بوجھو تو جانیں

یہ تو سب کو پتہ ہے کہ قبض بیماریوں، سیاست کرپشن کی اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq June 30, 2016
[email protected]

یہ تو سب کو پتہ ہے کہ قبض بیماریوں، سیاست کرپشن کی اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے لیکن یہ بات ابھی تک پتہ نہیں چلی ہے کہ ان ماؤں کے شوہر کون ہیں یعنی ان تمام چیزوں کا ابا کوئی ہے بھی یا نہیں، اور یہ بہت بری بات ہے کیوں کہ اس سے ان چیزوں کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات پیدا ہو جانے اور اگر ان چیزوں کے والد نامعلوم ہیں یا تو پھر ایسی ماؤں کو فارسی میں ''عروس ہزار داماد'' کہتے ہیں

مجو درستی عہد از جہاں سست نہاد
کہ ایں عجوزہ عروس ہزار داماد است

کہتے ہیں یہ دنیا بھی اس زمرے میں آتی ہے چنانچہ بہت سارے بزرگوں نے دنیا سے پوچھا بھی ہے لیکن تسلی بخش جواب نہ ملنے پر ''دنیا'' کو دھتکارا ہے کہ تو بڑی شوہر بدلو نکلی، شرم تم کو مگر نہیں آتی ... لیکن دنیا اتنی بے شرم ہے پھر بھی باز نہیں آرہی ہے ایک کو لحد میں اتارتی ہے تو دوسرے سے نکاح پڑھوا لیتی ہے بلکہ شاید وہ لطیفہ بھی اس دنیا ہی کے بارے میں ہے کہ ایک عورت نے قاضی سے کہا کہ ایسا کرو کہ آٹھ دس سے میرا نکاح کر دو کیوں کہ میں موت کی ڈرائی ہوئی ہوں، لیکن یہ ایجادوں کی ماں مسز ضرورت اتنی بھی الزبتھ ٹیلر نہیں ہے۔

اس کا شوہر صرف ایک ہے وہ جو اپنے آپ کو انسان کہتا ہے لیکن معلوم نہیں کہ دوسرے جانور اسے کیا کہتے ہوں گے، تو انسان کی یہ بیگم جو ہے اسے ''شوہر بدلو'' تو نہیں کہیں گے لیکن ہمیشہ سے ایک ہی شوہر کے ساتھ رہی ہے لیکن اسے بچے پیدا کرنے کا چسکہ بلکہ ''ہوکا'' پڑا ہوا ہے، ان گھڑ پتھر کے زمانے سے لے کر موجودہ جوہری دور تک اس نے ناجانے کتنے بچے پیدا کیے ہیں اور اپنے شوہر سے ایجاد کروائے ہیں لیکن پھر بھی اس کا جی نہیں بھرتا، ہر روز کسی نہ کسی ایجاد کو جنم دیتی رہتی ہے بلکہ ایک ایک سے جی نہیں بھرتا تو بیک وقت جڑواں تڑواں چڑھواں پڑواں اور شڑواں تک پیدا کر لیتی ہیں،...خاص طور پر ریڈیو کی ایجاد کے بعد تو ایک تانتا سا بندھ گیا ہر روز کوئی نیا گل کھلاتی رہتی ہے

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغ نہاں اور

لیکن اب تک اپنے پہلوٹھی کے بچے یعنی پتھر کے ہتھیار سے لے کر ایٹمی ہتھیاروں تک اس نے جتنے بھی بچے جنے ہیں ان میں بتائے کہ سب سے بڑا بلکہ خطرناک کون ہے، یہ ایک سوال ہے اسے آپ بوجھو تو جانیں یا سہیلی بوجھ پہیلی بھی سمجھ سکتے ہیں کیا بتا سکتے ہیں محترمہ ضرورت بیگم کا سب سے زیادہ خطرناک بچہ کون سا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے آپ جلد باز لوگ ہیں اور سیدھا ایٹم بم یا ہائیڈروجن یا جراثیمی بم کی طرف جائیں گے لیکن یہ جواب غلط ہے کیوں کہ ان سب سے زیادہ خطرناک ہے، خاص طور پر اگر خونریزی کی بنیاد پر نمبر دیے جائیں تو خطرناک سے ہتھیار بھی اس سے تباہ کاری میں کم ہی ہوں گے۔

بلکہ ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سارے آہنی بارودی اور ایٹمی ہتھیار بھی اسی کے وجود نامسعود کا نتیجہ ہیں یعنی اسی سے نکلے ہیں اگر وہ نہ ہوتا تو ان میں ایک بھی نہ ہوتا، بلکہ شاید کوئی ہتھیار ہی نہ ہوتا، یہ سب کے سب اسی سے کسب فیض کرتے ہیں اور اس کی فرمائش یا خواہش پر پیدا کیے گئے ہیں، بس ہو گئی نا ترقی تمام، ہمیں پتہ تھا کہ جس طرح حضرت صاحب کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے ویسے ہی آپ ہتھیاروں تک جائیں گے لیکن ہتھیار سارے کے سارے اسی کے کہنے پر ایجاد ہوئے ہیں، شریر تو یہ اول درجے کا ہے اور بڑا ہی خونخوار اور آدم خور بھی ہے چنانچہ جب بھی اسے کوئی نئی شرارت سوجھتی ہے تو اپنی ماں محترمہ ضرورت بیگم سے کہہ دیتا ہے اور وہ ایجاد پیدا ہو جاتی ہے۔

یہاں پر آپ کا خیال ابلیس کی طرف جا سکتا ہے لیکن یہ جواب بھی غلط ہو گا، ہاں آپ اسے ابلیس کا آلہ کار یا اتحادی سمجھ سکتے ہیں کسی حد تک مرید اور کارندہ بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ یہ ابلیس کی طرح نادیدہ نہیں، باقاعدہ دکھائی دیتا ہے ہاں کچھ اقسام اس کی دکھائی نہیں دیتیں لیکن من کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو وہ بھی صاف صاف دکھائی دے جاتی ہے، مطلب یہ کہ اگر آئی شامت کی گرفت میں نہ آئے تو آئی کیو میں ضرور آجاتی ہیں، ویسے یہ باقاعدہ ایک مادی چیز ہے بلکہ آپ کو کلیو دیتے ہوئے یہ لائف لائن بھی دیتے ہیں کہ یہ اکثر تو مٹی کی بنی ہوئی ہوتی ہیں لیکن لوہے پتھر ریت اینٹ وغیرہ کی بھی ہو سکتی ہیں، اگر آپ اب بھی نہیں سمجھے تو آپ کو چرسی سمجھ کر ہم بھی چرسی ہو جاتے ہیں اور ایک آخری نشانی بتا دیتے ہیں وہ چرسیوں کا بوجھو تو جانیں والا لطیفہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ ایک چرسی نے اپنی مٹھی میں انڈا چھپاتے ہوئے دوسرے سے کہا کہ میری مٹھی میں کیا ہے۔

دوسرے نے کہا کچھ تو وضاحت کرو کوئی کلیو یا نشانی بتا دو ۔ پہلے نے کہا چلو یہ ایک ایسی چیز ہے جو باہر سے سفید اور اندر سے زرد ہے۔ دوسرے نے کافی سوچ و بچار کے بعد پھر پوچھا ... کچھ اور ... دوسرا بولا اسے لوگ پکاتے بھی ہیں، کھاتے ہیں اور بیچتے بھی ہیں، پہلا چرسی سوچ میں ڈوب گیا اور نعرہ مارتے ہوئے بولا، پہچان لیا پہچان لیا کسی نے گدھے پر مولیاں بار کر رکھی ہیں اور مولیوں کے بیچ میں گاجر ہے۔ جس پر دوسرا چرسی بولا ... نہیں نہیں یہ چیٹنگ ہے تم نے دیکھ لیا ہو گا، تو چلیے ہم بھی چرسی چرسی کھیلتے ہیں یہ جس خطرناک ایجاد اور اماں ضرورت کے بدقماش بیٹے کا ذکر ہم کر رہے ہیں اس کی بڑی مثال چین میں ہے، سوری پھر آپ کا جواب غلط ہے چین میں چینی نہیں ہوں گے تو کیا عرب ہوںگے، چینی جواب غلط ہے چلیے اتنا اور بتا دیں کہ یہ چیز سنا ہے چاند سے نظر آجاتی ہے، ارے بھائی اب تو بتا ہی دیں گے نہیں بتا سکتے ؟ ٹھیک ہے، ایک شعر سنئے اور اس میں ڈھونڈیئے

ریت کی اینٹ کی پتھر کی ہو یا مٹی کی
کسی دیوار کے سائے پہ بھروسہ کیا ہے

اگر ہم نے بتا دیا کہ نہ ریت ہے نہ پتھر ہے نہ اینٹ ہے نہ مٹی تو پھر بھی ہم آپ کی بے پناہ ذہانت پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ آپ دیوار کے بجائے ''سایہ'' کہیں گے اس لیے صاف صاف بتا دیتے ہیں وہ چیز وہ ایجاد وہ بیگم ضرورت اور انسان کی مشترکہ پروڈکٹ دیوار ہی ہے۔ دیوار کو ایجاد کرنے والے کا اگر پتہ چل جائے تو ہم اسے انار کلی کی طرح خود اپنے آپ میں چنوا دیں کیوں کہ دنیا میں جب سے اس کا وجود نامسعود پیدا ہوا تب سے نفرت کا عفریت انسان پر مسلط یہ دیوار ہی ہے جس نے ہابیل اور قابیل کو بھائیوں کے بجائے دشمن بنا دیا، یہ دیوار ہی تھی جس نے دنیا میں خطرناک جنگیں برپا کیں، قوم نسل مذہب زبان ملک وغیرہ کی شکل میں آکر کشتوں کے پشتے لگا دیے۔

کلہ مینار کھڑے کیے، انسانی تڑپتی ہوئی لاشوں پر دستر خوان بچھا کر کھانے کا لطف اٹھایا، غرض خونریزی اور جنگ و جدل کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے ہر کہیں کوئی نہ کوئی دیوار کھڑی نظر آجائے گی جو اکثر تو نظر نہیں آتی لیکن باہم دگر مقابل انسانوں کے ''اندر'' ہوتی ہے جہاں کہیں بھی یہ اینٹ پتھر ریت یا لوہے کی نہیں ہوتی ہے وہاں انسان کے اندر چلی جاتی ہے، بھائی اور باپ کے درمیان کھڑی ہو جاتی ہے، ہم مذہب ہم نسل اور ہم وطنوں کے درمیان بن جاتی ہے، یہ ہتھیار وغیرہ یہ جنگیں وغیرہ اور شر و شدت وغیرہ سب کے سب اسی سے نکلتی ہیں۔ سب سے بڑی اور خطرناک بات یہ ہے کہ یہ بچے بھی دیتی رہتی ہیں اور پھر اس کے وہ بچے اور بچے دے کر انسانی بچوں کے درمیان آکر لڑاتی رہتی ہیں۔

مقبول خبریں