ہیلتھ پالیسی نہ ہونے سے نظام درہم برہم، اسپتالوں کی کارکردگی مزید خراب

طفیل احمد  اتوار 25 نومبر 2012
نجی اسپتالوں میں زائد بلنگ کی وجہ سے تلخ کلامی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں،اسپتالوں کی مانیٹرنگ کا کوئی ادارہ یا اتھارٹی موجود نہیں.  فوٹو: جمال خورشید/فائل

نجی اسپتالوں میں زائد بلنگ کی وجہ سے تلخ کلامی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں،اسپتالوں کی مانیٹرنگ کا کوئی ادارہ یا اتھارٹی موجود نہیں. فوٹو: جمال خورشید/فائل

کراچی: محکمہ صحت کی منتقلی کے بعد صوبے میں ہیلتھ پالیسی کااعلان کیاگیا اور نہ ہی نجی اسپتالوں کی رجسٹریشن کا بل اسمبلی میں پیش کیاجاسکا۔

صوبے کے نجی اسپتالوں کیلیے کوئی قواعد وضابطے نہ ہونے سے مریض کمرتوڑمہنگائی میں مہنگا علاج کرانے پرمجبور ہوگئے جب کہ نجی لیبارٹریوں نے بھی اپنے ٹیسٹوں کی فیسوں میں غیر اعلانیہ اضافہ کردیا، کمرتوڑ مہنگائی میں علاج بھی مہنگا کردیا گیا جس کی وجہ سے صوبے میں مختلف بیماریوں میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے اور عوام کی اکثریت علاج ومعالجے کے حصول کیلیے معاشی ناہمواریوں میں مبتلا ہوگئی ہے۔

کراچی میں تمام چھوٹے بڑے نجی اسپتالوں نے غیر اعلانیہ طور پرعلاج کی مد میں مختلف فیسوں میں اضافہ کردیا ہے ،غریب عوام اورٹرسٹ کے نام پر قائم کیے جانے والے نجی اسپتال مکمل تجارتی بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں آئے دن تلخ کلامی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیاہے ،ان اسپتالوں میں سروس چارچز کے نام پرمریضوں سے اضافی رقم بھی وصول کی جارہی ہیں کراچی میں عوام کو صحت کی مہنگی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، شدید مہنگائی کے نتیجے میں علاج عام افرادکی دسترس سے باہر ہورہا ہے،سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی کومانیٹر نہیں کیاجارہا۔

تفصیلات کے مطابق کراچی میں غریب مریضوں کے نام پر چلائے جانے والے نجی اسپتال تجارتی بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں، حکومت سے مختلف مشنریوں کو ٹیکس فری کرائے جانے کے باوجود غریب مریضوں سے تمام ٹیکسسز وصول کیے جارہے ہیں،اس وقت کراچی میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹینشن واحد اسپتال ہے جہاں حقیقی معنوں میں مریضوں کو بلامعاوضہ صحت کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، سول اسپتال سمیت دیگرسرکاری اسپتالوں میں پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے نام پر پرچی، ایکسرے، لیباریٹری ٹیسٹ سمیت دیگر کے ناموں پر پیسے وصول کیے جارہے ہیں ،سرکاری اسپتالوں میں مانیٹرنگ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے کارکردگی شدید متاثر ہورہی ہے۔

دوسری جانب صوبے میں نجی اسپتالوں کی رجسٹریشن ومانیٹرنگ نہ ہونے سے مریض ان اسپتالوں کی انتظامیہ کے رحم وکرم پر ہے، زائد بلنگ کی وجہ سے آئے دن ان اسپتالوں میں تلخ کلامی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں،نجی اسپتالوں نے لیبارٹری ٹیسٹ، سروس چارجز،جنرل وارڈاور پرائیویٹ وارڈوںکی فیسوں میں خاموشی سے اضافے کی منظوری کی کسی بھی ڈپارٹمنٹ سے اجازت نہیں لی اورقانونی اعتبار سے ان اسپتالوں کی مانیٹرنگ کا کوئی ادارہ یا اتھارٹی بھی موجود نہیں۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے 3 سال قبل نجی اسپتالوں کی رجسٹریشن ومانیٹرنگ اوران اسپتالوں میں وصول کی جانے والی فیسوں کا تعین کرنے کیلیے قانونی مسودہ مرتب کیا تھا جس کی اسمبلی سے منظوری کے بعدان اسپتالوں کوضابطے وقواعد میں لانا تھا تاہم تین سال سے یہ قانونی مسودہ اسمبلی میں پیش نہیں کیاجاسکا جس کا خمیازہ عوام کوبگھتنا پڑ رہا ہے، دوسری جانب حکومت سندھ نے صحت کے مسائل سے نمٹنے اورحل کرنے کیلیے کوئی ہیلتھ پالیسی جاری نہیںکی جبکہ وفاقی حکومت بھی تین سال سے کسی ہیلتھ پالیسی کے بغیرکام کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔