گونگی کوئل

صفورا خیری  بدھ 29 جون 2016

میری ساری زندگی بہاروں، مرغزاروں، پہاڑوں اور دریاؤ ں کے درمیاں گزری جہاں سورج کبھی کبھار نکلتا تھا، بادلوں کا اک لامتناہی سلسلہ تھا، برسات کی حکمرانی تھی لوگوں کی آوازیں کم اور پرندوں کی چہچہاہٹ زیادہ تھی، بلبلوں، میناؤں، فاختاؤں کی اک لمبی قطار پھولوں بھر ے درختوں پر، پر پھیلائے بیٹھی تھی اور میں ان کے درمیان آموں کے باغات میں اٹھلاتی، گاتی، گنگناتی، شور مچاتی پھر تی تھی سب کہتے تھے بلبل اور مینا کی آواز بڑی پیاری ہوتی ہے مگر تمہاری آواز میں جو سوز ہے جو پکار ہے وہ بہت سی کہانیوں کو جنم دیتی ہے، اس وقت یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی تھی اور جب گرمیوں کے مو سم میں ٹہنیاں آموں سے بھر جاتی تھیں تو میں ڈالی ڈالی شور مچاتی تھی۔

اس چھوٹے سے ہر ے بھر ے سرسبزوشاداب علاقے میں خوبصورت ہرن تھے، ناچتے ہوئے مور تھے چھوٹے چھوٹے سفید خرگوش اور اچھلتی کودتی گلہریاں تھیں، آسڑیلوی طوطے تھے عجب تھی یہ جگہ بھی، جہاں سب ہی خوبصورت تھے ایسے میں مجھ کالی بھجنگ سی کوئل کا وجود بڑا مضحکہ خیز لگتا تھا مگر آس پاس کے لوگ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے وہ کہتے تھے  تمہاری جیسی آواز تو ان میں سے کسی کی بھی تو نہیں کیا یہ اعزاز تمہارے لیے بڑا نہیں اور یہ سن کر جیسے میر ے اندر جان سی آ جاتی تھی اپنی کم صورتی کا احساس معدوم ہو جاتا تھا اور میں واقعی رب  کائنات کے حضور سجدے میں گر جاتی تھی کہ اے مالک دو جہاں تو نے تو میری آواز کو شاعروں اور مصوروں کا عنوان بھی بنا دیا ہے وقت یو ں ہی گزرتا رہا فرحاں و شاداں  پھر اس چھوٹی سی بستی میں برڈ فلو کی وباء پھیلی سب پرند ے اک اک کر کے ہجر ت کر گئے ایسے میں مجھے گاؤں کے چند لوگ ملے انھوں نے کہا ’’سنو تم بھی یہاں سے کوچ کر جاؤ۔ کہیں بھی… ورنہ تم بھی اس موذی مرض میں مبتلا ہو جاؤگی‘‘

’’مگر کونسی وا دی میں؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔

’’وادی نہیں اس بار تم ہمارے ساتھ شہر چلو … دیکھو تو سہی وہاں کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔‘‘

’’شہر … ‘‘ میں نے سہم کر پوچھا۔

’’ہاں … شہر، رو شنیوں سے جگمگا تا جھلملاتا شہر جہاں زندگی کبھی نہیں تھکتی ہر چیز متحرک رہتی ہے، رواں دواں وہاں کے لوگ کوئل کی آوا ز کو ترستے ہیں کہ وہاں ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے … تم جاؤ گی تو وہاں آم کے باغات تمہارے انتظار میں جھومنے لگیں گے، تم نے گاؤں کا حسنُ تو اپنی آنکھوں میں سمیٹ لیا، اب ذرا وہاں کے روزوشب بھی دیکھنا، یہاں کے بچے تو تم کو دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں، وہا ں کے بچے  پیڑ کے نیچے جمع ہو کر تمہیں محبت اور حیرت سے دیکھیں گے اور جب تم اپنی سُریلی آواز میں کو ہو ۔۔۔کو ہو ۔۔۔کو ہوکرو گی تو وہ خوشی سے تالیاں بجائیں گے بس چند دن کے لیے چلو … ہم بھی ہفتے دو ہفتے میں واپس آ جائیں گے۔‘‘

’’مگرکونسی جگہ … اس کا نام تو بتاؤ؟‘‘ میں نے کہا

’’کراچی‘‘ پا کستان کی آنکھوں کی رو شنی، عروس البلاد کراچی… جہاں تم کو اس وطن میں بسنے والی تما م قوموں کے لوگ ملیں گے، ہم بھی پہلی بار جا  رہے ہیں۔

سنا ہے وہا ں چھو ٹا سا سنیما گھر ہوتا ہے ٹیلی وژن کہتے ہیں اس کو، وہاں لوگ اخبار پڑھتے ہیں، ان کو ملک کے حالات معلوم ہوتے ہیں ہمیں تو کچھ پتہ نہیں ہو تا نا؟ لوگوں نے کہا تو میں سوچتی رہی کہ ان کو کیا جواب دوں؟

چلو … چلو گی نا … سنو ہم تو تمہارے بہت عادی ہو تے ہیں تم نہ ہو گی تو وہاں تو ہمیں بہت یاد آؤ گی، چلو …پیاری کوئل  اور میں ان کی محبت کے آگے بے بس ہو گئی پھر جب ان کا قافلہ اس شہر میں آیا تو میری نظریں با غوں کو تلا ش کرنے لگیں آخر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پو چھا؟

’’آئیں گے ابھی تم جس باغ میں رہو گی ہم بھی وہیں بسیرا ڈال لیں گے‘‘

اور پھر ہو ا بھی یہی، میں نے سفاری پارک کے ایک گوشے میں ڈیرہ جما لیا یہاں کا ماحول مجھے بہت مختلف لگا مگر یہ سفر میر ے لیے ایک تجربہ تھا یہاں میر ے وہ ساتھی پرندے تو نہ تھے البتہ فضا میں پرواز کرتی چیلیں، کوے، کبوتر، چڑیاں اور طوطے نظر آئے اور زمیں پر کتے، بلیاں  میں نے پہلی بار اتنی تعداد میں دیکھیں مگر یہ  سوچ کر کہ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں میں نے صبر کر لیا، میرے گاؤں کے لوگ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، انھی کی خاطر میں یہاں چلی آئی تھی ۔ واقعی انھوں نے سچ کہا تھا یہاں ہر چیز بہت متحرک ہے میں نے آس پاس نظر ڈالی ہر اک دوڑرہا تھا، اتنی گاڑیا ں تھیں، جگہ جگہ ٹریفک جام تھا، بے شمار فقیر تھے۔

ایک طرف دولت کی ریل پیل تھی، ایک طرف کوڑے کے ڈھیر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھ ٹٹول ٹٹول کر کھانا کھا رہے تھے، پارک کے فوڈ کارنر پر فاسٹ فوڈ، پیزا کھانے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا یہ دو دنیائیں تھیں، تیسری دنیا شاید وہ تھی جہاں سے میں آئی تھی، جہاں کی ہر چیز سادہ تھی لوگ بھی، غذا بھی مگر میں یہ کیوں سوچ رہی تھی، واپس جاکر اپنے ساتھیوں سے کہوں گی، میں پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی شہر دیکھ آئی ہوں، ان لوگوں نے کہا تھا تم وہاں جا کر خوب کوُکنا، وہاں کے بچے بہت خوش ہونگے  لہذا میں نے زور زور سے کوکنا شروع کر دیا اس لمحے مجھے خود اپنی آواز میں بڑا سوز لگا۔ پارک کے بچے مڑمڑکر سر اٹھا کر مجھے دیکھنے لگے میری نقل اتارنے لگے میرے گاؤں کے لوگ کہنے لگے۔

’’دیکھا بچے تم کو دیکھ کر کتنے خوش ہو رہے ہیں، گاؤں میں تو تم روز ہی کوُکتی ہو بھلا یہ منظر ہوتا ہے کبھی؟‘‘

’’ہاں تم سچ کہتے ہو‘‘ میں نے کہا

’’یہ کیا تم لوگ توکہہ رہے تھے یہ روشنیوں کا شہر ہے ؟‘‘

ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ اندھیرا ہو گیا۔

ہا ں ہے تو… مگر شاید بجلی چلی گئی ہے پھر دور کسی نکڑ پر لوگ بھاگنے لگے، ٹریفک رک گیا۔  گولیوں کی گھن گرج سن کر میں نیم کے ایک گھنے پیڑ کی سب سے اونچی شاخ پرجا بیٹھی نیچے عجب ہولناک منظر تھا، نقاب پوش لوگ، گا ڑیوں میں بیٹھے ہوئے اور راہ چلتے لوگوں پر پستول تانے کھڑے تھے، بعض ہوائی فائر کر رہے تھے کسی سڑک میں خون میں لت پت انسان تڑپ رہے تھے ایسے میں میری آنکھیں ساکت سی ہو گئیں، آنسو جم گئے خون کی طرح ، میں نے چاہا کہ چیخوں چِلاؤں مگر ایسا نہ ہو سکا … میری آواز کھو چکی تھی۔ شاید  … میں گونگی ہو چکی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔