نیوکلیئر سپلائرز گروپ.... بھارت کو رکنیت نہ ملنا پاکستانی مؤقف کی تائید ہے ! !

’’ایکسپریس فورم‘‘ میں منعقدہ فکر انگیز مذاکرہ میں ماہرین امور خارجہ و دفاعی تجزیہ نگاروں کی گفتگو ۔  فوٹو : فائل

’’ایکسپریس فورم‘‘ میں منعقدہ فکر انگیز مذاکرہ میں ماہرین امور خارجہ و دفاعی تجزیہ نگاروں کی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

نیو کلیئر سپلائر زگروپ کی رکنیت کیلئے بھارت پیش پیش رہا اور امریکا نے بھی اس کیلئے لابنگ کی لیکن اس کے باوجود بھارت کو اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں نئے ارکان کی شمولیت کے حوالے سے گزشتہ دنوں سیؤل میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کو این ایس جی گروپ کی رکنیت نہیں دی جائے گی۔

امریکا قواعد میں استثنیٰ کرکے بھارت کو رکنیت دلوانا چاہتا تھا، اگر ایسا ہوتا تو اسی طریقہ کار کے تحت پاکستان بھی رکنیت کاحق رکھتا تھا جبکہ چین کا موقف بھی یہی رہا کہ اگر قواعد میں نرمی برتی جاتی ہے تو یہ امتیازی نہیں ہونی چاہیے بلکہ پاکستان پر بھی یہ نرمی لاگو ہونی چاہیے ۔

گروپ کی رکنیت کیلئے جہاں یہ لازمی ہے کہ تمام ممبر ممالک متفقہ طور پر حمایت کریں وہاں رکنیت کے امیدوار کیلئے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے قوانین اور معیارات کی پابندی بھی ضروری ہوتی ہے۔ بھارت ماضی میں اس کی خلاف ورزی بھی کرچکا ہے جبکہ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کا سکیورٹی معیار بھارت سے بہت اعلیٰ ہے، روس نے بھی بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے معیار کی تعریف کی ہے گویا سکیورٹی اور دیگر فنی معاملات میں پاکستان رکنیت کا بھرپور میرٹ رکھتا ہے۔

بھارت کو این ایس جی گروپ کی رکنیت نہ ملنا پاکستان کی سفارتی کامیابی ہی نہیں بلکہ اس کے موقف کی تائید ہے ۔ اس میں ہمارے دوست ملک چین کا بھی بہت اہم کردار ہے لہٰذا پاکستان کو اب اس معاملے کو یہاں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ بہتر سفارتکاری کے ذریعے این ایس جی گروپ سے استثنیٰ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔’’نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی شمولیت‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبد القیوم ملک
(دفاعی تجزیہ نگار)

انرجی کے بحران سے نکلنے کیلئے پاکستان کو ری ایکٹر کی ضرورت ہے۔ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے سے پاکستان کیلئے یہ کام آسان ہو جائے گا اس کلب میں شامل ہو کر پاکستان دنیا کے دوسرے ممالک کو نیوکلیئر ریسرچ، نیوکلیئر سیکورٹی، یورینیم پراسسنگ اور ری سائیکلنگ میں تربیت دے سکتا ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ امریکا کی پاکستان کے ساتھ ہمیشہ دو روخی پالیسی رہی ہے۔

پاکستان کی سرزمین ہوائی آڈے، بندرگاہیں اور انسانی جانوں کا امریکا نے جب چاہے بے دریغ استعمال کیا لیکن ساتھ ہی پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع بھی کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ایبٹ آباد حملہ ، سلالہ پر یلغار، ریمنڈ ڈویوس سے جاسوسی، پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات اور ملامنصور پر ڈرون حملہ جیسے واقعات نے پاکستان کی سالمیت اور وقار کو داؤ پر لگا دیا۔ آج امریکا کا مکمل جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔

2008 ء میں بھارت کے نان ’’این پی ٹی‘‘ ملک ہونے کے باوجود2010ء میں صدر اوبامہ نے بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی حامی بھر لی حالانکہ خود امریکا نے بھارت کو اس کا ممبر بننے سے روکنے کیلئے یہ گروپ بنوایا تھا۔ آج پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی بھارت کی ممبر شپ پر اعتراض ہے۔ امریکا کی پالیسوں کے باعث ہی ہمارے خطے اور خصوصاََ افغانستان میں آج تک امن قائم نہیں ہو سکا۔ امریکی سیکرٹری دفاع کا یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ بھارت، امریکا تعلقات کا ایجنڈا بین الاقوامی نوعیت کا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات دہشت گردی اور افغانستان کی صورتحال تک محدود ہیں۔

اسی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے امریکا نے بھارت میں ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگا دیئے ہیں بلکہ ایف سولہ جیسی مشینوں کی منتقلی پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک جو پاکستان کے قریبی دوست تھے، ان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہتر بنانے کیلئے امریکا نے کردار ادا کیا ہے ۔ آج افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی کی گنجائش پیدا کرنے کیلئے چابہار بندرگاہ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جا رہی ہے ، امریکی صدر، بھارت کے دورے کر رہے ہیں، میرے نزدیک اس ساری صورتحال میں پاکستان کو اپنی پالیسوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

عمر خان علی شیر زئی
(سابق سفیر)

موثر خارجہ پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ لڑائی کی بجائے بات چیت اور ڈپلو میسی کے ساتھ معالات حل کیے جائیں۔ سرتاج عزیز کو گولی کا جواب گولی اور امریکا کے خلاف بیان نہیں دینا چاہیے تھا، اس طرح کے بیانات تو آئی ایس پی آر کی طرف سے دیئے جانے چاہئیں۔ جنرل(ر) پرو یز مشرف نے ایک کال پر پاکستان کے مفادات کا سودا کر دیا اور ہم طالبان کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن گئے۔

ماضی میں افغانستان پاکستان کا قریبی دوست اور اچھا ہمسایہ تھا مگر آج خارجہ امور سے متعلق غلط پالیسوں کی وجہ سے ہمارے دونوں بارڈر پر شورش برپا ہے ہماری افغان پالیسی بہت سے تضادات اور خامیوں کا شکار رہی ہے۔ گل بدین حکمت یار کے وقت ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم افغان پالیسی میں تبدیلی لائیں حکمت یار پاکستان کیلئے اچھے جذبات اور خیالات کا حامل شخص تھا لیکن ہم نے ملا ربانی کی سپورٹ کی اور اسے صدر بنوا دیا جس کے بعد نادرن الائنس کی پاکستان کے خلاف کاروائیاں شروع ہو گئیں۔

ہم نے بھارت کو جگہ دی اور افغانستان کو پلے گراونڈ بنا دیا گیا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر شروع ہو گئی پھر ہم نے دیکھا کہ بھارتی ایجنٹ گل بھوشن ایران سے ہوتا ہوا افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوا۔ آج ایران اور بھارت کے مفادات بلوچستان میں اکٹھے ہیں ،اس لئے ایران، بھارت کی سپورٹ کر رہا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں خارجہ امور سے متعلق حکومتی ٹیم تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چا بہار میں بھارت اڈے بنا رہاہے لہٰذا ہمیں زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

 علی سرور نقوی
( سابق سفیر)

سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ گولی کا جواب گولی سے دیں گے، میرے نزدیک اس طرح کے بیان آئی ایس پی آر کو دینے چاہئیں خارجہ امور کے مشیر کو نہیں۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ فارن آفس میں سنجیدہ لوگوں کو تعینات کر کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اعتماد کی فضا بحال کی جائے۔ پاکستان سے ایران کو ایٹمی مواد سپلائی کرنے کا الزام غلط تھا، اس نیٹ ورک میں تیس کے قریب ممالک شامل تھے مگر صرف ڈاکٹر عبدالقدیر کو نشانہ بنایا گیا جو غلط اقدام تھا۔ خارجہ پالیسی میں ہمیں ڈپلو میسی کو اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈپلو میسی میں مختلف طریقوں سے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔

نیو کلیئر سپلائرز گروپ کا معاملہ چل رہا ہے، ہم نے اس گروپ کی ممبر شپ کیلئے اپنی درخواست ڈال دی ہے جس سے بھارت کیلئے مشکل کھڑی ہو گئی ہے۔ ہم نے گزشتہ بیس سال سے بھارت کو سلامتی کونسل کی ممبر شپ سے روک رکھا ہے۔ آج عالمی طاقتوں خصوصاََ امریکا کا دوہرا معیارہے، وہ ہمیں ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکتا ہے جبکہ بھارت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

آج بھارت یورینیم باہر سے حاصل کر کے سیف گارڈ میں استعمال کر رہا ہے جبکہ ہم اپنا یورینیم ملٹری معامات میں لگا رہا ہے۔ بھارت نے سمندر میں نیوکلیئر آبدوز لگا دی ہے اس میں پلانٹ موجود ہے جس پر میزائل لگا یا گیا ہے جو نیوکلیئر پاور میزائل بن گیا ہے۔ یہ معاملہ حکومت پاکستان نے اٹھایا ہے کہ سمندر کے اندر نیوکلیئر فری زون بنانے سے ہمیں نقصان ہو گا۔ہمیں امریکا سمیت دیگر ممالک کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ افغانستان میں ہمیں ڈپلومیٹک فرنٹ پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو خارجی محاز پر مختلف گروپ بنا کر کامیاب ڈپلو میسی کرنا پڑے گی تاکہ مختلف ممالک کے ساتھ معاملات کو درست سمیت چلایا جا سکے۔

 ظفر اقبال چیمہ
(سابق ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سٹرٹیجک اینڈ نیو کلیئر اسٹڈیز و سربراہ سٹرٹیجک ویژن انسٹی ٹیوٹ ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد )

پاکستان کی سفارتی جیت ہوئی ہے، بھارت کو این اس جی گروپ کی رکنیت نہ ملنے سے خطے میں توازن برقرار رہے گا اور آئندہ کے لیے بھی یہ واضح ہوگیا ہے کہ رکنیت کسی کی ایماء پر نہیں بلکہ ایک خاص کرائیٹریا کے تحت ہوگی۔

پاکستان نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ حاصل کرنے کی درخواست دے کر کامیاب سفارتکاری کا مظاہرہ کیا لہٰذا اب اس بات کو یہاں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ممالک کی حمایت اور ان کے تعاون کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ہمیں بھی اس قسم کا استثنیٰ مل سکے جو بھارت کو آج سے گیارہ سال قبل مل چکا ہے جس کی بنیاد پر امریکا سمیت دنیا کے کل 13 ممالک کے ساتھ اس نے نیوکلیئر ڈیل کی ، اس بنیاد پر بھارت باہر سے یورینیم خرید رہا ہے جسے وہ انرجی پر لگارہاہے جبکہ اپنے تیارکردہ یورینیم سے ہتھیار بنا رہا ہے۔

جس کی وجہ سے اس کی ہتھیار بنانے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ این ایس جی گروپ کی ممبر شپ حاصل کرنے کیلئے کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے اور اسی طریقہ کار کی بنیاد پر پورا اترنے والے ملک کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بنایا جائے لیکن اگرکوئی ملک اس بار معیار پر پورا نہ اترے تو مستقبل میں بھی اسی معیار کی بنیاد پر ہی ممبر شپ دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی ملک اس کے خلاف ویٹو نہیں کر سکے گا۔

امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ہم سے بہتر ر ہے ہیں،ایک وقت ایسا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور بھارت دونوں کیلئے امریکا کی پالیسی یکساں تھی تاہم اب امریکا نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات اور پالیسی کو علیحدہ کر دیا ہے اور اب اس کا جھکاؤ ایک بار پھر بھارت کی جانب ہوچکا ہے۔ امریکا ہمیشہ اپنے مفادات کے مطابق ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا، بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دے رہا ہے۔اسی تعلق کی بنیاد پر امریکا نے بھارت کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کی اور اب اسے سپیشل کیس کے طور پر نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ممبر شپ دلانے کیلئے حمایت کررہا ہے۔حالانکہ امریکا ماضی میں یہ موقف رہا ہے کہ جو ملک ’’این پی ٹی‘‘ پر دستخط ثبت نہیں کرتا وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر نہیں بن سکتا۔

 پروفیسر آمنہ محمود
(چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

ہمیں اس وقت اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارا ملکی مفاد کیا ہے اور ہمیں اس کا ہر حال میں تعین کرنا ہوگا۔ہم نے اس بات کا بھی تعین کرنا ہے کہ ہم نے پاکستان کو ایک ویلفیئر سٹیٹ بنانا ہے یا ایک سٹرٹیجک ملک بنانا ہے۔جب تک ہم عوام کو ڈلیور نہیں کریں گے نہ تو عوام میں حکومت کیلئے ہمدردی بڑھے گی اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو پزیرائی ملے گی۔

اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ آج ملک میں ریٹنگ میں اول پوزیشن پر آرمی چیف ہیں حالانکہ اس پوزیشن پر وزیر اعظم کو ہونا چاہیے تھا۔دہشت گردی ہو یا کوئی آفات،سیاسی مسئلہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، آرمی چیف نے ہمیشہ فوری ایکشن لیتے ہوئے مسئلہ حل کیا ہے لہٰذا سول حکومت کو بھی ڈلیور کرنا چاہیے۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہمارے ملکی مفاد میں ہے۔ خاص طور پر افغانستان کے ساتھ تو ہماری زبان اور ثقافت بھی یکساں ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے جو ہمارے لئے درست نہیں ۔

ڈاکٹر ظفر جسپال
(پروفیسر اور سابق ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز، قائد اعظم یونیورسٹی )

اجلاس میں باقاعدہ اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ بھارت کو استثنیٰ بالکل غلط ہے بلکہ چین، سوئزرلینڈ و دیگر ممالک نے کہا کہ اگر اس گروپ کو فعال رکھنا ہے تواس میں جانبدرانہ رویہ نہ رکھا جائے۔ بھارت کو این اسی جی گروپ کی رکنیت نہ ملنا پاکستانی مو قف کی تائید اور بہت بڑی کامیابی ہے۔

پاکستان کا موقف کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی قوانین کے مطابق ہے۔ بھارت آئندہ اجلاس میں رکنیت کے لیے دوبارہ کوشش کرسکتا ہے لہٰذا پاکستان کو یہاں رکنا نہیں چاہیے بلکہ مسلسل اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ امریکا نے بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی حمایت کی مگر پاکستان نے یہ موقف اختیار کیا کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے کرائیٹریا تیار کیا جائے ،کیونکہ اس طریقے سے کوئی بھی ملک جو اس کرائیٹریا پر پورا اترے گا اس گروپ کا ممبر بن جائے گا اور کوئی بھی ممبر ملک ویٹو نہیں کر سکے گا۔نیو کلیئر سپلائرز گروپ نے اپنی ساکھ کھودی ہے کیونکہ انہوں نے بھارت کو استثنیٰ دے دیا اور اسی بنیاد پر بھارت نے امریکا سمیت دیگر ممالک کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کی ہے۔

جہاں تک بات خطے اور دنیا میں تنہا رہنے کی ہے تو اس دور میں کوئی بھی ملک تنہا نہیں رہ سکتا۔ امریکا نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے سے انکار کیا لیکن پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈنہ دینے کی تجویز کو مسترد کردیا جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا ہمیں چھوڑنا نہیں چاہتا۔اس وقت دنیا میں سٹرٹیجک اور اکنامک پاور کا دور شروع ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ چین نے گرینڈ پاور سے سپر پاور بننے کیلئے اقتصادی راہداری بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس خطے میں اکثر ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات اچھے نہیں ہیں مگر وہ اس راہداری کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی تجارت کو فروغ دے کر سپر پاور بن سکتا ہے۔

ہمیں کامیاب خارجہ پالیسی بنانے کیلئے مذہبی نظریہ کے بجائے ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر پالیسی بنانا ہوگی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر مذہب کی بنیاد پر کامیاب خارجہ پالیسی بنتی تو نریندرمودی کا سعودی عرب،دبئی اور ایران میں خیر مقدم نہ کیا جاتا اور نہ ہی ان کے ساتھ اربوں روپے کے معاہدے ہوتے۔ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی بنیاد سٹرٹیجک مسائل پر منحصر ہیں ،پاکستان میں سٹرٹیجک مسائل کے باعث ملٹری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں میں تھنک ٹینک موجود نہیں، کامیاب خارجہ پالیسی بنانے اور اقوام عالم کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں میں ماہر افراد پر مشتمل تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے۔ امریکا میں سینٹ کمیٹی کے سامنے سفیر کیلئے نامزد افراد کو پیش کیا جاتا ہے، ان کا انٹرویو اور امتحان لیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں لہٰذا ہمیں اس کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

 طاہر ملک
( پروفیسر برائے انٹرنیشنل ریلیشن و سٹرٹیجک امور،نمل یونیورسٹی )

پاکستان نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ممبر شپ کیلئے درخواست دے کر مثبت قدم اٹھایا لیکن بدقسمتی سے ہم نے بغیر کسی تیاری اور حکمت عملی کے بھارت کی مخالفت میں درخواست دی جبکہ بھارت نے پوری حکمت عملی کے ساتھ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ممبر شپ کیلئے اپلائی کیا۔ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں کسی بھی ملک کی شمولیت کیلئے ایک مربوط،شفاف اور منصفانہ معیار کی حمایت کرتا ہے،نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے ایسے معیار کا اطلاق صرف بھارت پر ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت ہر اس ملک پر ہونا چاہیے جو اس میں شمولیت کا خواہاں ہے۔

امریکا کی جانب سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارتی شمولیت کی حمایت کو بدلتے ہوئے عالمی،علاقائی جغرافیائی تناظر میں دیکھنے چاہیے۔امریکا خطے میں طاقت کے توازن کو پاکستان سے زیادہ چین کیلئے ناہموار کرنا چاہتا ہے۔ایک جانب روس ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت بن رہا ہے تو دوسری طرف امریکا، چین کو عالمی سطح پر مقام حاصل کرنے سے روکنے کیلئے بھارت کی حمایت ضروری سمجھتا ہے جبکہ چین کا موقف یہ ہے کہ امریکا ماضی میں اس اصول پرزور دیتا ہے کہ جو ملک این پی ٹی پر دستخط ثبت نہیں کرتا وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر نہیں بن سکتا۔اب اچانک کیا تبدیلی آگئی ہے کہ امریکا خود ہی اس اصول کو نظر انداز کررہا ہے۔

یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ آج کل امریکا کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہے بلکہ امریکا کا جھکاؤ ہمیشہ ہی بھارت کی طرف رہا ہے۔ ہم نے اپنی جیو سٹرٹیجک لوکیشن کی بنیاد پر امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بنیادی طور پر اندر سے کمزور ہیں اور ہم اپنی اہمیت اور افادیت دنیا کے سامنے کبھی نہیں منوا سکے۔آج ہم خطے میں سوائے چین کے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات نہ ہونے سے مسائل کا شکار ہیں۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ نہ تو ہمسایوںکو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی تاریخ کولہٰذا ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ممالک کے دوران دوستی نہیں ہوتی بلکہ تعلقات ہوتے ہیں۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے آپریشن ضرب عضب شروع کررکھا ہے، اس سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ ہورہا ہے بلکہ یہ بھارت اور افغانستان کے مفاد میںبھی ہیں ۔ہمیں کسی مخصوص ملک کے ساتھ تعلقات کو محدود رکھنے کے بجائے تمام اقوام عالم کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا پڑیں گے ۔

سید محمد علی
( سینئر ریسرچ فیلو، سنٹر فار انٹرنیشنل سٹرٹیجک اسٹڈیز)

کسی بھی ریاست کا طرز عمل اس کی اندرونی طاقت یا خطے میں کمزوری کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس ریاست میں کتنا مضبوط سسٹم موجود ہے۔ خارجہ پالیسی کی طاقت یا کمزوری ریاست کی طاقت پر انحصار کرتی ہے لہٰذاجب ریاست کے اندر حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا فقدان ہو تو دشمن اس کافائدہ اٹھاتے ہیں۔ معاشی عدم سیکورٹی کی صورتحال کے باعث ہم جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا پاکستان کو کسی ایک طاقتور ملک کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت گزشتہ 25سال سے امریکا میں بزنس کمیونٹی پر سرمایہ کاری کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا این ایس جی کے معاملے پر اس کی حمایت کر رہا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں سول اور ملٹری تجربات ہوتے رہے ہیں جن سے ریاست کمزور ہوئی ہے۔ ہمیں انرجی کے بحران کا سامنا ہے ، نیوکلیئر ری ایکٹر سے ہم ملک سے بجلی اور انرجی کے بحران کا خاتمہ کر سکتے ہیں لہٰذا پاکستان کو نیوکلیئر ری ایکٹرز کی بہت سخت ضرورت ہے۔ ہمارا نیو کلیئر پروگرام مکمل محفوظ اور بے داغ ہے اور گزشتہ 42 سال سے ہم نیوکلیئر پروگرام کی مکمل حفاظت کر رہے ہیں جس پر ’’آئی اے ای اے‘‘ نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ نیوکلیئر ری ایکٹر سے2050ء تک ہم 40 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ امریکا میں آج104 ری ایکٹر کام کر رہے ہیں نیوکلیئر ری ایکٹر کیلئے بھارت چین اور پاکستان بڑی مارکیٹ ہیں، ہمیں بھی انرجی کے بحران کے حل کیلئے اس طرف جانا چاہیے۔ نیوکلیئر ری ایکٹر سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت سات رپے فی یونٹ ہو گی جو کوئلے اور پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی سے سستی پڑگے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔