اردو کے نادر و کمیاب شخصی خاکے

رفیع الزمان زبیری  اتوار 26 جون 2016

راشد اشرف نے ’’اردو کے نادر و نایاب شخصی خاکے‘‘ کے عنوان سے ایسے خاکے جمع کرکے شایع کیے ہیں جو کبھی لکھے گئے، چھپے اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ یہ بڑا کام ہے اور اس مجموعہ کو دیکھ کر ان کی ادب دوستی اور محنت کی داد دینی پڑتی ہے۔جو شخصی خاکے ان کی مرتب کردہ اس کتاب میں شامل ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جو دوارکا داس شعلہ نے حفیظ جالندھری پر لکھا ہے۔’’میرا حفیظ‘‘ وہ لکھتے ہیں: ’’حفیظ صاحب میرے استاد بے اندازہ خوبیوں اور خامیوں کے مالک ہیں۔ ان کی شخصیت اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ سب خوبیاں اور خامیاں نہ ہوتیں تو وہ بھلا میرے استاد کیونکر ہوتے۔‘‘

دوارکا داس کو شعر کی بیماری ہوئی تو استاد کی تلاش ہوئی۔ پہلے لالہ لال چند فلک کے پاس گئے، پھر تاجور نجیب آبادی سے رجوع کرنے کا خیال آیا مگر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے ڈر گئے۔ بالآخر پنڈت ہری چند اختر انھیں لے کر حفیظ کے پاس گئے۔ لکھتے ہیں ’’حفیظ صاحب نے میرا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا، پھر پنڈت جی سے پوچھا، یہ کسے پکڑ لائے ہو؟ اختر نے کہا، شعر زدہ ہے۔ حفیظ نے کہا، ہاں شعر ہے تو آسیب۔‘‘ پھر انھوں نے ان کے کچھ شعر سنے اور یہ کہہ کر کہ لڑکا چل نکلے گا، انھیں اپنی شاگردی میں لے لیا۔

استاد اور شاگردی کا رشتہ قائم ہوگیا تو دوارکاداس کو حفیظ صاحب کی خوبیاں اور خرابیاں نظر آئیں۔ چنانچہ یہ کہہ کر اگر استاد بے لاگ ہو تو شاگرد کو بھی لازماً بے لاگ ہونا چاہیے انھوں نے حفیظ صاحب کی ’’خرابیاں‘‘ گنوانی شروع کیں۔ ایک عیب ان کا یہ بتایا کہ وہ اپنے آپ کو موجودہ دور کا سب سے بڑا شاعر جانتے تھے، لیکن منہ سے نہیں مانتے تھے۔ پھر جب ان کے چاہنے والوں نے شدت سے انھیں یقین دلایا کہ وہ بہت بڑے شاعر ہیں تو اس خیال سے ان کی دل شکنی نہ ہو مان گئے۔

دوسرا عیب ان کا یہ تھا کہ انھوں نے جسے ایک مرتبہ اچھا سمجھ لیا بس پھر اسے ہمیشہ ہی اچھا سمجھا کیے۔ اب رہی حفیظ صاحب کی وضع قطع اور چال چلن تو ان کی سیرت پیاری تھی مگر صورت کا حسن سے واسطہ نہیں تھا۔ یوں بھی جو شخص ایسے حسین شعر لکھ سکتا ہو وہ بدصورت کیسے ہوسکتا تھا۔دوارکاداس لکھتے ہیں ’’حفیظ ضدی ہیں۔ صرف شعر ہی کے سلسلے میں میرے استاد نہیں بلکہ ہر معاملے میں میرے استاد ہیں۔ میں جب بھی اور جس معاملے میں ان سے اڑا ہمیشہ مات کھائی اور ہمیشہ ان کی برتری کا اعتراف کرنا پڑا۔ ان کی سی صحیح معاملہ فہمی، بات کی تہہ تک پہنچنے کی استعداد، حاضر جوابی، دوررس تدبیر کم دیکھنے میں آتی ہے۔

یہی وہ خوبیاں ہیں جن کے بل پر وہ اپنی متعین کردہ منزلیں طے کرتے چلے گئے اور دنیائے شعر و ادب کی شہرت کے آسمان پر آج ان سے زیادہ رخشندہ اور تابندہ ستارہ کوئی نہیں۔‘‘راشد اشرف کے مرتب کردہ مجموعے میں جس کے بارے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل فرماتے ہیں کہ یہ نہ صرف خاکہ نویسی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بلکہ ان خاکوں میں موضوع بننے والے افراد کے بارے میں جاننے کے خواہش مندوں اور ان کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے والوں کے لیے بھی بیش بہا مواد بلکہ ماخذ فراہم کرتا ہے، کئی اور خاکے بھی اسی قدر جان دار ہیں۔

ڈاکٹر اسلم فرخی نے شاہد احمد دہلوی کا خاکہ ’’زندہ انسان‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں ’’شاہد بھائی سے قریب ہونے سے مجھے بارہا یہ اندازہ ہوا کہ وہ اپنی شگفتہ مزاجی، فقرے بازی اور برجستہ گوئی کے باوجود اندر سے اداس آدمی ہیں۔ یہ اندازہ ان کی وفات کے بہت بعد ہوا کہ وہ دل شکستہ انسان تھے، تاہم انھوں نے چین جبیں سے غم پنہاں کو کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔ انھیں سب سے بڑا غم اپنے دہلوی دوستوں کی دوری کا تھا۔ ان کے وہ دوست جو ان کے دم قدم کے ساتھ تھے، دن رات موجود رہتے تھے، کراچی میں ان سے بہت دور ہوگئے۔ دوسرا غم حیثیت سے بے حیثیت ہوجانے کا تھا۔ دہلی میں بھرا پرا گھر تھا، جما جمایا، جائیداد تھی، کرایہ آتا تھا، ساقی اور کتابوں کا کام منفعت بخش تھا، عزت تھی، دبدبہ تھا۔ کراچی آکر ’جڑ کٹ گئی نخل آرزو کی‘، عزت و احترام تو تھا مگر دلی کا ٹھسا دلی ہی میں رہ گیا۔‘‘

کرنل مجید ملک کا خاکہ ان کے علی گڑھ کے ساتھی اور سرکاری ملازمت میں ان کے شریک کار، جلیل قدوائی نے لکھا ہے۔ ’’خوب صورت، صحت مند اور سرخ و سفید شخصیت، انگریزی لکھنے اور بولنے پر مکمل عبور اور اعتماد، ہنسوڑ ۔ صحافت کا وسیع تجربہ، دل و دماغ پر بوجھ محسوس کیے بغیر رات رات بھر جاگنے اور مسلسل کام کرنے کی صلاحیت، سفر و حضر میں خوش مزاجی، خوش باشی، ہر اہم کام میں پلاننگ پر اعتقاد، انگریز مردوں اور عورتوں میں آسانی سے گھل مل جانے اور ان پر جلد سے جلد اثر انداز ہونے کی صلاحیت۔ کیپٹن کی حیثیت سے لیے گئے تھے مگر جنگ کے خاتمے تک پکے کرنل ہوچکے تھے۔‘‘

اختر الایمان کا خاکہ جمیل الدین عالی کا ہے۔ لکھتے ہیں ’’اسے شعر کہنا کسی نے نہیں سکھایا۔ نہ اس کے والد شاعر تھے، نہ دادا، نہ نانا (جس پر کہ مجھے فخر رہتا ہے)۔ وہ اپنی ماں کی گود میں بھی نہیں پلا، جس کے لاڈ میں اسے فراغت کا احساس ہوتا اور فنون لطیفہ کی طرف متوجہ ہوتا۔ نہ اسے اس زمانے کے سرداران دہلی کی سرپرستی حاصل تھی جو جس کو چاہتے بناتے، جسے چاہتے بگاڑتے۔ جب وہ اسکول میں تھا اس وقت تک راشد اور فیض منظر عام پر نہیں آئے تھے، نہ مجاز وغیرہ کا شہرہ دلی میں اتنا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اس نے جو مقام حاصل کیا اس کی بڑائی اور وجوہ پر تو اس کا تبصرہ نگار ہی لکھے گا، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کے ہندوستان میں ایک بہت اچھا شاعر مشہور تھا۔‘‘

محمد حمزہ فاروقی نے مشفق خواجہ کی خاکہ کشی کی ہے یا کردار کشی، پڑھنے والے کی سمجھ پر منحصر ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’خواجہ صاحب کو اپنی اصلیت چھپانے اور چہرے پر متعدد نقاب اوڑھنے کا ’’ہوکا‘‘ تھا۔ انھوں نے ریشم کے کیڑے کی مانند اپنے گرد خوش گمانیوں کا کویا بن رکھا تھا، مثلاً دوستوں کی محفل میں وہ یہ ظاہر کرتے کہ وہ پائے طلب کو توڑ کر حنائے قناعت پیروں پر لگاکر اور دنیا سے منہ موڑ کر علم کا چراغ جلا رہے ہیں۔ حکام رسی سے انھیں نفور تھا۔ اکثر ان کی زبان پر یہ فقرہ رہتا ’’برپشم قلندر‘‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔‘‘حمزہ نے مشفق خواجہ کی شخصیت کی کچھ اور خصوصیات کا ذکر کیا ہے مثلاً ’’خواجہ صاحب تن آسان اور آسائش پسند انسان تھے۔ خود کو دولت اور شہرت سے بے نیاز قرار دیتے لیکن شہرت آفرینی اور زراندازی کے لیے کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نہ تھے۔‘‘

’’خواجہ صاحب کے دو ہی شوق تھے۔ دندان شکن کالم لکھنا اور کھانے کے بعد ’خلالِ پرملال کرنا۔‘‘ انجمن میں خواجہ صاحب خواتین سے انجمن آرائی فرماتے۔ طبعاً رومانوی مزاج رکھتے تھے لیکن طبیعت میں استقامت نہ تھی۔ اس لیے شہد کی مکھی بننے سے گریزاں مصری کی مکھی بننے پر شاداں رہے۔ خواجہ صاحب جس قدر ذہنی طور پر چست و توانا تھے، جسمانی اعتبار سے اتنے ہی کاہل تھے۔‘‘شخصی خاکوں کے اس مجموعہ میں حمید اختر کا اخلاق احمد دہلوی کا خاکہ ’’چہل امیراں کا فقیر‘‘ ہندوستان کے ادیب حفیظ نعمانی کا لکھا، مقبول احمد لاری کا خاکہ، محمد خالد اختر کا فکر تونسوی کا خاکہ ’’کلاؤن‘‘، خلیق انجمن کا مولانا امتیاز علی عرشی پر مضمون پڑھنے کی چیز ہیں۔

رمیش چندر دوبدی نے تو فراق کے خاکے کا عنوان ’’فراق گھر کے باہر‘‘ رکھ کر خود ہی بتا دیا کہ فراق کی شخصیت کے ایک ہی پہلو سے اس کا تعلق ہے۔علی سردار جعفری کا جو خاکہ ستارہ جعفری نے لکھا ہے وہ ایک بھائی کے لیے اس کی بہن کی محبت اور عقیدت کا بھرپور اظہار ہے۔ یہ بلبرام پور سے بمبئی تک ایک ایسے شخص کے سفر زندگی کا احوال ہے جو زندگی میں اپنے چاہنے والوں کا منظور نظر تھا اور مرنے کے بعد ان کے دلوں میں زندہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔