پاک بھارت تعلقات اور مودی حکومت کی پالیسی

نریندر مودی کی حکومت پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتی اور پھر اپنی شرائط پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتی ہے


Editorial June 29, 2016
پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنا کہ یہاں جمہوری حکومت بااختیار نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی ٹی وی ''ٹائمز ناؤ'' کو دیے گئے انٹرویو میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بہت سی باتیں کی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں مختلف قسم کی طاقتیں کام کر رہی ہیں ، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ مذاکرات کس سے کیے جائیں۔ حکومت سے یا دوسری طاقتوں سے۔ بات چیت کے لیے ہماری کوششیں جاری ہیں تاہم ہمارا اولین مقصد امن اور بھارتی مفادات کا تحفظ ہے، ہم اس حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں جو کئی موقع پر کامیاب بھی ہوئی ہیں، انھوں نے وضاحت کی کہ میں نے حلف اٹھانے کے پہلے ہی دن کہا تھا کہ ہم تمام ملکوں سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں تاہم اس حوالے سے بھارتی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ میں نے بھارتی فوج کو اسی لیے کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی کھلی اجازت دی ہے اور وہ اپنی کارروائی جاری رکھیں گے۔

ہمارا شروع سے یہ موقف ہے کہ دہشت گردی سرحد پار سے ہوتی ہے۔ میرا دورہ لاہور ہو یا نواز شریف کو دورہ بھارت کی دعوت، ان مسلسل کوششوں سے یہ فائدہ ہوگیا کہ اب مجھے دنیا کو بھارتی پوزیشن کے حوالے سے وضاحت نہیں دینا پڑتی بلکہ دنیا تو اب دہشتگردی کے خلاف بھارتی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے سراہتی ہے جب کہ پاکستان کوسرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے جواب دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی گفتگو کا بغور جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے بارے میں ان کی حکمت عملی خاصی حد تک سمجھ میں آ جاتی ہے۔

وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ پاکستان میں کئی طاقتیں کام کر رہی ہیں۔ وہ اپنی فوج کو بھی کہتے ہیں کہ وہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اشتعال انگیزی جاری رکھے۔ اس پالیسی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتی اور پھر اپنی شرائط پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ وہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں اور بھارتی ادارے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ پٹھان کوٹ واقعے میں پاکستان کا کوئی ریاستی ادارہ ملوث نہیں ہے۔یعنی بھارتی پالیسی ساز کئی رخی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مذاکرات کی بات کرنا لیکن ایسی شرائط رکھنا کہ مذاکراتی عمل شروع نہ ہوسکے۔

پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنا کہ یہاں جمہوری حکومت بااختیار نہیں ہے۔ کچھ نہ کرنے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارتی کردار کو تسلیم کرانا۔ بھارت کی یہی وہ دوعملی ہے جو اس خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت تنازعہ کشمیر کو حل کرنا نہیں چاہتا۔ دیگر تنازعات کے بارے میں بھی اس کی یہی پالیسی ہے۔ ایسی صورت میں پاک بھارت معاملات کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بھارت جب تک اپنی پالیسی میں اگرمگر چونکہ چنانچہ کی گردان ختم نہیں کرتا، پاک بھارت مذاکرات کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ہے۔

مقبول خبریں