توجہ چاہتی ہوں

رئیس فاطمہ  اتوار 26 جون 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

میاں بیوی دونوں حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے تھے، بیوی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں تھے، یہ وہی فیملی ہے جس کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ ان کا موبائل نمبر آج ہی موصول ہوا ہے۔ مجھے ان کے حالات جان کر شدید صدمہ ہوا تھا، میں خود کو بھی قصوروار سمجھ رہی تھی کہ اتنی کوتاہی مجھ سے کیونکر ہوئی؟ میں تو حتی الامکان اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتی ہوں کہ ’’ضرورت مند کو تلاش کرو، وہ تمہارے پاس چل کر نہیں آئے گا۔‘‘ لیکن یہ خوددار فیملی آنسو پیے خاموشی بیٹھی رہی۔

یہ بدنصیب خاندان ابتدا ہی سے مصائب و آلام کا شکار رہا ہے، میاں بیوی دونوں محنت کش ہیں۔ دونوں ہی کام کرتے ہیں۔ مکان کرائے کا، کھانے کو ہو نہ ہو، بدن پہ چیتھڑے لگے ہوں لیکن مکان کا کرایہ، گیس اور بجلی کے بل تو ادا کرنے ہی ہیں۔ خواہ پیٹ پہ پتھر ہی کیوں نہ باندھنے پڑیں۔ بیوی جوڑوں کے مرض میں بھی مبتلا، لیکن کسی نہ کسی طرح سلائی کر کے گزارا کرتی ہیں، میاں کے پاس ایک کیبن ہے، لیکن مطلوبہ مال کی خریداری کے لیے پیسہ نہیں جو وہ اکٹھا مال ڈال سکیں۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کسی جگہ سے چھینا جھپٹی سے آٹا، چاول، چینی اور دیگر اشیا جو ضرورت مندوں کو مفت دی جا رہی ہیں وہ ہی لے آئیں۔

یہ عزت نفس کے ساتھ محنت کر کے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ انھیں کوئی ملازمت بھی مل جائے تو پوری ایمانداری اور ذمے داری سے کریں گے۔ بیوی کو بلڈ پریشر کی شکایت بھی ہے۔ گھٹنوں کا درد الگ جان لیوا ہے۔ آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود خاتون کسی نہ کسی طرح سلائی کرتی ہیں لیکن جب لوگوں کو کپڑے وقت پر تیار نہیں ملتے تو وہ دوبارہ نہیں دیتے۔ جن حالات سے یہ میاں بیوی گزر رہے ہیں اس کی روداد سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ شاید بعض لوگ پیدائشی بدنصیب ہوتے ہیں۔ خاتون یتیم تھیں، پھر والدہ بھی چل بسیں، کسی نہ کسی طرح کچھ رحم دل رشتے داروں کی مدد سے عمر بتائی، محنت مزدوری سے کبھی جی نہیں چرایا۔ شادی کے بعد مسائل میں اور اضافہ ہو گیا۔

ہمارے وطن میں، ہمارے شہر میں مخیر حضرات ضرورت مندوں کے لیے اشیائے خورونوش کے مفت بازار لگاتے ہیں۔ راشن بٹتا ہے، لیکن مفت راشن کون پیشہ ور جرائم میں ملوث عورتیں اور مرد اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اصلی ضرورت مند ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی صرف وہی پہنچ پاتے ہیں جو زیادہ تر بھکاری، گداگر اور موٹی موٹی لمبی اونچی لڑاکا اور جھگڑالو عورتیں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ وہ سفید پوش متوسط طبقہ ہے جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، جو روزانہ اس رقم کے ڈبے کو دیکھتے ہیں جس میں وہ مکان کے کرایے کے پیسے ڈالتے ہیں۔ خدا کی پناہ! لوگ کن کن عذابوں سے گزر رہے ہیں اور ہم برانڈڈ اور ریپلیکا سوٹوں کی دوڑ میں شامل ہیں۔ خریداری کے مراکز پہ رش دیکھ کر اور سحری و افطار ڈنر کے لوازمات کی بہتات دیکھ کر نجانے کتنے لوگ بے موت مر جاتے ہیں اور ہزاروں زندہ درگور ہوتے ہیں۔ افطار پارٹیاں محض سیاسی اور ذاتی کام نکلوانے کے لیے دی جاتی ہیں۔ یوں زبانی کلامی محض دکھاوے کی ہمدردی اور بس۔

میری آپ سب سے درخواست ہے کہ جو موبائل نمبر میں دے رہی ہوں اس پر ان میاں بیوی سے بات کر کے ساری معلومات لے سکتے ہیں۔ خواتین بیوی سے بات کر لیں اور مرد حضرات ان کے شوہر سے۔ گھر جا کر ہر بات کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں۔ جس طرح بھی ممکن ہو مدد کیجیے۔ (1) خواہ ماہانہ راشن خرید کر دے دیں۔ (2) کرائے کی مد میں کچھ رقم ماہانہ دے دیں۔ (3) دکان میں ضروری اشیا خرید کر مال ڈلوا دیں۔ (4) کسی جگہ شوہر کو ملازمت دلوا دیں۔ (5) خاتون کو گھر بیٹھے کسی بوتیک یا گارمنٹ فیکٹری کا کام دلوا دیں۔ لیکن پک اینڈ ڈراپ کے ساتھ، کیونکہ خاتون بسوں میں سفر نہیں کر سکتیں اور روزانہ رکشوں میں جانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ موبائل نمبر یہ ہے۔ 0332-7300898 لیکن خیال رہے کہ اگر مدد کرنی ہے تو فون کیجیے بصورت دیگر محض پریشان کرنے کے لیے کال کر کے تنگ مت کیجیے۔ میرے علم میں اکثر یہ بات بھی آئی ہے کہ بعض بدکردار اور غلط لوگ بلاوجہ فون کر کے غیر شائستہ باتیں کر کے پریشان بھی کرتے ہیں۔

چلتے چلتے ایک بات اور کہوں گی نعتوں، قوالیوں، احادیث نبویؐ پہ مشتمل اقتباسات جس کثرت سے دکھائے جاتے ہیں اسی کثرت سے ہر چینل پہ کھانے پکانے کے پروگراموں کی بھرمار ہے۔ ہر پروگرام میں بال کھولے، میک اپ کیے، لمبے لمبے ناخنوں کے ساتھ، افطار کے نت نئے پکوانوں کے طریقے بتائے جاتے ہیں، جنھیں دیکھ کر بعض اوقات تو جی متلانے لگتا ہے، کھانا، کھانا اور صرف کھانا۔ پھر روزے کو تزکیہ نفس بھی مسلسل کہا جاتا ہے۔ کہاں کا نفس اور کہاں کا تزکیہ؟ محض ہوکا، یہ بھی کھا لوں وہ بھی کھا لوں۔ جب تک افطار نہ ہو اس کے تصور سے لطف اندوز ہوتے رہو۔

آخر میں خاص طور پر ان ہمدرد اور خدا سے ڈرنے والے قارئین سے ذاتی درخواست کرتی ہوں کہ متذکرہ بالا خاندان کی مدد کریں۔ آج بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی یہ بھی خبر نہیں رکھتا کہ اس کے پڑوس میں رہنے والا کس حال میں ہے۔ معمر میاں بیوی اکیلے ہیں، لیکن خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک خدا کے پاس چلا گیا تو تنہا رہ جانے والے کا کوئی پرسان حال نہیں۔

پیسہ ہونے کے باوجود لاچار اور اکیلا وجود منتظر رہتا ہے کہ دروازے پہ دستک ہو۔ کوئی پوچھ لے کہ کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔ بازار سے کچھ منگانا تو نہیں ہے۔ ہاں البتہ یہ جملے کہہ کر تکلیف ضرور پہنچائیں گے کہ ’’کیا آپ کے بچے نہیں ہیں، اگر ہیں تو آپ کو تنہا کیوں چھوڑا ہوا ہے‘‘ لوگ سچ نہیں جانتے بلکہ ظالموں کا ساتھ دے کر مظلوم کی بددعا لیتے ہیں۔ آپ لاکھ عبادت کریں لیکن اگر حقیقت جانے بغیر کسی کا دل دکھا رہے ہیں تو گویا ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔