ساری دنیا کا پیش رو امریکا اور ہم

شاہد سردار  اتوار 26 جون 2016

امریکا ایک ایسا ملک ہے جسے مجموعہ افراد کہا جاسکتا ہے۔ اس کی خوبیاں بیان کی جائیں تو دفتر کے دفتر سیاہ ہوجاتے ہیں، تعریف کرتے ہوئے زبان نہیں تھکتی، لیکن اگر برائیوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی کم نہیں ہیں، امریکا ہر لحاظ سے ساری دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے، ہر ایجاد، ہر اچھی چیز کا آغاز امریکا سے ہوتا ہے، اس کی کامیابیاں ان گنت ہیں، سائنس، ٹیکنالوجی، فنون لطیفہ، معاشیات، صنعت و حرفت، سیاست، طاقت، ہر شعبے میں امریکا ساری دنیا کا پیش رو سمجھا جاتا ہے۔

ذرایع ابلاغ پر بھی امریکا شہنشاہی کررہا ہے، وہ اپنے انداز فکر کو اس انداز سے نشر کرتا ہے کہ ساری دنیا اس پر ایمان لے آتی ہے، امریکی لٹریچر نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، امریکی فلمیں دنیا بھر کو دیوانہ بناتی رہی ہیں۔ امریکا کے حوالے سے ایک مشہور مقولہ ہے کہ اگر امریکا کو ہلکا سا نزلہ ہوجائے تو سارا یورپ چھینکنے لگتا ہے اور باقی دنیا نمونیا میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

صنعتوں اور کاروبار پر امریکا کی اجارہ داری ہے، کھانے پینے کا سامان فراہم کرنے کے سلسلے میں بھی امریکا پیش پیش ہے، وہ چاہے تو ساری دنیا کے بھوکوں کے لیے خوراک فراہم کرسکتا ہے مگر وہ مصلحت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ فوجی اعتبار سے امریکا ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی ملک امریکا سے محفوظ نہیں ہے، وہ براہ راست یا بالواسطہ، پس ہر طرف سایہ فگن رہتا ہے، امریکا کی حیثیت ایک مدار جیسی ہے جس کے گرد ساری دنیا چکر لگارہی ہے، دنیا کے ہر گوشے میں رہنے والا شخص امریکا کے نام اور مقام سے آشنا ہے بلکہ ان کی اکثریت امریکا جانے کی خواہش مند ہے۔

جو لوگ وہاں جاکر بسنا نہیں چاہتے وہ کم از کم ایک بار اسے دیکھنے کی حسرت ضرورت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں امریکی ویزا آفس پر سب سے زیادہ ہجوم نظر آتا ہے اور امریکی گرین کارڈ حاصل کرنے کی تمنا دنیا کی بہت بڑی آبادی کے لیے ایک جاں افزا خواب بن چکی ہے۔ الغرض یہ کہ امریکا ایک ملک نہیں ایک سوچ ہے، ایک انداز فکر ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ’’بلائے ناگہانی‘‘ ہے، جس کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔

وطن عزیز میں جس طرح یہ بات زبان زد عام ہے کہ پولیس کی نہ دوستی اچھی اور نہ دشمنی، بالکل اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی یہ بات مشہور ہے کہ امریکا کی نہ دوستی اچھی اور نہ ہی اس کی دشمنی، اور جہاں تک دشمنی کی بات ہے تو اس کے بارے میں  تو کوئی ملک سوچ بھی نہیں سکتا۔ انھی وجوہات کی بنا  پر عالمی سطح پر یہ ’’امریکا بہادر‘‘ کے نام سے معروف و مشہور چلا آرہا ہے اور آج کل یہی بہادر امریکا ہمارے کمزور اور نحیف ملک سے ناراض ہے اور اس کی تمام تر ہمدردی، مہربانی یا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے، شاید اس لیے بھی کہ ’’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس مہم کا سرخیل بھارت ہے جو کہیں ظاہری اور کہیں باطنی اقدامات کے ذریعے مسلسل سرگرم ہے۔ اس سلسلے میں ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری اور اقتصادی تعاون کے سمجھوتے زیادہ پرانی بات نہیں، جن سے وہ پاکستان کو شامل کیے بغیر اس کے بیسیوں اقتصادی منصوبوں کی شراکت دار وسط ایشیائی  ریاستوں تک رسائی حاصل کرنا اور اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔

اس کا تازہ ترین اہم منصوبہ امریکی صدر کی مدد سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں اس کی شمولیت کا ہدف ہے۔حالانکہ امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے اپنے ایک اداریے میں اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ’’بھارت اس گروپ میں شمولیت کا کسی طور اہل نہیں، کیوں کہ اس نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کیے نہ 48 رکنی (این ایس جی) کے معیار پر پورا اترتا ہے، جو ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کام کررہا ہے‘‘۔ اخبار نے صدر اوباما کی جانب سے بھارت کو ضروری شرائط سے استثنیٰ دلانے کی حمایت کی  بھی مذمت کی ہے۔

یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت نیوکلیئرز سپلائز گروپ کی رکنیت اس لیے بھی حاصل کرنا چاہتا تھا کہ وہ پاکستان کو گروپ کا رکن بننے سے روک سکے۔ اور یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے کہ امریکا بھارت کی پشت پناہی تو کر رہا ہے مگر پاکستان کے معاملے میں خاموش ہے۔ اس حوالے سے امریکا کا یہ دہرا معیار برصغیر میں مستقل امن کے تقاضوں کے منافی ہے۔ امریکا ایک جانب دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے مفادات کو نظر انداز بھی کرتا ہے۔

بہرحال امریکا کی ’’آشیرواد‘‘ سے بھارت ہائی ٹیکنالوجی میزائل بھی خرید سکے گا، جب کہ اس کے لیے جدید امریکی ڈرون طیاروں کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے، بھارت پہلے سے ہی روس کے ساتھ مشترکہ طور پر سپر سانک میزائل بناچکا ہے اور دونوں اسے کسی تیسرے ملک کو بیچنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ امر خاصا غور طلب ہے ہمارے پالیسی سازوں کے لیے کہ بھارتی وزیراعظم کی امریکی پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران ارکان پارلیمنٹ نے 8 مرتبہ کھڑے ہوکر تالیاں اور ڈیسک بجائے۔ اس موقع پر مودی کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت کو قریبی تعاون سے کسی بھی ملک کو تنہا کردینا چاہیے جو دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے، ان کی حمایت یا پھر اس کی معاونت کرتا ہے۔ اگرچہ انھوں نے پاکستان کا نام نہیں لیا تاہم اس بات پر بھی ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے ان کے لیے تالیاں بجائی گئیں۔

واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم کا امریکا کا یہ چوتھا دورہ تھا اور امریکی صدر اوباما سے یہ ان کی ساتویں ملاقات تھی۔ جو بہت کامیاب اور پرجوش کہی جاسکتی ہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بھارت بحر ہند کو ایٹمی دوڑ میں جھونک رہا ہے اور اس کی پشت پر کھڑا امریکا پوری دنیا کو صاف دکھائی دے رہا ہے اور یہ سب کا سب پاکستان امریکا تعلقات کے لیے بہرطور اچھا نہیں ہوگا، بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بنانے کی امریکی حمایت سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن خراب ہوجائے گا اور عدم استحکام پیدا ہوگا لہٰذا امریکا کی جانب سے پاکستان  کو بھی اس گروپ کا رکن بنانے کی حمایت کرنی چاہیے۔

یہ ایک مسلم امر ہے کہ پاکستان کو اس کے قیام کے وقت سے جن چیلنجوں کا سامنا ہے اور جن میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بیرونی سطح کی سازشوں اور اندرونی مفاد پرستوں کے نتیجے میں اضافہ ہورہاہے ان کا تقاضا ہے کہ قومی دفاع کی ضرورت سے کسی لمحے غفلت نہ برتی جائے اور ہر پل چوکس رہ کر نہ صرف سفارت کاری، گرد و پیش کے حالات اور دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھی جائے بلکہ داخلی طور پر بھی ملکی سلامتی پر ضرب لگانے والے پہلوؤں کے خاتمے پر توجہ دی جائے، جن میں منصوبہ بندی کے تحت یا اس کے بغیر پیدا کی گئی بدنظمی، کرپشن، میرٹ کی پامالی، شدید بے انصافی، امیر و غریب کے درمیان بڑھتا ہوا تفاوت، قیادت میں تبدیلی کے طریقوں پر شکوک سمیت اور کئی امور بطور خاص قابل توجہ اور قابل اصلاح ہیں۔

ہمارے حکمرانوں، ارباب اختیار اور بالخصوص خارجہ پالیسی کے کرتا دھرتاؤں کو یہ امر بہرحال مدنظر رکھنا چاہیے کہ برا وقت کہہ کر نہیں آتا اور اچھا وقت بغیر کہے چلا جاتا ہے۔ ’’نیوکلیئر سپلائرز‘‘ ہماری خارجہ پالیسی اور ہماری سالمیت دونوں کے لیے ہماری دانست میں ایک تازیانہ ہے اور سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس حادثے کو لفظوںکا کون سا کفن دینا ہے؟ نرم سے نرم لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب کوئی قوم یا فرد اپنی عزت اور حقوق کی خود حفاظت نہ کرسکے تو پھر اسے دنیا کی نظروں میں تماشا بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔