میری لائبریری سے جھانکتی کتابیں

رفیع اللہ میاں  جمعرات 30 جون 2016
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ جس طرح زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ترقی نہیں کرسکا ہے، اسی طرح فکر و فن کا شعبہ بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے.

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ جس طرح زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ترقی نہیں کرسکا ہے، اسی طرح فکر و فن کا شعبہ بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے.

ناول: ’کچن‘ بانانا یوشی موتو‘ مترجم خرم سہیل

بانانا یوشی موتو کے 12 ناولوں میں کچن ان کا سب سے مقبول ناول ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یہ ناول جاپانی ادب کی کس حد تک نمائندگی کرتا ہے، تاہم یہ جاپانی معاشرے کے کئی اہم پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے۔ اس ناول کی اپنے معاشرے میں پینی ٹریشن کی اہم وجہ مشرقی دنیا میں عورت کے کچن کے ساتھ تعلق کو خالصتاً نفسیاتی تناظر میں پیش کیا جانا ہے۔ دکھ انسانی سماج کی ایک ایسی قدر ہے جو سرحدوں اور ثقافتوں اور تہذیبوں سے پرے نوع انسانی کو آپس میں جوڑ دیتی ہے۔

یہ اس ناول کا دوسرا اہم پہلو ہے جس نے اپنے قارئین کو 35 مختلف بولیوں کی رنگارنگی کے ساتھ یکجا کیا۔ تیسرا اہم پہلو اس بیانیے کا یہ ہے کہ ایک روایتی پس منظر میں جنس کی تبدیلی کا تجربہ اس طرح کیا جانا کہ وہ ثقافتی احساس کے لئے اجنبیت کا در وا نہ کرے، بانانا یوشی موتو کے فکشن کے لیے ایک طاقتور جمالیاتی اپروچ کا غماز ہے۔ فکشن میں ان کا وژن جدید تر رویوں سے عبارت ہے لیکن وہ بھی گبریل گارشیا مارکیز کی طرح گہرے توہماتی روایتوں کو عام حقیقی زندگی کے جادو کے طور پر برتنے سے ہچکچاتی نہیں ہیں۔ اس کا ثبوت ان کا ناولٹ ’چاندنی کا سایہ‘ ہے جو ناول کچن کے ساتھ ایک ہی جلد میں شایع کیا گیا ہے۔

’کچن‘ کے مترجم خرم سہیل کا پیشہ ورانہ میدان صحافت ہے۔ ریڈیو، اخبارات اور تھیٹر ان کی کثیر الابعاد شخصیت کے حوالے ہیں۔ چار کتابوں کے مصنف ہیں اور کچن کے علاوہ بھی انہوں نے دو کتابیں ترجمہ کی ہیں۔ کسی ناول کے ترجمے کی طرف آنا یقیناً ایک نہایت سنجیدہ عمل ہے۔ اردو کو دنیا بھر کے مقبول ناولوں کے اچھے تراجم کی ضرورت رہی ہے۔ بلاشبہ صحافتی ترجموں اور ادبی ناولوں کے ترجموں میں زمین آسمان کا فرق ہوا کرتا ہے۔ اس فرق کو خرم سہیل اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

ان کے ترجمے کی زبان سادہ اور اُسی انداز کا ہے جس طرح انگریزی سے ہونے والے اکثر اردو تراجم کا ہوتا ہے۔ تاہم بعض جگہ جملوں کی ساخت اور لفظیات ایسی ہیں کہ مدعا سامنے نہیں آپاتا۔ یعنی ترجمے کے عمل میں لفظ تو منتقل ہوجاتے ہیں لیکن معنیٰ کہیں گم ہوجاتا ہے۔ تراجم میں ایسے مقامات پر سیاق و سباق میں درست مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور لفظ ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ اس ترجمے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ کئی جاپانیوں جنہیں اردو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے، نے براہ راست جاپانی ایڈیشن سے اسے ملا کر پڑھا ہے اور اسے قابل اطمینان قرار دیا ہے۔

یہ کتاب راحیل پبلشرز، اردو بازار کراچی نے چھاپی ہے۔ قیمت 3 سو روپے ہے اور اسٹاکسٹ توکل اکیڈمی، نیو اردو بازار کراچی ہے۔ کتاب کا گیٹ اپ اچھا ہے اور یہ اس قابل ہے کہ خرید کر پڑھی جائے۔

زرافہ اور لمبی لڑکی – اجمل اعجاز

یہ اجمل اعجاز کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے، جس میں دلچسپ کہانیاں قاری کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور دلچسپی کا یہ سفر طبیعت پر کہیں بار محسوس نہیں ہوتا۔ اجمل اعجاز گزشتہ 56 برس سے ڈرامہ اور افسانہ لکھ رہے ہیں اس لیے کہانی پر ان کی گرفت مضبوط ہے اور وہ کچا پن جو آج کے بہت سارے افسانہ نگاروں کے ہاں طبیعت پر بار کی صورت ملتا ہے، یہاں بالکل مفقود ہے۔ کہانی کے ساتھ نصف صدی کا تعلق شاید اس امر کی وضاحت کرنے میں معاون ہے کہ وہ افسانے کے گزشتہ نصف صدی کے سفر میں آنے والی متعدد بنیادی تبدیلیوں سے کیوں متاثر نہیں ہوئے۔ سادہ بیانوی طرز سے علامتی اور پھر اس کے بعد نت نئی تیکنیکوں کی مقبولیت تک افسانے کا موضوعی اور معروضی سفر بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ افسانہ نہ صرف باہر سے بلکہ اندر سے بھی تبدیلیوں سے ہم کنار ہوا ہے۔ لیکن اس وقوعے کی تین افسانوی مجموعوں کے مصنف کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ روایتی طرز اظہار ان کے لیے ایک کلاسک کا درجہ اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ بڑے یقین کے ساتھ سادہ بیانی سے کہانی کہنے کے فن سے جڑے ہوئے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ جس طرح زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ترقی نہیں کرسکا ہے، اسی طرح فکر و فن کا شعبہ بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور فن کے حوالے سے افراد کی تربیت جدید خطوط پر تو کیا روایتی سطح پر بھی نہیں ہوسکی ہے۔ جس کا نتیجہ اس شعبے کے زوال کی صورت میں نکلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اوسط قاری کے لیے افسانوی سفر میں آنے والی تبدیلیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں اور اسے آج بھی سیدھے سبھاؤ کہی گئی کہانی درکار ہے جو اس کی ذہنی و فکری سطح کے مطابق ہو۔

اجمل اعجاز نے بالعموم دلچسپ کہانیاں لکھی ہیں جو چھوٹے چھوٹے روز مرہ واقعات پر مبنی ہیں۔ کہانی اپنے کلائمکس پر ایک نئے رخ اور ایک تاثر کو پیدا کرتی ہے لیکن فکر کو نہیں۔ ایک افسانہ ’’بھیک‘‘ اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ اپنے اختتام پر تاثر کے ساتھ ساتھ فکر کا پہلو بھی پیدا کرتا ہے لیکن سنگم، انعام، صلہ رحمی، بچے، کھودا پہاڑ، بوڑھا بچہ، زرافہ اور لمبی لڑکی جیسے دلچسپ افسانے ہی اجمل اعجاز کے فن کی پہچان ہیں جن میں کہانی کی بنیاد اس میں موجود خیال کے دلچسپ ہونے پر استوار ہوتی ہے۔

اجمل اعجاز کے اس مجموعے پر ادب کے تین اہم ناموں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹر حسن منظر، نصیر احمد ناصر اور محمد حمید شاہد۔ تینوں نے ان کے فن کو سراہا ہے۔ بالخصوص کہانی کو سادہ طریقے سے بیان کرنے کے ہنر کو حمید شاہد خود فکشن کی ہیئت میں اہم تجربات کرچکے ہیں، یقیناً ان جیسے فکشن نگار کے لئے اجمل اعجاز کے سادہ ترین افسانوں پر لکھنا اور انہیں سراہنا آسان نہیں رہا ہوگا۔ تاہم انہوں نے ان افسانوں کے بارے میں بڑی اہم بات کہی ہے کہ یہ اپنے قاری کو چوکنا نہیں کرتے۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ یہ کہانیاں دلچسپ ہیں کیوںکہ دلچسپ کہانیاں چوکنا نہیں، انٹرٹین کرتی ہیں۔

کتاب کا سرورق بہت خوبصورت ہے‘ قیمت 3 سو روپے ہے اور اسے فائزہ پبلی کیشنز، گلشن اقبال نے چھاپا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Rafi Allah Mian

رفیع اللہ میاں

ادیب و شاعر اور پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ گزشتہ دس سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ادبی میگزینز میں تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس میں کالمز کے ساتھ ساتھ بلاگز بھی لکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔