا ہے، وہ عقل مندی کے ساتھ روانی سے انگریزی اور مقامی زبان بولتی ہے۔ برطانوی ٹی وی ’چینل فور‘ کی دستاویزی فلم میں ملایا کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گرچہ وہ (اوکزینا) کافی حد اپنا رویہ تبدیل کرچکی ہے لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پر معاشرے میں ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرسکے گی۔ تاہم حال ہی میں ایک مقامی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اوکزینا نے کہا،’میں چاہتی ہوں کہ مجھے ایک عام انسان کی طرح سمجھا جائے، جب لوگ مجھے ’ ڈاگ گرل‘ کہ کر مخاطب کرتے ہیں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنی ماں کا تلاش کرنا ہے۔‘‘ اوکزینا اس وقت ایک باڑے میں بھینسوں کی دیکھ بھال اور دودھ دوہنے کی ملازمت کر رہی ہے۔

٭شام دیو (وولف مین)
بھارتی نوجوان شام دیو کو ’وولف مین‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ چار سالہ شام دیو کو 1972میں ریاست اتر پردیش کے ایک جنگل سے بازیاب کرایا گیا ، جہاں وہ بھیڑیوں کے بھٹ میں رہ رہا تھا۔ شام دیو کو بازیاب کرانے والے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جب ہم بھیڑیوں کے بِھٹ پہنچے تو ہمیں وہاں ایک الگ ہی منظر دیکھنے کو ملا ’ایک چار سالہ بچہ بھیڑیوں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھا۔

ہمیں دیکھ کر وہ بھیڑیے کی طرح دانت نکال کر غرانے لگا۔ شام دیو کے نوکیلے دانتوں، لمبے مڑے ہوئے ناخون، سیاہ رنگت اور غیرمعمولی خدوخال نے اسے انسان نما بھیڑیے میں تبدیل کردیا تھا۔‘ شام دیو کو تحصیل سلطان پور کے ایک گاؤں ناین پور منتقل کیا گیا۔ طویل عرصے تک گیدڑ اور بھیڑیوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے شام کو تاریک جگہوں پر رہنا پسند تھا، اسے خون پینے کی طلب ہوتی تھی، اسے مرغیوں کے شکار اور زمین چاٹنے میں مزہ آتا تھا۔ شام کی ان عادات سے خوف زدہ دیہاتیوں نے 1976میں شام دیو کو مدر ٹریسا کے ’محتاج گھر ‘ میں چھوڑ دیا۔ صحیح طریقے سے نفسیاتی بحالی اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے فروری 1985میں شام دنیا سے رخصت ہوگیا۔

٭مرینا چیپ مین (مَنکی گرل)
امریکی ریاست کولمبیا کی مرینا چیپ مین کا دعویٰ ہے کہ انہیں1959میں جنوبی امریکا کے ایک گاؤں سے اغوا کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر پانچ برس تھی۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر اغوا کار انہیں ایک جنگل میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس کے بعد پانچ سال تک وہ جنگل میں کیپوچین نسل کے بندروں کے ساتھ رہیں۔ 1969میں انہیں شکاریوں کے ایک گروپ نے بازیاب کرایا اور ایک مقامی قحبہ خانے کو فروخت کردیا، کچھ عرصے بعد وہ وہاں سے فرار ہوگئیں اور کچھ عرصہ سڑکوں پر گزارا، لیکن انہیں ایک بار پھر اغوا کرنے کے بعد ایک مافیا فیملی کی لونڈی بنادیا گیا۔ کچھ سال بعد وہ فرار ہوکر بریڈ فورڈ چلی گئیں۔ تاہم کچھ حلقے مرینا کے جنگل میں بندروں کے ساتھ بچپن گزارنے کے دعوے کو غلط قرار دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب مرینا نے اپنی خود نوشت شایع کرنے کا فیصلہ کیا تو زیادہ تر پبلشرز نے کتاب میں لکھے گئے حالات اور واقعات کو غیرحقیقی قرار دے کر شایع کرنے سے منع کردیا۔ تاہم اسکاٹ لینڈ کے ایک ناشر نے ’دی گرل ود نو نیم‘ کے نام سے مرینا کی خودنوشت شایع کی۔ اس کتاب میں مرینا کا کہنا ہے،’اس وقت مجھے کچھ باتوں کی سمجھ بوجھ تھی، مجھے جنگل میں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔

اسی لیے میں بندروں کے طرزعمل کی نقالی شروع کردی۔ میں نے بندروں کی طرح کیلے، امرود اور دیگر پھل اور سبزیاں کھانے لگی، درختوں پر بنے سوراخوں میں سونے لگی اور چاروں ہاتھ پیروں پر چلنا شروع کردیا۔ بندروں کے اس پورے جتھے نے مجھے قبول کیا اور وہ مجھ سے ایک بندر کی طرح ہی برتاؤ کرتے تھے۔ مجھے کھانے کے لیے چیزیں دیتے، میرے بالوں سے جوئیں نکالتے تھے۔‘‘

مرینا کے دعوے کی تصدیق کے لیے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے مرینا کا مکمل طبی معائنہ کیا۔ ڈاکٹروں کی اس ٹیم کا کہنا ہے کہ ’مرینا کی ہڈیوں کے ایکسرے اور دیگر طبی معائنوں سے اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ وہ بچپن میں غذائی قلت کا شکار رہی ہے، جس کا شکار عموماً جنگل میں زندگی گزارنے والے بچے ہوجاتے ہیں، اور مرینا کا بندروں کے ساتھ رہنے کا دعویٰ درست بھی ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘

کولمبیا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کارلوس کونڈی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کیپوچن نسل کے بندروں کے طرز عمل اور مرینا کی بیان کی گئی باتوں کو ایک تصویری معائنے کے ذریعے چیک کیا اور نتائج یہی ظاہر کرتے ہیں کہ مرینا کا دعویٰ سچا ہے۔‘ تاہم یونیورسٹی آف لندن کے سائیکولوجی کے پروفیسر کرسٹوفر فرنچ کا کہنا ہے مرینا ایک دماغی عارضے میں مبتلا ہے۔

جس میں انسان کے ذہن پر ماضی سے متعلق فرضی یادداشت بن جاتی ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرینا اپنے اس دعوے پر قائم ہے اور مقامی ذرایع ابلاغ بھی اس کی باتوں کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ چند سا ل قبل ہی نیشنل جیوگرافک نے مرینا پر ’وومین ریزڈ بائے منکیز‘ کے نام سے ایک طویل دستاویزی فلم بھی بنائی ہے۔ برطانوی اخبارات ٹیلی گراف اور گارجین بھی مرینا پر رپورٹ شایع کرچکے ہیں۔

٭ روشوم پنگیانگ (کمبوڈیا کی جنگل گرل)
2007 میں کمبوڈیا کے صوبے راتانا کری کے جنگل سے محکمۂ جنگلی حیات کے اہل کاروں نے ایک برہنہ لڑکی کو بازیاب کیا۔ اس لڑکی کی شناخت قریبی گاؤں کے ایک دیہاتی نے اپنی بیٹی روشوم پنگیانگ کے نام سے کی، جو 18سال قبل لاپتا ہوگئی تھی۔ جنگل میں طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے روشوم نہ صرف بہت سے جانوروں کی آوازیں نکال لیتی تھی، بل کہ وہ جانوروں کا شکار کرکے ان کا گوشت کچا ہی کھا جاتی تھی۔ روشوم کو ایک مقامی بحالی مرکز میں داخل کرایا گیا۔ بازیابی کے وقت وہ صرف تین لفظ’ماں‘، ’باپ‘ اور ’معدہ‘ بول سکتی تھی۔

پیروں پر چلنے کے بجائے وہ رینگ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی تھی۔ روشوم کو مہذب دنیا میں رہنے میں بہت مشکلات درپیش تھیں۔ وہ انسانوں کے ماحول میں نہیں ڈھل سکی اور متعدد بار فرار ہونے کی کوشش کی جسے ناکام بنادیا گیا، لیکن آخرکار بازیابی کے چند ماہ بعد ہی وہ بحالی مرکز سے فرار ہونے میں کام یاب ہوگئی۔ تا ہم سول سوسائٹی اور جنگلی حیات کے محکمے کی کوششوں کی بدولت ایک سال بعد روشوم کو دوبارہ بازیاب کرا کے اسپین کے ایک دماغی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ تاحال زیر علاج ہے۔

٭ہیڈارا (شتر مرغ بوائے)
دنیا کے مشہور صحرا ’سہارا‘ میں اپنے والدین سے بچھڑ جانے والے دو سالہ ہیڈارا کی پرورش دس سال تک شتر مرغوں نے کی۔ بارہ سال کی عمر میں اسے مقامی حکام کی مدد دسے بازیاب کرایا گیا۔ اس بچے کی تما م حرکات و سکنات شتر مرغ کی طرح ہوگئی تھی۔ وہ آواز بھی شتر مرغ کی طرح نکالتا تھا۔ ہیڈارا کا سوئٹرزلینڈ کے ایک بحالی مرکز میں علاج کیا گیا۔ صحت یاب ہونے کے بعداب وہ ایک ذمے دار شوہر اور محبت کرنے والے باپ کی حیثیت سے خوش حال زندگی بسر کر رہا ہے۔

٭John Ssebunya (مَنکی بوائے)
اگر دیکھا جائے تو جان ایک عام آدمی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پاس نوکری ہے، دوست احباب ہیں، مشاغل ہیں، لیکن اگر جان کے ماضی کو دیکھا جائے تو وہ نہایت غیرمعمولی ہے اور ہر کسی کے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ جان کو بچپن میں افریقی ملک یوگنڈا کے جنوب میں واقع جنگلات سے بندروں کے پاس سے بازیاب کرایا گیا تھا۔ جان 1988میں یوگنڈا میں پیدا ہوا۔ دو سال کی عمر میں اس نے اپنے باپ کے ہاتھوں ماں کو قتل ہوتے دیکھا۔ نوے کے عشرے میں ملک میں ہونے والی خانہ جنگی میں جان کا باپ مارا گیا اور کسی نے لاوارث جان کو جنگل میں چھوڑ دیا۔ جنگل میں افریقی بندروں نے جان کو اپنی کالونی میں داخل کرلیا۔ جان کے کھانے کا دارومدار بندروں کے بچ جانے والے پھلوں، آلوؤں اور دیگر چیزوں پر تھا۔

بندروں نے اپنا بچہ سمجھ کر جان کی پرورش شروع کردی۔ جان نے ٹارزن کی طرح جنگل میں زندگی گزارنا شروع کردی۔ جان کو ایک قبائل خاتون نے بازیاب کرایا، جس کا کہنا تھا کہ جان نے انسانوں میں واپس آنے کے لیے بہت مزاحمت کی، وہ ہماری طرف پتھر، لکڑیاں پھینک رہا تھا ، لیکن ہم اسے اپنے کیمپ تک لانے میں کام یاب ہوگئے۔ توہم پرستی کا شکار کچھ لوگوں نے جان کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ یہ انسان کی شکل میں خدا کا عذاب ہے، لیکن دیہاتیوں کے ایک گروپ نے جان کو وہاں سے بہ حفاظت نکال کر ایک یتیم خانے میں داخل کرادیا۔

جنگل میں رہنے کے باوجود جان کو خدا نے خوب صورت آواز سے نوازا ہے۔ افریقی بچوں کے لیے کام کر نے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’پرل آف افریقا چائلڈ کیئر‘ نے جان کے اس ٹیلینٹ کو دیکھتے ہوئے اسے تین ہفتوں کے لیے برطانیہ کا دورہ بھی کرایا۔ معاشرے کا ایک ذمے دار فرد ہونے کے ساتھ جان ابھی تک بندروں کی باتوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جان کی زندگی پر متعدد ملکی اور غیرملکی ٹی وی چینلز دستاویزی فلمیں بنا چکے ہیں۔

٭میڈینا (ڈاگ گرل)
روس سے تعلق رکھنے والی میڈینا نے آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کتوں کو دیکھا۔ مرینا کی شرابی ماں نشے میں دھت ہوکر بچا کچھا کھانا اور جھوٹی ہڈیاں میز سے فرش پر پھینک دیتی تھی اور میڈینا فرش پر بیٹھے کتوں کے ساتھ ہی کھانا کھاتی تھی۔ میڈینا کے لیے یہ کتے ہی سب کچھ تھے، وہ ان کے ساتھ رہتی، ان کے ساتھ سوتی، ان کے ساتھ کھیلتی اور انہی کی طرح چار پیروں پر چلتی۔ میڈینا کی کہانی اس وقت ذرایع ابلاغ کی زینت بنی جب سوشل ورکرز اس کے گھر میں داخل ہوئے اور انہوں نے ٹھنڈ سے سکڑتی، کپڑوں سے بے نیاز بچی کو دیکھا جو کتوں کے ساتھ غراتے ہوئے کھیل رہی تھی۔ میڈینا کو سماجی کارکنوں نے فوراً اپنی تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کیا، جہاں اس کا مکمل طبی معائنہ کیا گیا۔ خوش قسمتی سے کتوں کے ساتھ تین سا ل تک رہنے والی بچی جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند تھی۔

٭ سجیت کمار (چکن بوائے)
سجیت کی کہانی کچھ اس طرح ہے،’اس کی ماں نے 1977میں خود کشی کرلی تھی جس کے چند سال بعد اس کے والد کا بھی قتل ہوگیا۔ سجیت کے پڑوسیوں نے میڈیا کو بتایا کہ ’سجیت کے والدین اسے مرغیوں کے ڈربے میں بند رکھتے تھے اور سجیت کی پرورش کی ذمے داری لینے والے اس کے بوڑھے دادا دادی نے بھی اپنے بیٹے اور بہو کی روش پر قائم رہتے ہوئے سجیت کو ڈربے میں بند رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1979 میں پڑوسیوں کی شکایت پر سماجی کارکنوں نے کارروائی کرتے ہوئے سجیت کو مرغیوں کے ڈربے سے آزاد کرایا اور مقامی فلاحی ادارے ’سمابلا اولڈ ہوم‘ میں داخل کرادیا۔ اولڈ ہوم سے سجیت کو گود لینے والی نیوزی لینڈ کی الزبتھ کلیٹن کے مطابق’سجیت کا طرز عمل با لکل مرغیوں کی طرح تھا۔

وہ مرغی کی طرح اکڑوں بیٹھتا اور انہیں کی طرح کی آوازیں نکالتا، جب ہم نے اسے کھانا دیا تو اس نے مرغی کی طرح فرش پر رکھ کر ٹھونگیں مار کر کھانا شروع کردیا۔ وہ بیڈ پر سونے کے بجائے مرغیوں کی طرح سوتا تھا۔‘ سجیت کی یہ حالت انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ تھا، جسے اپنے ہی خونی رشتوں نے اس حال پر پہنچا دیا تھا۔ ہم نے سجیت پر خصوصی توجہ دینی شروع کی۔

میری اور رضاکاروں کی انتھک محنت کے بعد اب سجیت اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اس کے دن کا زیادہ تر حصہ کھڑے ہونے، چلنے ، کھانے، پینے اور اس نوعیت کے دیگر کام سیکھنے میں صرف ہوتا ہے۔ اب وہ روزانہ نہاتا ہے، شیو بناتا ہے۔ اب فجی کا ’ڈرٹی چکن بوائے‘ ایک صاف ستھرے خوش لباس شخص کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ الزبتھ کا کہنا ہے کہ ہم سجیت کو نارمل زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں، لیکن اس کے ماضی کے کچھ نشانات کو شاید ہم کبھی نہیں مٹا سکتے۔ وہ کبھی بول نہیں سکے گا، بچپن میں لگنے والی کسی چوٹ کی وجہ سے اس انگلیاں مڑ چکی ہے اور وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکیں گی۔

٭ ایوان میشوخوف
ایوان چار سال کی عمر میں اپنے شرابی ماں باپ کی مار پیٹ سے بچنے کے لیے گھر سے فرار ہوگیا تھا۔ گھر سے بھاگنے کے بعد میشو خوف نے آوارہ کتوں کے ایک مسکن کو اپنا ٹھکانا بنالیا۔ ابتدا میں وہ کتوں کے بچے کھچے کھانے سے پیٹ بھرتا رہا، لیکن بعد میں بھیک مانگ کر اپنا اور کتوں کا پیٹ بھرنا شروع کردیا۔ 1998میں ماسکو پولیس نے ایوان کو بازیاب کرایا۔ کتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایوان کا برتاؤ کتے جیسا ہوگیا تھا، جس پر قابو پانے کے لیے ایوان کو ایک بحالی مرکز میں داخل کرایا گیا۔ میشو خوف نے تیزی سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ آج شائستگی اور دانش مندی کے ساتھ گفت گو کرنے والے ایوان کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ بچہ ماضی میں کتوں کے ساتھ رہ چکا ہے۔ فوجی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے اور روسی فوج میں خدمات سرانجام دینے والا میشو خوف متعدد روسی اور غیر ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز کو انٹرویوز بھی دے چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔